افسانہ

"... وہ چراغ شاید"

“تابی! موسم کے تیور دیکھ رہی ہو؟ واپسی میں بھگتی آؤ گی اور پھر مہینہ پورا بیماری میں گزار دو گی”
شگفتہ نے خطرناک موسم کے باعث آج اسے کالج جانے سے منع کرنے کی کوشش کی تھی
“امی میں نے پوری رات جاگ کر ٹیسٹ کی تیاری کی ہے ایسے کیسے محنت پہ پانی پھیر دوں”
اس نے جلدی جلدی سے دودھ کا گلاس ختم کیا اور بیگ اٹھا کر “اللہ حافظ امی” کہتی گھر سے نکل آئی
موسم واقعی خراب تھا، کسی بھی وقت دھواں دھار قسم کی بارش ہوسکتی تھی، گھر سے کالج تک پندرہ منٹ کے پیدل راستے میں بارش ہوتی تو اس نے یقینا بری طرح بھیگ جانا تھا
اسے معلوم تھا اس طرح کے موسم میں اسٹوڈنس کیساتھ ٹیچرز کی حاضری بھی غیر یقینی تھی، اسٹاف روم میں گنتی کے دو چار ٹیچرز ہی اپنے حاضر ہونے پر افسوس کررہے ہوتے تھے
بات یہ تھی کہ آخر اس موسم میں کس چیز نے اسے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا تھا؟
جس راستے سے وہ کالج جاتی تھی وہاں ایک چھوٹا سا مزار تھا کسی سید زادی کو یہاں دفن کرکے اسکی قبر کا مزار بنادیا گیا تھا، لوگوں کا کہنا تھا وہ سید زادی اللہ لوک بندی تھی، اسکی دعاؤں میں شفاء تھی زندگی میں بھی لوگ اس کے پاس اپنی اپنی حاجتیں لے کر جاتے تھے وہ اللہ سے ان کیلئے دعا کرتی تھی اور اسکی مانگیں سبھی دعائیں قبولیت کی حد کو چھو لیتی تھیں،
گو کہ اسے مرے کئی زمانے گزر چکے ہیں مگر آج تک اس کے مزار پر لوگوں کا جمے غفیر ہوتا ہے، ہر دن کے بعد شام کا منظر یہاں دیکھنے لائق ہوتا ہے، مزار کے اندر صرف خواتین کو جانے کی اجازت تھی مرد حضرات دروازے کے باہر سے ہی دعائیں مانگ کر چلے جاتے تھے،
تابین کی دوست نے بتایا تھا آج عقیدت مندوں کیلئے بہت خاص دن تھا، اس دن مانگی جانے والی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں، مزار کے اندر رکھے دئیے جلاکر اپنی اپنی مراد مانگی جاتی تھی
کالج سے واپسی تک جل تھل ہوچکا تھا، تین بجے کے قریب جب اس نے مزار کے اندر قدم رکھا تو وہاں دو چار عورتیں ہی تھیں، کسی نے قبر پر چادر چڑھائی، کسی نے اگر بتی جلائی اور کسی نے مٹھائی کے ڈبے کھول کر دعا کیلئے ہاتھ بلند کئے!
اس نے باری باری سب کو دیکھا اور پھر ذرا سی اونچائی پر بنی مٹی کی شیلف پر ترتیب سے رکھے دئیے کی جانب بڑھی جو منت کے چراغوں کے نام سے جانے جاتے تھے، شاید ابھی تک کوئی اپنی منت لئے چراغ جلانے نہیں آیا تھا، سات دئیے تھے اور سبھی گل تھے، شروعات تابین حیدر نے کرنی تھی!
اس نے سب سے پہلے رکھے دئیے میں روئی ڈالی اور پھر پیالے میں تیل ڈالا جو وہ ساتھ والی دکان سے خرید کر لائی تھی، پھر تابین نے ماچس ڈھونڈی پچھلی قطار میں رکھے دئیوں کے بیچ میں ہی ماچس اسے مل گئی تھی، بارش اور پھر ساون کی بارشوں میں ہر طرف نمی پھیلی ہوتی تھی، ماچس بھی بنا بھیگے ہی نمی سے لتھڑی ہوئی تھی، ایک کے بعد ایک تیلی جلانے کی کوشش میں پوری ڈبی ختم ہوگئی تھی!
اسے شدید کوفت محسوس ہوئی، ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ باہر نکلے اور دکان سے نئی ماچس خریدے ، کسی نے اسکا کاندھا تھپتھپایا وہ پیچھے پلٹی تو وہاں کھڑی ایک خاتون نے اسے ماچس پیش کی اور اشارے سے اسے بتایا
یقینا یہ عقیدت مند مزار کے اندر باتیں کرنا بےادبی سمجھتے تھے! تابین نے بطور شکریہ سر ہلایا اور نئی ماچس سے تیلی جلائی شعلہ بلند ہوا جسے اس نے روئی کے قریب کردیا مگر تھوڑی ہی دیر میں ماچس جلتے جلتے ختم ہوگئی تابین نے دوسری تیلی جلائی وہ بھی جل کر گر گئی شاید روئی بھی بارش کی وجہ سے نمی کا اثر اوڑھ چکی تھی، یا پھر ہوسکتا ہے اسکی منت کا چراغ بھی اسکے دل میں چھپی مراد سے خائف تھا ماچس کی ڈبی آدھی رہ گئی تھی تابین نے مایوسی سے اپنے دئیے کو دیکھا اور کوشش ترک کردی!
