Delusion _ Episode 9
شام کے چار بجے فرحین عیسیٰ کو دئیے گئے کمرے میں داخل ہوئیں جہاں عیسیٰ ہمیشہ کی طرح فون میں گھسا ہوا تھا۔ اس نے ایک نظر ماما کو دیکھا پھر فون کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔
“ماما اور کتنا رہنا ہے یار میں تنگ آگیا ہوں, گھر جانا ہے مجھے”
فرحین عیسیٰ کے بلکل سامنے آکر کھڑے ہوئیں اور کہنے لگیں۔
“تم دونوں کا نکاح ہو جائے پھر چلتے ہیں”
عیسیٰ کے فون پر چلتے ہاتھ ٹھہرے۔ اس نے ماما کی طرف آنکھیں سکیڑ کر دیکھا
“کیا مطلب؟”
“عشاء کی نماز کے بعد تمہارا اور عکس کا نکاح ہے, ریڈی رہنا”
عیسیٰ کو لگا چھت اس کے اوپر آگری ہو۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اس نے فون بیڈ پر زور سے پھینکا اور جس قدر اونچی آواز اس کے گلے سے نکل سکتی تھی اس قدر چیخ کر بولا۔ اس قدر چیخا کہ فرحین بےاختیار دل پر ہاتھ کر پیچھے کو ہوئیں۔
“مجھ سے ایسی کوئی امید مت رکھنا آپ”
“آواز نیچی رکھو”
فرحین اسی کے لہجے میں اتنا ہی اونچا بولیں۔ دونوں غصے میں بھرے پھولی ہوئی سانسوں سے ایک دوسرے کو آنکھیں دکھائے دیکھ رہے تھے۔
“میں اس کو دیکھنا پسند نہیں کرتا اس سے نکاح کروں گا؟”
“تو مت دیکھنا, ہم تمہیں کہہ ہی نہیں رہے کہ اسے دیکھو, میری پسند سے شادی کرنی تھی ناں؟ بس عکس میری پسند ہے”
فرحین ساتھ رکھے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
“عکس اگر آپ کی پسند بھی ہو نا تب بھی اس سے شادی نہیں کروں گا”
دوبدو مقابلہ کررہا تھا ماں سے۔
“دیکھو عیسیٰ چیخ چلا کر تم مجھے ڈرا نہیں سکتے, اور زیادہ ہنگامہ کرنے کی کوشش کی تو یاد رکھنا, تمہارا باپ دل کا مریض ہے, تمہارے اس چیخنے چلانے سے اگر اسے ذرا سا بھی کچھ ہوا تمہیں اپنے ہاتھوں سے مار دوں گی میں”
“میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتیں آپ”
عیسیٰ نے انگلی اٹھا کر اپنے پورے غصے اور بدتمیزی کا دبدبہ بٹھانا چاہا۔
“زبردستی کہاں کررہی ہوں؟ تم نے پرامس کیا تھا میری پسند سے شادی کرو گے۔ چار شادیوں کی اجازت ہے نا تمہیں ، ایک میری پسند سے کرلو باقی خود دیکھ لینا, نا عکس تمہیں روکے گی اور نا میں”
انہوں نے اپنے ساتھ اس کی بھی آسانی کردی۔
“آپ کی بیٹی کو اگر رشتے نہیں مل رہے تو اس میں میرا قصور نہیں ہے, میں اس کی لائف بنانے کیلئے اپنی قربانی نہیں دے سکتا ٹھیک ہے؟”
کتنا بدتمیز لڑکا تھا یہ وللہ۔
“کسی بھی لڑکی کو رشتوں کی کمی نہیں ہوتی پتر! نا عکس میں کوئی عیب ہے اور نا اس کیلئے کوئی موزوں رشتہ ناپید ہے, میں اسے خود سے دور نہیں کرسکتی۔ اگر میرا کوئی دوسرا بیٹا ہوتا میں تمہارے آگے ہاتھ کبھی نا جوڑتی”
