Delusion - Episode 8
“میں اچھی ماں ثابت نہیں ہوئی, نا عیسیٰ کی اور نا ہی تمہاری, عیسیٰ کو پیار پیار میں بےجا آزادی دے دی, اور تمہیں بیٹی بنا کر بھی دکھ سکھ نہیں بانٹ سکی”
فرحین اور افراح کال پر موجود تھیں۔ زندگی میں پہلی بار وہ اس قسم کا دکھ بانٹ رہی تھیں۔
“ایسا نہیں سوچیں ماما, ہم اچھی اولاد نہیں بن سکے, جنہیں اتنا پیار محبت اور آزادی ملا ہم نے سب کا غلط استعمال کیا اور خودسر ہوگئے”
عکس ابھی بھی بیمار تھی۔ جنہیں دل کے روگ لگ جائیں وہ سالوں بیمار ہی رہا کرتے ہیں۔
“میں ماما نہیں تھی تمہاری؟ ایک بار تو بولا ہوتا کہ عیسیٰ پریشان کررہا ہے”
انہوں نے شکوہ کیا۔
“ماما ہم لڑتے رہتے تھے, روٹھ جایا کرتے تھے, ہفتے ہفتے بات نہیں کرتے تھے۔ یہ سب کچھ عام سا تھا۔ مجھے لگا تھا عیسیٰ ناراض ہوکر ایسا کررہا ہے۔ مجھے پریشان کررہا ہے کچھ دنوں میں پہلے جیسا سب ٹھیک ہو جائے گا, مجھے اندازہ نہیں تھا ماما اس بار عیسیٰ ناراض ہوکر نہیں گیا تھا۔ عیسیٰ تو بدل گیا تھا عیسیٰ کا دل بدل گیا تھا”
عکس کی آواز بھرا گئی تھی۔
“بہت زیادہ بدتمیز ہوگیا ہے, رشتوں کا احساس ہی اس کے اندر سے مرگیا ہے, تو پریشان نا ہو پتر, میں اسے سمجھاؤں گی۔ چھوڑ دے گا وہ افراح کو”
فرحین نے تسلی دی۔
“ماما وہ افراح کو گھر لے آیا تو؟”
“سوچنا بھی نہیں , ایسا سوچنا بھی نہیں, اس گھر میں صرف وہی لڑکی آسکتی ہے جسے میں آنے کی اجازت دوں گی”
فرحین کو عکس کی اس بات پر غصہ آیا۔
“وہ روئے گا تو آپ مان جائیں گی”
“میرا پتر کبھی نہیں رویا, باپ آپریشن تھیٹر میں پڑا ہاتھوں سے نکل رہا تھا۔ تب بھی مجھے چپ کروا رہا تھا۔ ایک آنسو نہیں بہایا عیسیٰ نے, جو باپ کیلئے نہیں رویا وہ لڑکیوں کے پیچھے کیوں روئے گا”
فرحین نے عیسیٰ کے سخت دل پر تبصرہ کیا۔
“محبت بڑے بڑے پتھروں کو رلا دیتی ہے ماما, جو ماں باپ کیلئے نہیں روتے وہ اکثر محبت کرکے کمزور پڑ جاتے ہیں، وہ روئے گا آپ کے سامنے آپ مان جائیں گی”
محبت انسان کو بعض اوقات خودغرض بنادیتی ہے۔ جس طرح اس وقت عکس خودغرض بن گئی تھی۔ زبردستی کسی کو اپنے ساتھ باندھ کر رشتہ نہیں چلایا جاسکتا تھا۔ وہ غلطی پر تھی۔ عیسیٰ پر ہر طرف سے دباؤ ڈال کر وہ اسے واپس تو لاسکتی تھی مگر کیا اس کے دل میں اپنے لئے وہی جگہ بناسکتی تھی جو آج سے چار سال پہلے تھی؟
“پتر میں عیسیٰ کی ماں ہوں وہ میرا باپ نہیں ہے، اس نے تو ساری زندگی ماں کا پیار ہی دیکھا ہے۔ اور یہ ماں ہی ہے جس نے اس کی عزت پورے خاندان میں بنائی ہوئی ہے۔ ماں پیچھے سے ہٹ جائے گی ناں تو گر جائے گا زمین پر۔ میری چاہے باتیں نا مانے پر میرا پتر میری ناراضگی کبھی نہیں سہہ سکتا, میری بیٹی کو اتنا پریشان کرکے خود اس افراح کے ساتھ انجوائے کرے گا؟ ایک دو دن بات کرنا چھوڑوں گی ناں تو خود بےسکون ہو جائے گا, بےحس ہے میرا پتر مگر ماں کیلئے اتنا بےحس نہیں ہے کہ میں نظریں پھیروں گی تو گھر کا دروازہ پار کر جائے گا”
عکس خاموش رہی۔ تو فرحین نے اس سے پوچھا
“عکس ایک سچ بات بولوں؟”
“بولیں ماما”
” میرا پتر تمہارے قابل نہیں ہے, یہ جتنی محبت تم اس سے کررہی ہو اس کے لائق نہیں ہے وہ, ضرورت سے زیادہ محبت یا عزت لوگوں کو راس نہیں آتی۔ وہ تم سے شادی کر بھی لے تب بھی وہ تمہاری محبت کی عزت کبھی نہیں کرے گا۔ کیونکہ مفت میں ملنے والی قیمتی سے قیمتی چیز بھی سستی لگتی ہے”