دعا مانگنے کے بعد وہ پھر سے اپنا دیا جلانے کی کوشش کرنے لگی
باہر بارش کی آواز سے اندازہ ہورہا تھا آج موسم نے انت مچایا ہوا تھا،
اب کی بار تابین کی منت کا چراغ روشن ہوا اسکی آنکھیں میں تشکر ابھرا مگر پھر جیسے دیا بجھا اسکی آنکھیں معدوم ہوگئیں!
اسے دیر ہورہی تھی، اندھیرا ہونے میں وقت تھا مگر بارش نے وقت سے پہلے ہی دن کو رات شام میں بدلنا شروع کردیا تھا!
اس نے ایک آخری کوشش کی مگر وہ چراغ روشن نہیں ہوا تابین کی منت ادھوری رہ گئی تھی جاتے جاتے پلٹ کر اس نے اپنے بجھے دئیے کو دیکھا آنکھوں میں ہلکی سی لالی ابھری مزار کی دہلیز پار کرکے وہ مایوس لوٹ آئی!
دس پندرہ قدم چلنے پر ہی وہ مکمل پانی میں بھیگ گئی تھی، ہوا الگ طوفان برپا کررہی تھی یہاں اس نے مزار والی گلی کا موڑ کاٹا وہاں ہوا مزار کے اندر بنی باریک جالیوں سے ہوتی ہوئی دئیے سے ٹکرائی تابین حیدر کی منت کا چراغ روشن ہوچکا تھا، سات منتوں میں سے ایک منت جل اٹھی تھی جسکی روشنی اندھیرے میں مزار کے اندر راستہ سجھارہی تھی!!
کئی مہینے درگاہوں اور مزاروں کے چکر لگانے والی تابین حیدر کی یہ آخری منت تھی کیونکر نا روشن ہوتی!!
*********
اسے ڈور بیل بجانے کی ضرورت نہیں پڑی دروازہ پہلے سے کھلا ہوا تھا، صحن درخت کے پتوں سے بھرا جاچکا تھا، کچھ خشک اور کچھ تازہ گرنے والے پتوں پر چل کر جب وہ لاونج میں داخل ہوئی تو اندر کا منظر ہی عجیب تھا!
مٹھائی کا ٹوکرا میز پر رکھا تھا، شاپر سے جھانکتے فروٹ کسی کی آمد کا پتا دے رہے تھے، آپی صوفے پر رکھے شاپنگ بیگز سے کپڑوں کے جوڑے نکال رہی تھی
“یہ لو منہ میٹھا کرو”
شگفتہ نے کہنے کیساتھ ہاتھ میں پکڑے ڈبے سے گلاب جامن کا ٹکڑا تابین کے منہ میں ڈالا
“پھپھو آئی تھیں تمہاری ماعز اور تعبیر کا رشتہ طے ہوگیا ہے، پندرہ دنوں میں شادی کا کہہ رہی تھیں میں نے مہینے کی مہلت مانگی ہے”
تابین حیدر پتھر کا مجسمہ بن چکی تھی، ماعز اور تعبیر کے الفاظ نے رگوں میں دوڑتا خون جما دیا تھا،
“ارے! کتنی بری طرح سے بھیگ گئی ہو، جاؤ جاکر ڈریس چینج کرو بلکہ گرم پانی سے شاور لے لو، میں تمہارے لئے قہوہ بناکر لاتی ہوں، بیمار پڑ جاؤ گی، بارش میں کالج جانا ضروری تھا پاگل”
یہ تعبیر حیدر کی آواز تھی جو ہمیشہ کی طرح تابین کیلئے فکر مند تھی،
تابین نے سر ہلایا اور تھکی ہاری چال چلتی اپنے روم تک پہنچی!!
*******
“میں نے تابین کے رشتے کی بات کی تھی مگر بھابھی نے کہا کہ پہلے تعبیر کا سوچیں گے تابین تو ابھی پڑھ رہی ہے، پھر میں نے خود ہی سوچا تابین ہو یا تعبیر ہیں تو دونوں ہی میرے بھائی کی بیٹیاں، اور تعبیر تابین سے زیادہ سمجھدار ہے مجھے تمہیں ہمارے گھر کو زیادہ اچھی طرح ہینڈل کرے گی”
وہ ماعز کو دن میں ہونے والی واردات سنارہی تھیں جسے وہ پتھر کے مجسمے کی طرح سن رہا تھا، نظریں ٹی وی اسکرین پر تھیں اور سوچیں بھگدڑ مچارہی تھیں!
“تم یہی سوچ رہے ہو نا میں نے تمہارے لئے تم سے عمر میں بڑی لڑکی کا انتخاب کرلیا ہے؟
انہوں نے ماعز سے سوال کیا لیکن وہ جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا، وہ ہمیشہ سے کم گو اور خاموش طبع تھا، جن ناگوار باتوں پر احتجاج کرنا ہو وہاں بھی خاموشی اوڑھے رکھتا یہی وجہ تھی کہ وہ ہر بار زیادتی پر بھی خاموش رہ کر دوسروں کو اسکی جگہ فیصلے کرنے کا اختیار سونپ دیتا تھا!