“آج عکس کیلئے ہاتھ جوڑ رہی ہیں کل مستبشرہ کیلئے بھی مجھے بلیک میل کریں گی۔ یہ چار شادیاں میں آپ کی پسند سے کرتا رہوں گا کیا؟”
عیسیٰ نے فرحین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غصہ کیا۔ کہ کسی طرح وہ باز آسکیں اپنے فیصلے سے کیونکہ وہ اپنی ماں کو جانتا تھا۔ فرحین بدتمیز نہیں تھی لیکن ضدی انتہا کی تھی۔
“مستبشرہ کی انگیجمنٹ ہوچکی ہے, وہ قصہ ختم ہوچکا ہے”
“چلو…. ایک قصہ ختم ہوتا ہے دوسرا شروع ہو جاتا ہے”
عیسیٰ نے اشتعال کو کم کرنے کیلئے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
“تم نے افراح سے شادی کرنی ہے ناں؟”
بغیر کسی لگی لپٹی کے انہوں نے عیسیٰ سے وہ پوچھ لیا جو بات وہ دونوں خود ایک دوسرے سے ڈائیریکٹلی کرنے سے گھبرا رہے تھے۔ عیسیٰ کے لب پل بھر کو خاموش ہوئے پھر اس نے کہا۔
“ابھی میں کوئی شادی وادی نہیں کرنا چاہتا کسی سے بھی, تین چار سال میں کوئی شادی نہیں کرنا چاہتا”
“عکس سے صرف نکاح کرنا ہے تم نے, کسی قسم کی کوئی اور ڈیمانڈ ہم تم سے نہیں کریں گے, تم اسے دیکھنا نہیں چاہتے نا؟ میں اسکا سامان نیچے کارنر میں جو خالی روم ہے وہاں سیٹ کردوں گی, تم تو ویسے بھی سارا وقت اوپر گزارتے ہو۔ شام میں جو تمہارے اوقات ہونگے اس میں وہ تمہارے سامنے نہیں آئے گی۔ مختصراً یہ کہ عیسیٰ تم نے صرف نام دینا ہے اسے, کیا اتنا بھی نہیں کرسکتے تم میرے لئے ؟”
بڑی مشکل میں پڑ گیا تھا وہ۔
“ماما میں اسے کوئی خوشی نہیں دے سکتا, میرے دل میں اس کیلئے اتنی سی گنجائش بھی نہیں کہ میں اسے آنکھ بھر کر دیکھ سکوں, جانتے بوجھتے آپ اپنی بیٹی پر ایسا ظلم کیوں کررہی ہیں؟”
وہ جانتا تھا وہ عکس کو کچھ نہیں دے سکتا اور وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ عکس کو اس کے حصے کی خوشیاں ملیں۔ بس ان خوشیوں کی قیمت عیسیٰ سے وصول نا کی جائے۔
“پتر محبت کچھ کیلئے کھیل ہوتی ہے اور کچھ کیلئے سانس لینے کی حد تک ضروری۔ اور جتنے سال تم نے اس کے ضائع کئے ہیں, اتنا تو حق بنتا ہے اسکا”
فرحین نے عیسیٰ کو یاد کروانا چاہا کے چار سال محبت کے نام پر رکھ کر عیسیٰ نے بھی گناہ کیا تھا۔
“صرف اتنے سے حق پر راضی رہ لے گی ساری زندگی؟ وہ کسی بات پر خوش نہیں ہوتی ماما, ہر دن اسکا ایک نیا مسئلہ ہوتا ہے ایک نئی شکایت , ایک نیا لفڑا, ان سب چیزوں کی وجہ سے بھاگا ہوں میں, آپ تو اسے حق دلارہی ہیں میری زندگی عذاب بنانے کا پورا پورا حق مل جائے گا اسے”