عکس یہ سن کر فوراً بولی۔
“میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی ماما, میں چاہتی ہوں مجھے صبر آجائے۔ میں اسے دیکھنا چھوڑ دوں, ہفتے دو ہفتے میں اسے نہیں دیکھتی میں صبر کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں۔ لیکن جب میں مڑ کر وہاں جاتی ہوں اسے افراح کے ساتھ دیکھتی ہوں تو میرا صبر ٹوٹ جاتا ہے”
عکس اب رونے لگی تھی۔
“وقت کیساتھ کہتے ہیں زخم بھرنے لگ جاتے ہیں ماما میرا زخم بھرتا نہیں ہے, میں جس دن اسے افراح کیساتھ دیکھتی ہوں مجھے ہر دن کی تکلیف پہلے دن سے زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہے”
عکس کے رونے پر فرحین کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
“میں اللہ سے محبت کرنا چاہتی ہوں, اللہ کہتا ہے میرے لئے اپنی سب سے قیمتی چیز قربان کرو۔ عیسیٰ میری سب سے پیاری چیز ہے ماما, میں اسے اللہ کیلئے قربان کردینا چاہتی ہوں مگر میرے سے نہیں ہوتا۔ جتنے حوصلے سے میں آگے بڑھتی ہوں دو دن کے اندر میں اسی دل شکنی سے دلدل میں دوبارہ جاکھڑی ہوتی ہوں۔ مجھ سے عیسیٰ کو دل سے نکالنا نہیں ہورہا میں اپنی قیمتی چیز چاہ کر بھی قربان نہیں کرپارہی”
وہ بات کرتے ہوئے مسلسل رو رہی تھی۔
“مجھے ڈر لگ رہا ہے تمہارے رونے سے۔ تمہارے آنسو میرے بیٹے کو لگ جائیں گے, میرا ایک ہی بیٹا ہے یہ آنسو اسے لگ گئے تو وہ برباد ہو جائے گا”
فرحین نے اپنے انسو پونچھے۔
“رونا نہیں چاہتی ماما مگر میرے آنسو نہیں رکتے اسے افراح کیساتھ دیکھتی ہوں تو میرا سانس بند ہونے لگتا ہے, میں افراح کے پاس بھی گئی اس سے بھی میں نے کہا۔ تمہاری وجہ سے میں سو نہیں پاتی, اس نے کہا عیسیٰ تمہارے پاس واپس چلا گیا تو میں اسے چھوڑ دوں گی۔ لیکن ماما جب تک وہ اس کیساتھ رہے گی عیسیٰ اسے کیسے چھوٹے گا؟ ماما یہ عورت دوسری عورت کی تکلیف کیوں نہیں سمجھتی؟”
دونوں ماں بیٹی فون پر رو رہی تھیں۔ فرحین کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسے عکس کی تکلیف دور کرے۔ کیسے وہ بچوں کے درمیان کھیل کھیل میں پیدا ہو جانے والی محبت کا کوئی حل ڈھونڈے۔ کیسے وہ عکس کو صبر دلا دے یا پھر کس طرح عیسیٰ کو عکس کیلئے راضی کردے۔
“تم نے اپنی طرف سے آخری حد تک کوشش کی ہے، رہنے دو اسے وہاں، یہ لڑکیاں جتنی تیزی سے آتی ہیں اتنے ہی ہوا کے جھونکے کی طرح چلی بھی جاتی ہیں۔ اب کوئی ضرورت نہیں عیسیٰ کے ترلے کرنے کی یا کسی افراح وغیرہ کے پاس جانے کی۔ وہیں چھوڑ دو اسے جب تھک جائے گا تب لوٹ آئے گا”
فرحین کو بہت برا لگ رہا تھا عکس کا یوں ٹکے ٹکے کے لوگوں کے آگے جاکر عیسیٰ کو مانگنا۔ اللہ نے بندے کو عزت دار پیدا کیا ہے۔ اللہ کو نہیں پسند اسکا بندہ, بندوں کے آگے ضرورت سے زیادہ جھک کر اپنی عزت ختم کردے۔ لیکن محبت میں انسان اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی ذات کو دوسرے لوگوں کے سامنے ہلکا کردیتا ہے۔
“اگر وہ لوٹ کر نہیں آیا تو؟”
“عکس اگر مجھ پر یقین ہے تو پُرسکون ہوجاؤ, افراح میرے گھر ایک قدم بھی نہیں رکھ سکتی۔ تم نا ہوئی کوئی اور ہوگی لیکن افراح کبھی نہیں ہوسکتی”