“دیکھو ماعز ! تعبیر تم سے دو سال ہی بڑی ہے یہ معمولی سا ڈفرنس کوئی معنی نہیں رکھتا، تعبیر سلجھی ہوئی باشعور، سلیقہ مند لڑکی ہے، ہمارے گھر کو ایسی ہی لڑکی کی ضرورت ہے، میں بوڑھی ہورہی ہوں، تمہارے بابا وہ بھی عمر گزار چکے ہیں اپنی، میری جگہ تمہیں سہارا دینے کیلئے ، تمہارا خیال رکھنے کیلئے تعبیر جیسی مضبوط لڑکی ہی ہونی چاہئے تھی، ہمارا کیا ہے آج ہیں کل نہیں کاش ہماری کوئی بیٹی ہوتی جو اس عمر میں ہمارا بھی سہارا بن جاتی”
آخر میں وہ جذباتی ہوگئیں تھیں
ماں کے آنسوؤں سے ماعز ابراہیم کے مجسمے میں حرکت ہوئی اس نے اٹھ کر عفت ابراہیم کے سر کو سینے لگایا
“آپ نے میرے لئے بہترین فیصلہ ہی کیا ہوگا امی، مجھے کوئی اعتراض نہیں، آپ جہاں کہیں گی میں وہاں آپ کیساتھ کھڑا ہونگا”
اور یہ بات کہتے ہوئے ماعز ابراہیم ہی جانتا تھا کہ اس نے خود کو کس کند چھری سے ذبح کیا تھا!!
ماں کے سر پر بوسہ دے کر وہ کمرے سے نکل آیا!
******
حیدر اور عفت اپنے گھر کے دو ہی بیٹا اور بیٹی تھے،حیدر پہلوٹی کی اولاد تھے عفت کی شادی کم عمری میں ہی کردی گئی تھی، والدین اپنی عمر گزار کر اس جہان سے کوچ کرگئے تھے، حیدر کی دو بیٹیاں تھیں تعبیر اور تابین، تعبیر بینک میں جاب کرتی تھی جبکہ تابین ابھی پڑھ رہی تھی!
عفت ابراہیم شادی کے سات سال تک اولاد کی چاہ میں تڑپتے بلکتے رہے اللہ نے انکی قسمت میں دیر رکھ دی منتوں مرادوں ڈھیروں آنسووں کے بعد ان کی جھولی میں ماعز ابراہیم آیا تھا، جو انکی پہلی اور آخری اولاد ثابت ہوا تھا!
منتوں مرادوں سے ملی اولاد اکثر بگڑ جاتی ہے مگر ماعز ابراہیم عفت اور ابراہیم کیلئے اللہ کا بہترین انعام ثابت ہوا تھا!
ایک ہی محلے میں سڑک کے دائیں طرف ابراہیم ہاؤس کی عمارت کھڑی تھی جبکہ بائیں طرف حیدر ہاؤس کی دو منزلہ عمارت تھی!
ایک محلے میں رہتے ہوئے بھی عفت ماعز کو حیدر بھائی کے گھر جانے کی کھلی چھوٹ نہیں دیتی تھی وجہ یہ تھی کہ دونوں گھروں کے درمیان سڑک تھی جس پر گاڑیاں موٹر سائیکلیں وغیرہ گزرتی رہتی تھیں انہیں یہ خوف ہولائے رکھتا کہ سڑک پار کرتے ہوئے ماعز کسی گاڑی سے نا ٹکرا جائے،
وہ ماعز کو صرف تب ہی حیدر ہاؤس لیکر جاتیں جب انہیں خود بھی جانا ہوتا یہی وجہ تھی کہ ماعز ابراہیم تعبیر اور تابین سے زیادہ گھل مل نہیں سکا!
بچپن کا دور گزر کر جب جوانی نے پر پھیلائے تو ماعز ابراہیم کے احساسات پر تابین حیدر کے برہم مزاج اور ضدی طبیعت کی چھاپ بیٹھ گئی، وہ غصیلی تابین حیدر کے غصے پر دل ہار بیٹھا تھا!
دوسری طرف تابین حیدر اپنا سارا غصہ ماعز ابراہیم کے نام لکھ چکی تھی، وہ اپنی پھپھو کے اکلوتے بیٹے سے نہیں نہیں کرتے بھی بہت کچھ کر بیٹھی تھی جسے تاحال انا کے پردے میں لکا کر Idc کا بورڈ لگائے اکڑی ہوئی تھی!!
اظہار کے معاملے میں دونوں ہی پہلے آپ پہلے آپ کی پالیسی کو Follow کررہے تھے، شاید یہ جذبات مسحور کن ہی اتنے تھے کہ دونوں کو احساس ہی نہیں رہا تھا کہ جب دیر ہوجاتی ہے تو ہمارے پاس پچھتاووں کے کچھ نہیں رہتا !!
جیسے اب ہوا تھا!!
********
ماعز ابراہیم نے پہلی بار سگریٹ کو منہ لگایا تھا، پہلی بار اسکی آنکھوں میں لالی اتری تھی وصال کی پرچھائی بننے سے پہلے ہجر ٹھہر جائے تو روم روم سگریٹ کے اندرونی سفوف کی طرح پچھتاوں کہ بھٹی میں جلتا ہے!