وہ بس انہیں چیزوں سے بچنا چاہتا تھا۔ اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتا تھا جس میں کوئی روک ٹوک نا ہو۔
“کچھ نہیں کہے گی تم سے, میں نے سمجھا دیا ہے اسے, سمجھ گئی ہے, اب تم بھی سمجھ جاؤ, اور بغیر کسی شور شرابے کے اور بنا کسی بدتمیزی کے۔ رات کو بزرگوں کے درمیان بیٹھ کر اپنی ماں کا مان رکھ لینا”
انہوں نے عیسیٰ کو سخت تاکید کی۔
“رات تک بھاگ جاؤں گا میں”
عیسیٰ نے ادھر ادھر کمرے کے چاروں طرف دیکھ کر کہا۔
“میں کبھی بھاگی ہوں؟ جب جب تم نے کچھ مانگا؟ گنجائش نہیں بھی ہوتی تھی تب بھی تمہارے آگے سب پیدا کرتی تھی تاکہ میرا بیٹا خود کو شہزادہ سمجھے۔ کیا میرا حق نہیں کہ میں بھی خود کو شہزادے کی ماں سمجھوں؟”
اففففف یہ ماؤں کی ایموشنل بلیک میلنگ۔ عیسیٰ نے گھور کر دیکھا۔
“اتنا بڑا میں ہوں نہیں جتنا بڑا کام آپ مجھ سے کروا رہی ہیں”
اس نے شکوہ کیا۔
“آج میرا کام کرلو کل میں تمہارا کام کردوں گی”
“ہممم, بیٹوں سے سودے بازی کرتی ہیں”
وہی شکوہ۔
“اور یہ جینز شرٹ پہن کر نہیں آنا, پتا لگے دولہا ہووڈی میں بیٹھا ہے”
فرحین نے ہنستے ہوئے اس کے حلیے پر چوٹ ماری۔ جس پر عیسیٰ کا دل جل کر کباب ہوگیا۔
“میں چاہے شارٹس پہن کر بیٹھوں آپ کو اپنے مطلب سے مطلب ہونا چاہئیے”
پھر بدتمیزی۔ لیکن اس بار فرحین نے ہنستے ہوئے اس کے س بال بکھیرے اور کمرے سے نکل گئیں۔
پیچھے عیسیٰ کو اس سخت ترین امتحان میں جلنے کو چھوڑ گئیں۔ عیسیٰ کو اور کچھ نا ملا تو اپنا چارجر اٹھا کر دیوار پر دے مارا۔ مگر یہ انتشار ایک چارجر توڑنے سے کم تھوڑی ہوسکتا تھا۔
____________
مری شہر کے پہاڑوں پر سرد ٹھنڈی رات اتری۔ ہڈیوں میں گھس جانے والی سرد ہوائیں ادھر سے ادھر اڑنے لگیں۔ بڑا سا چاند عکس کے کمرے کی کھلی کھڑکی سے جھانکنے لگا۔ سفید رنگ کے عام سے سوٹ میں سادہ سے حلیے میں وہ کھڑکی کے پاس کھڑی لان میں پھیلی ہوئی چاند کی روشنی کو دیکھ رہی تھی۔ وہ یہاں کی ٹھنڈ کی عادی تھی اس ٹھنڈ میں بھی وہ بغیر کسی اونی چادر یا جیکٹ وغیرہ کے گھر کے نارمل سے کپڑوں میں کھڑی تھی۔ اس کے بھورے بال اس وقت کیچر میں مقید تھے۔ گریل کو تھامے ہوئے گلابی ہتھیلیاں ٹھنڈک کی وجہ سے مزید گلابی ہورہی تھیں۔ فرحین نے کمرے میں قدم رکھ کر اسکی توجہ چاند سے ہٹاکر اپنی جانب مبذول کی۔
“پڑھ لی نماز؟”
“جی”
“نیچے سب جمع ہورہے ہیں, شکر ہے آج بارش نہیں ہے”
فرحین نے دل ہی دل میں موسم کے صاف ہونے پر شکر ادا کیا۔ کیونکہ یہ علاقہ ایسا تھا جہاں مٹی تھی اور بارش بڑا کیچڑ کر دیتی تھی۔
“ماما! کسی اور سے شادی کرادیں, کسی سے بھی, عیسیٰ سے نہیں”
عکس نے فرحین کو دیکھ کر نم آنکھوں سے فریاد کی۔
“عکس اب جب تمہیں مل رہا ہے تو تم ناشکری کررہی ہو”
فرحین نے غصے سے کہا کیونکہ عجیب لڑکی تھی یہ چاہتی کیا تھی اس کے ساتھ بھی نہیں رہنا اس کے بغیر بھی نہیں رہنا۔
“میں نے کبھی نہیں چاہا کہ وہ ایسے ملے, مل کر بھی نا ملنے جیسا”
عکس اداس تھی کیونکہ وہ جانتی تھی عیسیٰ کی کنپٹی پر پستول رکھ کر یہ نکاح کرایا جارہا تھا۔ اسے صرف عیسیٰ کا نام نہیں چاہئیے تھا۔ عیسیٰ کی محبت اس کی محبوب ترین شے بننا چاہتی تھی اور اس محبوب ترین بننے کے چکر میں وہ بن کیا گئی تھی؟
“اچھی لڑکیاں محبت نا ملنے پر صبر کرلیتی ہیں۔ محبت کرنا چھوڑ دینا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔ جو جتنا مل رہا ہے اس پر صبر کرو اور مجھ پر اپنی ماں پر ٹرسٹ کرو وہ آئے گا واپس, جتنی نفرت سے گیا تھا اتنی ہی محبت سے واپس آئے گا۔ بھروسہ رکھو مجھ پر عکس”
وہ یہاں عکس کو سمجھا رہی ہیں تھیں اور لان میں سب بزرگ جمع ہوچکے تھے۔ بس عیسیٰ کا انتظار تھا۔
“مجھے اس کی نفرت سے ڈر لگتا ہے ماما, اسکی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت دیکھتی ہوں تو مجھے خود سے نفرت محسوس ہوتی ہے”
عکس کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔
“اس کی نفرت کو آنکھیں کھول کر دیکھو اور پی جاؤ, ابھی بہت لمبا سفر کرنا ہے تمہیں عکس ابھی سے خود کو ہارا ہوا تسلیم کرلو گی تو اتنا آگے کیسے چلو گی؟”
عکس خاموش بیٹھی اپنے آنسو پونچھنے لگی۔
“اسے واپس لانا ہے ناں؟”
انہوں نے عکس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔ عکس خاموشی سے انہیں دیکھی گئی۔
“محنت کرنی ہوگی, کوشش کے بغیر کچھ نہیں ملتا”
وہ ہنوز خاموش بیٹھی اپنی ہتھیلیوں کو دیکھتی رہی۔
“میں آتی ہوں پھر سب کیساتھ ہممم؟”
وہ عکس کو سمجھا کر نیچے نکاح کے بارے میں پوچھنے چلی جاتی ہیں۔ چاند کھڑکی سے گزر کر عکس کے چہرے پر چھا گیا تھا۔
______________
چاند اس ضد پر صدقے جارہا تھا۔ وہ وائٹ ہووڈی میں بیٹھا نکاح خواں کے کلمات سن رہا تھا۔ وائٹ جینز وائٹ شرٹ وائٹ ہووڈی وائٹ شوز۔ منہ پر بارہ بجائے۔ سر جھکائے بزرگوں کے درمیان بیٹھا ملک عیسیٰ اعوان۔
دستخط کرتے وقت اس نے اتنے زور سے اپنا نام لکھا کہ کاغذ کے اس صفحے نے بھی آہ بھری ہوگی۔ سارا غصہ وہ ان پیپرز پر نکال دینا چاہتا تھا۔