وہ جل رہا تھا اور خود کو مزید جلانے کیلئے سگریٹ جلا رکھی تھی
سیل فون کی روشن اسکرین پر تابین حیدر کی کھکھلاتی ہوئی تصویر جیسے اس کے حال پر ہنس رہی تھی،
وہ وفا کی داستان لکھنے سے پہلے ہی بےوفا ثابت ہوگیا تھا!
کمرے میں سگریٹ کی مہک پھیلی تھی جس میں اب ماعز ابراہیم کی سنجیدہ ٹھہری ہوئی جذبوں سے عاری بھاری آواز شامل ہورہی تھی!
“ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں”
اس نے منہ سے سگریٹ کا دھواں فضا میں چھوڑا جو تابین حیدر کا عکس بن کر مٹ گیا!!
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں!
ماعز ابراہیم نے بےبسی سے اسکرین پر بےتحاشہ ہنستے چہرے کی مسکراہٹ کو چھو کر دیکھا!
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں!!
ماعز ابراہیم کے لہجے میں نمی گھلنے لگی تھی، آنکھوں میں جمع ہوتا سفید پانی تیزی سے سرخ رنگت میں ڈھلتا جارہا تھا!!
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
وہ سسکا!!
کسی کو…..
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں!!
ماعز ابراہیم کیلئے آکسیجن کم پڑ گئی تھی!
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں!!
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں!!
(منیر نیازی)
نظم پڑھ کر اس نے تصویر کے اوپری ڈاٹس پر کلک کیا ڈیلیٹ کے آپشن کے نیچے تصویر دھندلائی آنکھیں بند کر کے ماعز نے اوکے کے بٹن کو پش کیا!!
وہ پہلی بار رورہا تھا اور اس نے خود کو یہ باور کرایا کہ ماعز ابراہیم آخری بار تابین کو خود سے الگ کرکے رویا تھا!!
بند آنکھوں سے گرم سیال ٹپ ٹپ بےترتیبی سے رواں تھا!!
******
کمرے میں نیلے رنگ کی ہلکی سی روشنی پھیلی تھی بڑے سے بیڈ کے ایک کونے میں تعبیر حیدر سورہی تھی اور دوسرے کونے پر تابین حیدر کی آنکھوں میں جگراتے روشن تھے،
“ماعز ! تمہارے خیال میں لائف پارٹنر کیسا ہونا چاہئے؟”
تابین کے برتھ ڈے پر کیک کاٹنے کے بعد بڑوں کی بیٹھک الگ روم میں سج گئی تھی جبکہ یہ تینوں کزنز لاونج میں ہی نشست مقرر کرکے بیٹھے تھے، تابین نے اپنی بیسٹ فرینڈ کے فیانسی کو ڈسکس کیا تھا جو اسے اس طرح کی گیدرنگ میں جانے سے ہمیشہ ہی روک دیتا تھا، یونہی باتوں کے دوران تعبیر نے ماعز سے سوال کیا
جس پر ماعز کی بےارادہ سی نگاہ تابین کی طرف گئی اور واپس لوٹ آئی دونوں میں سے کسی نے بھی اس بات کو نوٹ نہیں کیا تھا ماعز کے دل کو اطمینان ہوا تھا،
تابین نے محسوس کرکے بھی چہرے پر مزید لاپرواہی اوڑھ لی تھی!
“لائف پارٹنر! جیسا بھی ہو بس غصے والا نا ہو”
سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ تابین کا چہرہ سرخ کرگیا تھا!
“مطلب لڑکی گندی سندی سی جیسی بھی ہو چلے گی مگر غصے والی ناقابل قبول”
ماعز نے کانوں کو ہاتھ لگائے!
وہ تابین کو غصہ دلانے میں کامیاب ہوگیا تھا!
“آپی یہ کیا لائف پارٹنر جیسے بورنگ سوال پوچھ رہی ہیں آپ ان سے یہ پوچھیں یونیورسٹی میں ٹوٹل کتنے افئیرز ہیں انکے، کتنی شائستہ مہذب لڑکیوں نے انہیں پرپوز کیا ہے اور یہ بھی کہ کون سی پولائٹ لڑکی کے پرپوزل کو انہوں نے ہاں کردی ہے”
تابین نے اپنے اندر کی ساری تلخی گھول کر تابڑ توڑ جملے ماعز کو پھینکے تعبیر ماعز کے برا منا جانے کے خوف سے ڈر گئی جبکہ ماعز دل ہی دل میں مرچوں جیسی پھلجڑیاں سمیٹ کر مسکراتا رہا!
“ماعز ابراہیم کو اس کے اماں ابا نے منتوں مرادوں سے مانگا ہے، ماعز کسی کو اتنی آسانی سے ملنے والا نہیں، مجھے حاصل کرنے کیلئے اگلی بندی کو بھی مزاروں پہ دھاگے باندھنے پڑیں گے اور چراغ جلانے پڑیں گے منت کے چراغ”
ماعز ابراہیم سفید کرتے میں شاہانہ چال چلتا اکڑ کر جارہا تھا!!