پاپا نے گلے لگایا, زور سے بھینچا عیسیٰ نے ہونٹوں کو آپس میں پیوست کرکے اپنے اشتعال کو روکا۔ اس کے بالوں کے ڈمپل اس لمحے گہرے ہوئے۔ سردی میں پسینہ آگیا۔ باری باری سب بزرگ اس کے گلے لگ کر مبارکباد دینے لگے۔ یہ مرحلہ عیسیٰ کو اپنی زندگی کا مشکل ترین مرحلہ محسوس ہوا۔ اسے لگا اس سے صابر انسان اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ جیب میں رکھا فون بجنے لگا وہ جانتا تھا فون پر کون ہے۔ فون کو بجنے دیا۔ اس وقت وہ کسی سے بھی بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ دل کے اندر ایک آگ سی لگی ہوئی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا اوپر جاکر عکس کو تھپڑوں سے لال کر آئے۔ کیونکہ وہی تو اس فساد کی جڑ تھی۔
دوسری جانب قلم چلنے سے پہلے عکس کے آنسو اس سفید کاغذ پر گرے۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے اپنا نام لکھا۔ اب وہ عکس عیسیٰ اعوان بن چکی تھی۔
اور یوں ڈری سہمی ہوئی تھی جیسے اس نے کسی گناہ کے پیپر پر سائن کئے ہوں۔ یہ خیال اس کی جان کو آگیا تھا کہ عیسیٰ پر وہ زبردستی مسلط ہوگئی تھی۔ ماما نے گلے سے لگاکر کافی دیر اسے پرسکون کرنے کی کوشش کی۔ مگر جو بےسکونی وہ اپنے نام کر چکی تھی اس کے بعد اسے سکون نصیب نہیں ہونا تھا۔
_______________
سب مہمان چلے گئے تھے۔ پاپا بھی سوگئے تھے۔ فرحین نے عیسیٰ کو گلے لگانے کی کوشش کی تو عیسیٰ نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
“میں خوش نہیں ہوں, ابھی کسی کے گلے نہیں لگ سکتا”
عیسیٰ کے سخت لہجے نے فرحین کو تکلیف دی جسے وہ سہہ گئیں۔
“مجھے صبح سات بجے اٹھا دینا آپ۔ میرے کچھ دوست باہر سے آرہے ہیں پاکستان وزٹ کرنے میں ان کے ساتھ گلگت جانا ہے”
عیسیٰ اپنا بیگ پیک کررہا تھا۔
“اس خراب موسم میں اتنے دور جاؤ گے؟”
فرحین نے یہاں کے موسم کی کنڈیشن دیکھ کر کہا۔
“آپ کی خوشی کیلئے وہ کیا ہے جو مرجاتا تب بھی نا کرتا۔ اب مجھے بھی تھوڑا خوش ہو لینے دیں”
عیسیٰ کا لہجہ ہنوز بدتمیزی پر تھا۔
“کتنے دن وزٹ ہے؟”
“کوئی پتا نہیں”
مصروف سے انداز میں اس نے جواب دیا۔
“اب میں وہ کروں گا جو میرا دل کرے گا”
اس نے اپنی بات پر زور دیا۔ فرحین کو اب یہ سب سننا ہی تھا۔ وہ تیار تھیں اسی قسم کے ری ایکشن کیلئے۔ بڑا احسان کرلیا تھا ماں پر اب اسے جتانا بھی تو تھا۔
“میں کردوں پیکنگ؟”
فرحین نے اس کے تیزی سے چلتے ہاتھوں سے بار بار پھسلتی چیزوں کو دیکھ کر ہیلپ کرنے کو کہا۔
“مجھے ٹھیک صبح سات بجے اٹھا دینا آپ, اینڈ گڈ نائٹ”
گڈ نائٹ کا مطلب تھا نو مور بحث۔
فرحین نے اس کے چہرے کو کچھ دیر دیکھا پھر گہری سانس بھری اور کمرے سے نکل گئیں۔
_____________
صبح عیسیٰ جاچکا تھا۔ ایک گاڑی آئی تھی گھر کے باہر جس میں کچھ دوست تھے۔ اس گاڑی میں بیٹھ کر اس نے مڑ کر پیچھے اپنی ماں کو نہیں دیکھا۔ جس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور لب پر بخیریت سفر کی دعائیں۔
بیٹا اپنے سفر پر نکلا اور بیٹی کو لے کر وہ دونوں میاں بیوی لاہور کیلئے نکلے۔ عکس اتنے لمبے سفر کی عادی نہیں تھی۔ اور کچھ اس نے سوچا سوچ کر اپنی طبیعت خراب کردی تھی۔ لاہور پہنچتے ہی عکس کو گہرے بخار نے لپیٹ میں لے لیا۔ اسے بلکل ہوش نہیں رہا کہ وہ کس جگہ ہے کس گھر میں ہے بخار کی شدت میں وہ نیم بے ہوش تھی۔
فرحین نے عکس کیلئے وہ بند کمرہ سیٹ کیا جو نیچے والے پورشن کے سب سے الگ تھلگ حصے پر تھا۔ اس کا دروازہ بھی ایک بند گلی نما دیوار کی طرف کھلتا تھا۔ کھڑکی سے لان کا پچھلا حصہ نظر آتا تھا جہاں کسی کا گزر نہیں ہوتا تھا۔ وہاں ایک لمبا سا درخت تھا۔ جس کی شاخیں گرمیوں میں دور دور تک پھیل کر اس کمرے کو ڈھک دیتی تھیں۔ سردیاں ہونے کے باعث اس کے پتے آدھے سے زیادہ غائب تھے۔ کمرے کی دیوار کے بلکل سامنے کچن تھا۔ اور کچن کیساتھ جڑے دو کمرے جن میں سے ایک عیسیٰ کے ماما پاپا کا تھا اور دوسرا گیسٹ روم تھا۔ درمیان میں کھلا سا ٹی وی لاؤنج تھا۔ عکس کے روم کی بیک سائیڈ سے اوپر جانے والی سیڑھیوں پر عیسیٰ کا کمرہ تھا۔ اس پورشن میں صرف دو کمرے تھے۔ ایک عیسیٰ کا لیونگ روم اور دوسرا عیسیٰ کا گیمنگ روم۔ پورے گھر میں عیسیٰ بس یہیں پایا جاتا تھا۔ یا زیادہ سے زیادہ اوپر چلا جاتا تھا۔ کونے سے نکلتی اوپر جانے والی سیڑھیوں سے کھلے آسمان کے نیچے وقت گزار لیتا تھا۔ عیسیٰ فی الوقت گلگت میں تھا۔
دو دن بعد عکس نے مکمل آنکھیں کھولیں۔ وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی ہوئی تھی۔
“میں نے سوچا تھا میری بیٹی آئے گی تو دونوں مل کر اس گھر کو نئے سرے سے ڈیکوریٹ کریں گے”
فرحین نے عکس کیلئے گلاس میں فریش جوس ڈالا۔
“اٹھ جا پتر اپنا گھر دیکھ لے”
فرحین نے پیار سے کہا ساتھ ہی اسے جوس کا گلاس تھمایا۔
“کتنا پریشان کرتی ہوں نا میں آپ کو؟”
عکس نے گلاس ہاتھ میں لیا اور شرمندگی سے کہا۔
“آنکھیں نا کھول کر تم نے مجھے واقعی میں پریشان کردیا تھا, اب بستر چھوڑو اور میرے ساتھ شاپنگ کرنے چلو”
“آپ کا آف ہے آج؟”
عکس نے پوچھا۔
“جی میری جان میرا آف ہے آج, پیارا سا تیار ہوکر نیچے آجاؤ تمہیں لاہور کے شاپنگ مالز گھماتی ہوں”
ان کی بات پر عکس ایک لمحہ کو مسکرائی پھر ایکدم اسکی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