ماضی کا پردہ پٹا تو تابین کی نظر سوئی ہوئی تعبیر پر پڑی
” میری منت کا چراغ تو جلا ہی نہیں ماعز ابراہیم، جو دھاگے باندھے تھے وہ بھی شاید اڑ گئے تھے”
اس نے سسکی لی
دل برداشتہ ہوکر وہ کمرے سے نکلنے لگی کہ تعبیر کی آواز نے روکا
“کہاں جارہی ہو تابی؟
“نیند نہیں آرہی امی کے پاس سونا ہے”
“یہاں آؤ”
تعبیر نے بلایا تو اسے مجبورا قدم واپس موڑنا پڑے!
“لیٹ جاؤ”
تعبیر نے اپنے برابر جگہ بنائی مگر تابین وہیں جمی رہی
“لیٹ جاؤ تابی! اس وقت امی کی نیند ٹوٹے گی تو پریشان ہوجائیں گی”
تابین خاموشی سے اس کے برابر لیٹ گئی
تعبیر نے اپنا بازو اس کے گرد باندھا
“ابھی پورا ایک مہینہ پڑا ہے، ابھی سے مجھ سے دور جارہی ہو”
تعبیر کے پیار سے کہنے پر تابین نے آنکھیں سختی سے میچ لیں اور چہرے کو تعبیر کے بازو میں چھپا لیا!
“امی سے کہونگی تابین اکیلے میں ڈرتی ہے اس کیلئے بھی کسی جن یا شہزادے کا بندوبست کریں”
تعبیر کی شرارت پر تابین کے بےاختیار آنسو گرتے چلے گئے!
کچھ دیر تک تعبیر سوچکی تھی تابین کو اسکا وجود انگاروں کی طرح محسوس ہورہا تھا!
محبت ہمیں رشتوں کا لحاظ بھلا دیتی ہے یا پھر تابین حیدر خودغرض ثابت ہورہی تھی!
وہ ماعز ابراہیم کی خاطر اپنی سگی بہن سے حسد محسوس کررہی تھی!
اس نے سختی سے اس ناپاک خیال کو جھٹکا، محبت کو جڑ سے اکھاڑا اور رشتے کے تقدس کو اس کی جگہ پر مضبوط کیا!!
چند لمحے لگے تھے اسے خود کو جڑا ہوا ثابت کرنے میں!!
*******
شادی کی تیاریاں اختتامی مراحل میں تھیں، کارڈ چپھنے باقی تھے، تعبیر کی ساری شاپنگ میں تابین نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ماعز ڈرائیور ہوتا اور پھپھو تعبیر اور تابین بازاروں میں گھنٹوں اسے خوار کرتیں!
وہ اکثر مارکیٹ میں انکے ساتھ چلتے چلتے پیچھے رہ جاتا، قہقہے بکھیرتی ہزاروں ڈریسز نکلواتی، بارگننگ کرتی تابین حیدر اسے ماں کی یہ بات جھٹلانے پر مجبور کرتی کہ تابین میں بچپنا ہے، سمجھدار نہیں ہے، صرف وہی جانتا تھا کہ تابین حیدر کس قدر مضبوط ثابت ہورہی تھی!
اور اب جب وہ بھرم رکھ رہی تھی تو ماعز ابراہیم کو بھی ثابت قدم رہنا تھا شاید اسی میں سب کی بہتری تھی!!
بےشک اللہ صبر کرنے والوں کیساتھ ہے !!
اور بےشک اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے!!
چلتے چلتے تھک کر اگر وہ ٹھہرتا تو تابین کا اگنور کرتا رویہ انداز اسکے اندر ہمت پیدا کرتا وہ پھر سے آگے بڑھنے لگتا!!
********
آج صبح پھپھو کی کال آئی تھی بتارہی تھیں میں نے ماعز سے تعبیر کیلئے منہ دکھائی میں کنگن بنوائے ہیں اگر تعبیر کو کچھ اور پسند ہے تو بتادے ماعز اسکی پسند کی چیز لے آئے گا، یہ بات سن کر تعبیر نے یہ کہہ کر بات ختم کردی تھی کہ “نہیں جو پھپھو نے خریدا ہے وہی ٹھیک ہے سب”
تابین اس وقت سے تعبیر کو دیکھے جارہی تھی جس کے چہرے پر سکون تھا اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا!
“آپی؟”
“ہممم؟
“آپ ماعز ابراہیم سے محبت کرتی ہیں؟”
اس کے دل میں چھپا کلک آخر لبوں تلے آہی گیا تھا تعبیر نے حیرت سے اسے دیکھا اور مسکرائی
“دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں تابی! محبت کے جذبات جن کے دل پر دستک نہیں دیتے، تم مجھے انہی خشک روکھے پھیکے لوگوں میں شمار کرسکتی ہو، میرے لئے ماعز ابراہیم اگر اہم ہے تو بس اسلئے کہ اس سے میرا تعلق بننے جارہا ہے،اس سے زیادہ کچھ نہیں اور میرا خیال ہے نکاح کا رشتہ محبت سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتا ہے”
تعبیر نے بات ہی ختم کردی تھی وہ کمرے سے نکلی تو تابین نے گہری سانس خارج کی
تعبیر حیدر کیلئے ماعز ابراہیم ضروری نہیں تھا پھر کیوں ایک ہی خون سے بنی دونوں بہنوں کی فطرت، دونوں کے جذبات الگ تھے، اس کیلئے کیوں ماعز ابراہیم آخری شخص ہوگیا تھا!!
محبت اس کے رشتوں کے درمیان زہریلے ناگ کی طرح آ کھڑی ہوئی تھی!
وہ محبت کو کھونا افورڈ کرسکتی تھی مگر رشتوں کی زنجیریں ٹوٹ جانے کے صدمے سہنے کے قابل نہیں تھی!
اس نے بےدردی سے اپنے آنسو پونچھے!!
*******
نکاح سے دو دن پہلے بینک سے واپسی پر تعبیر کی بس کو حادثہ پیش آیا اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی!
موڑ کاٹتے ہوئے دوسری سڑک پر اچانک سے ایک گائے سامنے آگئی ڈرائیو سنبھال نہیں پایا اور بس الٹ گئی ، بس مسافروں سے کھچا کچھ بھری ہوئی تھی تعبیر حیدر کو بیٹھنے کیلئے سیٹ نہیں ملی اسے بھی باقی لڑکیوں کی طرح بس کی چھت پر لگے لوہے کے سہاروں کیساتھ لٹک کر جانا پڑا تھا، بس جب الٹی تو سب سے پہلے جسکا ہاتھ چھوٹا وہ تعبیر حیدر ہی تھی!
ایک کہرام تھا، ایک قیامت تھی، جو آئی اور گزر گئی، امی ابو پھپھو اور ماعز شاید سب نے اللہ کے فیصلے کے آگے صبر کرلیا تھا ایک تابین تھی جو خود کو تعبیر کا مجرم سمجھ رہی تھی، وہ دل میں یہ ٹھان کر بیٹھ گئی تھی کہ اسکی بہن کی خوشیوں کو اسکی نظر لگ گئی ہے، وہ تعبیر کی خوشیوں کی خود کو قاتل سمجھنے لگی تھی!
وہ اپنے اس غم میں اکیلی تھی، ماعز کا اس گھر میں آنا جانا بڑھ گیا تھا، وہ مامی اور ماموں کی دلجوئی کیلئے آتا تھا تابین جب اسے دیکھتی تو اسے لگتا جیسے کوئی بھیڑیا آگیا ہو، اسے نفرت محسوس ہوتی تھی ماعز کی ہمدردی سے!!
کچھ وقت گزرا لوگوں نے عفت کی سوچوں کے رخ کو تابین حیدر کیطرف موڑا ، انہوں نے ابراہیم سے صلح لی اور ماعز کے سامنے تابین حیدر کے نام کو پیش کیا!
ماعز کے دل نے سسکاری لی
خاموشی سے بس سر ہلاکر اقرار کیا!!
لیکن اب یہاں ماعز کی ہاں یا پھپھو کی دلچسپی معنی نہیں رکھتی تھی یہاں تابین حیدر تھی جو سنتے ہی سمندر کی کسی سرپھری موج کی طرح بپھر گئی تھی!!
********
“امی! آپ میرا کہیں بھی رشتہ کروادیں، مجھے منظور ہے مگر پلیز ماعز ابراہیم کا نام مت لیا کریں”
شگفتہ نے اس کے سامنے ماعز کا پرپوزل رکھا تھا
“کیا برائی ہے ماعز میں؟
“کوئی برائی نہیں ہے، امی میں.. میں آپی کی خوشیوں کی قبر پر اپنی زندگی کی سیج نہیں سجا سکتی”
“تعبیر مر گئی ہے تابی! وہ زندہ ہوتی اور تم ایسا کرتی تم تب گنہگار ہوتی اب وہ نہیں ہے اسکی خوشیاں اسکے ساتھ مر گئیں تھیں”
“میں بھاگ جاؤں گی امی”
اس نے جیسے بےبسی سے کہا
“خود کو جانتی ہو نا تم؟ حیدر افروز کی بیٹی ہو بخاری خاندان کی عزت ہو، تمہارے خاندان کے لوگ عزت کی خاطر جان قربان کردیتے ہیں، بھاگ جاؤنگی”
شگفتہ اور بھی بہت کچھ بڑبڑاتی ہوئی اس کے کمرے سے نکل آئیں
“جان دینا آسان ہوتا ہوگا امی زندگی دینا نہیں”
اس نے آہستگی سے کہا تھا
جسے اسکے کمرے کی دیواروں نے سن کر خاموشی سے سر جھکا لیا تھا!
**********
شگفتہ نے تابین کی بیسٹ فرینڈ کو اس معاملے میں شامل کیا تھا تاکہ وہ اسے سمجھائے ، اور ابھی وہ تابین کو سمجھانے اسکے روم میں بیٹھی تھی!