“آپ نے بولا تھا اس کے سامنے نہیں آنا”
عکس کو دو دن بستر پر پڑے رہنے کے بعد عیسیٰ یاد آیا۔
“وہ گلگت سے واپس نہیں آیا ابھی تک, اسے چھوڑو ابھی تم جلدی سے نیچے آؤ, بہت شاپنگ کرنی ہے ٹائم نہیں ہے”
فرحین اسے نیچے جلدی آنے کی تاکید کرکے چلی گئیں عکس نے جلدی سے جوس ختم کیا اور تیار ہونے لگی۔
______________
“ماما کی بات نہیں ٹال سکتا میں, وہ بولیں گی آگ میں کھڑے ہو جاؤ تو کھڑا ہوجاؤں گا”
عیسیٰ نے بلند و بالا پہاڑوں کو سر اٹھا کر دیکھتے ہوئے افراح سے کہا۔
“بہت محبت کرتے ہو اپنی ماما سے؟”
افراح کے لہجے میں ہلکی سی نمی تھی
“ہممممم, وہ بھی بہت کرتی ہیں”
عیسیٰ کو ماما کی یاد آرہی تھی اب۔
“میں تمہاری زندگی میں کہاں ہوں عیسیٰ؟”
بلآخر اتنے مہینوں کی دوستی کے بعد اس نے عیسیٰ سے پوچھا ہی لیا۔
“ماما کی بات مان کر بھی میں اس دن سے ابھی تک تمہارے ساتھ یہاں کھڑا ہوں, اب تم خود سوچ لو”
ڈھکے چھپے لفظوں میں اظہار۔ وہ دونوں کھل کر بات نہیں کرتے تھے۔
“کب تک میرے ساتھ کھڑے رہو گے؟”
اس نے پوچھا۔ عیسیٰ نے اس کی طرف دیکھا۔
برف سے ڈھکے پہاڑ کتنے سندر لگتے ہیں ناں؟ ان پہاڑوں کے بیچ کھڑے یہ دو لوگ جن کی بیشتر عادتیں ایک دوسرے سے ملتی تھیں۔
“جب تک تم چاہو گی”
عیسیٰ نے بات اس پر ڈال دی۔ وہ مسکرائی۔
“تمہیں اس سے محبت تھی, یاد ہے؟”
“محبت تھی”
عیسیٰ نے اپنے لفظ پر زور دیا۔
“بچپن کی محبت کبھی بھولتا نہیں انسان, ایک گھر میں رہ کر ایک کمرے میں رہ کر, چوبیس گھنٹے ایک ساتھ رہ کر تمہیں پھر سے اس سے محبت ہو جائے گی”
افراح نے بےدلی سے کہا اور تلخی سے مسکرائی۔ وہ بڑا ہرٹ ہوئی تھی جب عیسیٰ نے اسے بتایا تھا وہ نکاح کر آیا ہے۔
“ایک گھر میں رہوں گا ایک کمرے میں نہیں, نہیں آئے گی میرے سامنے وہ, پیپر میرج سمجھ لو”
عیسیٰ اسے یقین دلا رہا تھا۔ محبت کا اظہار اس طرح بھی ہوسکتا تھا؟ باتوں ہی باتوں میں دونوں ایک دوسرے کو اپنا بنارہے تھے۔
“ان پہاڑوں کی قسم تمہارے ساتھ ہونے سے سب کچھ بہتر لگنے لگتا ہے”
افراح کا اس قدر خوبصورت انداز میں کیا گیا اظہار عیسیٰ کے دل کے اندر تک اتر گیا تھا۔ وہ مسکرایا اتنے دنوں بعد وہ دل سے مسکرایا۔
… جاری ہے
(اشنال)
Bohat hi Kamal epi
Maza aa jata hai parh kar
Allah pak Aap ko kamyabi dain ameeen
آمین 🌸
Waiting for next epi… Syeda
🌸
Boht he umdaa api the Kamal kr deya,
اچھی لڑکیاں محبت نہ ملنے پر صبر کر لیتی ہے،پاگل آنکھوں والی لڑکی کے الفاظ یاد آ گئے💯🦢
شکریہ 🌸