“تابی! جب کوئی مر جاتا ہے نا تو ہم میں سے کسی نا کسی نے اسکے بدلے اسکی جگہ لینی ہوتی ہے، یہ دنیا کا دستور ہے پیچھے رہ جانے والوں نے ایک دوسرے کا سہارا بننا ہوتا ہے، یہی زندگی ہے”
“لیکن یہ کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ ماعز ابراہیم کے خلاء کو تابین حیدر ہی پر کرے گی، یہ انکی زندگی کا مسئلہ ہے نا کہ ہماری، میں تو سوچتی ہوں کتنا خودغرض شخص ہے، ہمارے Loss کی پروا ہی نہیں ہے بس اپنی زندگی کے خالی پن ٹھیک کرنے ہیں”
تابین کے پاس ماعز کیلئے بدگمانیاں ہی رہ گئی تھیں،
“وہ اپنا نہیں تم سب کا ہی سوچ رہا ہے، لیکن تم غور کرو تب دکھے نا”
“تابی! دیکھو یہ اللہ کی رضا ہے، صبر کرکے خود کو اللہ کے فیصلے کے تابع کرلو”
“صبر ہی تو لکھا میری قسمت میں”
سبین اسے سمجھا کر چلی گئی تھی مگر وہ کسی طرح بھی خود کو اپنی بہن کی سیج پر نہیں بچھا سکتی تھی!
اسے لگتا تھا جیسے تعبیر کی قبر اسے بددعائیں دے گی، تعبیر کے نام کی خریدی ہر شے اسے خودغرض کہے گی!!
******
“اچھا؟ کیا کہوں میں، تم کوشش کرو پھر سے اسے منانے کی میں شام میں چکر لگاتی ہوں”
عفت نے فون بند کیا تو ماعز نے پوچھا
“کیا کہہ رہی تھی مامی؟
“نہیں مان رہی”
“جس طرح آپ لوگ اس سے پوچھ رہے ہیں نا اس طرح وہ مانے گی بھی نہیں”
ماعز نے چائے کا کپ خالی کرکے ٹیبل پر رکھا
“آپ ابو سے کہیں مامی ماموں سے پوچھ کر کوئی نکاح کی ڈیٹ فائنل کرلیں، پھر آگے میں خود سنبھال لونگا سب”
عفت نے ماعز کی بات کو سمجھتے ہوئے سر ہلایا!!
*******
تابین کو کچھ دیر پہلے کمرے میں لایا گیا تھا اسی وقت سے اس نے سر اٹھا کر کمرے کی کسی چیز کی طرف دیکھنے کا توقف نہیں کیا تھا، اسے لگتا تھا جیسے ہی وہ سر اٹھائے گی کمرے کی ہی چیز جو تعبیر کے نام سے منسوب تھی اسے کاٹ کھانے کو دوڑے گی،
جن پھولوں کی سیج پر وہ بیٹھی تھی وہ پھول جو لباس جو زیور اس نے پہن رکھا تھا حتی کہ اسے اپنا وجود بھی کانٹوں کی طرح چبھ رہا تھا!!
جلد از جلد وہ ان زیوارات کپڑوں اور اس روم سے فرار حاصل کرنا چاہ رہی تھی، ابھی وہ اس بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ
ماعز نے کمرے میں قدم رکھا سرخ لہنگے میں جہازی سائز بیڈ کے وسط میں وہ دو زانو بیٹھی تھی، ویسٹ کوٹ اتار کر اس نے صوفے پر دھری آہستگی سے چلتا ہوا بیڈ کے کنارے پہنچ کر کچھ دیر کو رکا شوز اتارے اور بیڈ پر بیٹھ کر کنفیوزڈ سی تابین کے گھٹنوں پر سر رکھ دیا
وہ اس افتاد پر گھبرائی اور اسے پرے ہٹانے کیلئے ہاتھ ماعز کے بالوں کے قریب لے جاکر واپس کھینچ لئے پھر آہستگی سے پیچھے کھسکنے لگی ماعز نے اسکی کلائی تھام کر اپنے ماتھے پر رکھی چوڑیوں نے احتجاج کیا ماعز نے تھکن زدہ گہری سانس خارج کی
“سر دباؤ”
بھاری مگر قدرے آہستہ آواز میں حکم صادر ہوا
تابین نے مٹھیاں بند کرلی تھیں جسے ماعز نے کھول کر اسکی ہتھیلی کو اپنے ماتھے پر دوبارہ رکھا
“پلیز تابی”
اسکی آواز میں ترحم تھا تابین کی کلائی پر ماعز کی انگلیوں نشان گہرے ہورہے تھے آخر تابین کو ہی اپنی ضد چھوڑنی پڑی
اب اسکی انگلیاں ماعز کے ماتھے پر حرکت کررہی تھیں ماعز نے سکون کے حصار میں آنکھیں بند کرلیں، تابین کے دوسرے ہاتھ کو سینے پر رکھ کر اپنے دونوں ہاتھوں کی گرفت مضبوط کرلی تاکہ وہ چھڑا نا سکے
کچھ لمحے یوں ہی گزرے
ماعز نے تابین کے دونوں ہاتھوں کو کھینچ کر ہتھیلیاں باری باری اپنی آنکھوں پر رکھیں پہلی بار ہتھیلی پر ماعز کے ہونٹوں کی چھاپ لگی تو تابین نے آنکھیں میچیں دوسری بار ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑائے
ماعز نے آنکھیں کھولیں
“مجھے لگتا ہے اللہ نے ہماری خاموشیاں سن لی ہیں! تمہیں نہیں لگتا تابی؟”
اس نے لیٹے لیٹے آنکھیں کھول کر تابین کو دیکھا جس نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر کچھ چھپانے کی کوشش کی تھی
ہم اپنا چہرا تب ہی چھپاتے ہیں جب وہاں افشاں کے رنگ بکھرے ہوتے ہیں یا پھر آنسوؤں کے!
وہ اٹھ بیٹھا اور تابین کے چہرے کو ہاتھوں سے آزاد کیا
“اللہ تعالی کہتے ہیں!
تم اس سے راضی ہو جاؤ جو میری چاہت ہے پھر میں تمہیں وہ دے دونگا جو تمہاری چاہت ہے”
ماعز کی آواز اسے جلتے انگاروں میں دہکا رہی تھی
تابین انکاریہ سر ہلاتی رہی، بیڈ کراون سے ٹیک لگائے آنسو اسکی بند آنکھوں کے کناروں سے گر رہے تھے
اسکے دونوں ہاتھ ماعز کی گرفت میں تھے
“تم نے گناہ نہیں کیا تابی ! تم نے تو صبر کیا ہے، اور تمہیں پتا ہے اللہ کے ہاں صبر کا رتبہ کتنا بلند ہے؟ صبر کا اجر کتنا بڑا ہے؟ آنکھیں کھول کر دیکھو تمہارے صبر کا صلہ”
اسکی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگی تھی
وہ جانتا تھا اسے مشکل ضرور ہوگی مگر ناکامی نہیں
” محبت بڑی اتھری شے ہے آزمائشوں کے بنا نہیں ملتی، اللہ نے ہمارا ساتھ ایسے ہی لکھا تھا، ماعز ابراہیم کو تابین حیدر اور تابین حیدر کو ماعز ابراہیم اسی طرح ہی ملنے تھے”
اس نے تابین کے گالوں پر ہاتھ رکھے
جنہیں تابین نے بےدردی سے اپنے چہرے سے ہٹایا
“تابی پلیز سمجھنے کی کوشش کرو”
“میں نے اس ڈر سے رونا چھوڑ دیا تھا کہ کہیں میرے آنسو آپی کی خوشیوں کی راہ میں حائل نا ہوجائیں”
روتے روتے وہ بولنا شروع ہوئی تھی
“میں نے خود کو اس فیصلے کے سپرد کردیا تھا”
“میں اپنی مانگی گئ ساری منتوں سے دستبردار ہوگئی تھی، مجھے لگتا ہے میری انہیں مرادوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، کاش میں نے کوئی منت نا مانی نا ہوتی، آج آپی زندہ ہوتیں، ماعز میری منت کے چراغ نے آپی کو مار دیا”
وہ جان چکا تھا تابین حیدر خود کو تعبیر کی موت کی وجہ بنارہی ہے،
“تعبیر کی زندگی اللہ نے اتنی ہی لکھی تھی میں نا ہوتا تب میری جگہ کوئی دوسرا ہوتا”
ماعز نے اسکے آنسو پونچھے
“تم تعبیر کی مجرم نہیں ہو تابی! جن خوشیوں کو تم سمجھ رہی ہو کہ وہ تعبیر کیلئے تھیں وہ ساری خوشیاں اصل میں تمہاری اپنی تھیں، ماعز ابراہیم تمہارا تھا، اسکے ساتھ والی زندگی تمہاری تھی،
اللہ نے تمہارا امتحان لیا تھا ایک آزمائش تھی اور پتا ہے تابی! تم نے اللہ کے فیصلے کو تسلیم کرکے اسے خوش کردیا تھا”
“تعبیر کی موت کا دکھ بہت بڑا ہے مگر کیا تم اللہ کو اس بار ناراض کردو گی؟ تم نے نہیں سنا وہ اپنے پیارے بندوں کو آزماتا ہے،
میری یا اپنی محبت کو کچھ دیر بھلا کر یہ سوچو کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے، اس بار بھی خود کو اس کے سپرد کردو”
وہ خاموش رہی تو ماعز نے اسے شرارت سے پکارا
“جان ماعز”
تابین نے آنکھیں کھول کر اسے انتہائی ناراض نظروں سے دیکھا وہ ان آنکھوں میں خفگی دیکھ کر مسکرایا
“اگر آپکی اجازت ہو تو میں اپنے انعام سے مستفید ہوسکتا ہوں؟
اسکے سنجیدہ مگر شرارت آمیز لہجے پر تابین نے اسے پیچھے دھکا دیا دل پر ہاتھ رکھ کر ہائے کرتا وہ بیڈ پر گرا
تابین نے بیڈ سے اترنے کی کوشش کی تو ماعز نے کلائی تھام کر روکا
کہاں؟
“اللہ کو منانے”
“منانے سے پہلے اسکا شکر ادا کرنا نہیں بھولنا، میرے اماں ابا نے مجھے سات سال منتوں مرادوں سے مانگا تھا”
اس نے جیسے جتایا تھا!
تابین نے نم آنکھوں کیساتھ بمشکل مسکراہٹ ضبط کی تھی
“اور ایسے نہیں جاتے نا ، ایکساتھ جاتے ہیں جان ماعز”
ماعز کی معصومیت پر وہ بھی مسکرائی
اور کھڑکی سے جھانکتا چاند بھی پر امید تھا کہ دل کی کسک دھلنے والی تھی!!

(اشنال)

This short story is originally written by Eshnal. Published on PagalAnkhonWaliLarki.com. All rights reserved. 

Your thoughts matter – share them below!

Scroll to Top