عکس کو جتنا یقین دلایا جاتا بےکار تھا۔ عکس کا مسئلہ تو یہ تھا کہ وہ خود کو عیسیٰ کے پیچھے جانے سے بھیک کی طرح عیسیٰ کو مانگنے سے خود کو روک نہیں سکتی تھی۔ اس کی تکلیف یہی تھی کہ وہ صبر نہیں کر پارہی تھی۔ وہ اسے وہیں چھوڑ کر واپس نہیں پلٹ سکتی تھی۔ بہادر نہیں تھی وہ۔ عیسیٰ کی محبت کسی آسیب کی طرح اس کیساتھ چمٹ گئی تھی۔
محبت کا کسی اور کے ہو جانے پر صبر کرلینا بڑا ضروری ہوتا ہے۔ جو صبر کرلیتے ہیں خاموش ہو جاتے ہیں بےوفاؤں کو وہیں چھوڑ آتے ہیں وہی کامیاب ٹھہرتے ہیں اس کے برعکس, عکس جیسے لوگ جو بےوفاؤں کے تلوؤں سے چمٹ جاتے ہیں وہ پھر ذلیل و رسوا ہی ہوتے ہیں۔
“ماما میرے لئے دعا کریں مجھے صبر آجائے”
وہ سسکی۔
“عکس شادی کرلو, میرا بیٹا تمہارے قابل نہیں ہے”
فرحین نے اسے سمجھانا چاہا جس پر عکس مزید رونے لگی۔
“ابھی اس سچویشن میں نہیں ہوں ماما, ابھی عیسیٰ میرے اعصاب پر سوار ہے, کسی سے شادی کرکے بھی میں عیسیٰ کیلئے روتی رہی پھر کیا کریں گی آپ اس اگلے انسان کا کیا قصور ہوگا کسی کی بیوی کسی اور کیلئے روتی رہتی ہو؟ میں نہیں ہوں اس قابل ابھی۔ دعا کریں مجھے صبر آجائے میں عیسیٰ کو بھول جاؤں”
کوئی حل نہیں تھا کسی مسئلے کا۔ کچھ بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ نا عیسیٰ اسے قبول کرنا چاہتا تھا نا عکس عیسیٰ کے علاوہ کچھ اور سوچنے کی پوزیشن میں تھی۔
____________
“ابا وہ نہیں شادی کرنا چاہتی, اور اس کی ذہنی حالت ابھی ایسی ہے بھی نہیں کہ شادی کروا کر اپنا بوجھ ہم اتار کر اس کی زندگی مزید مشکل بنادیں”
فرحین ابا کو اسکا جواب سنا رہی تھی۔ وہ چاہتے تھے عکس کی شادی ان کی زندگی میں ہو جائے کیونکہ وہ اب بیمار رہنے لگے تھے۔ اور ان کے بعد عکس کیلئے صرف فرحین کا گھر بچتا تھا جہاں اس کی جگہ پہلے سے ہی نہیں تھی۔
“میرے گھر کا پورا لان دیکھو کانٹوں والا ایک پودا نہیں لگایا کہ میری بچی کو زخمی نا کردے۔ تمہارے بیٹے نے اس کے جسم کو کانٹوں سے بھردیا ہے”
ننا کو عکس کا غم آہستہ آہستہ کھائے جارہا تھا۔ وہ پہلے ان سے چھپ کر روتی تھی اور اب باتیں کرتے کرتے رو پڑتی تھی۔
“وہ کہتا ہے اب واپس آیا بھی تو صرف دوست بن کر رہے گا کوئی رشتہ کوئی تعلق وہ عکس کیساتھ بنانا ہی نہیں چاہتا ابا”
فرحین پریشانی سے بولیں۔
“بند دروازے پر دستک دے رہی ہے میری بچی, اللہ میری بچی کو ان دروازوں پر دستک دینے سے بچائیں جو اس کے لئے نہیں بنائے گئے, ہر روز یہی دعا کرتا ہوں ان بوڑھے ہاتھوں سے”
انہوں نے اپنے بوڑھے کانپتے ہاتھوں کو دیکھا۔
“وہ اکثر مجھ سے کہتی ہے ننا انسان دروازے بند کریں تو سمجھ بھی آتی ہے, مگر جس نے جنت کے آٹھ دروازے اور جہنم کے سات دروازے بنائے ہیں, اس کے دروازے اگر آپ دن رات رو رو کر کھٹکھٹارہے ہوں اور وہ آپ کیلئے ایک دروازہ بھی نہیں کھول رہا تو دستک دینے والا ہاتھ کیا کرے کہاں جائے؟ مایوسی کے اندھیرے میں؟ کہتی ہے ننا! میرے چاروں طرف اندھیرا ہے اندھیرے راستے پر چل رہی ہوں جس کی ہر گلی بند ہے منزل تو ہے ہی نہیں راستے بھی اندھیرے ہیں”
وہ کچھ دیر رکے پھر کہنے لگے۔
“اس کے غم کا علاج نہیں کرسکا میں فرحین, سکون والی موت دکھائی نہیں دے رہی مجھے, یہ بےسکونی لیکر جاؤں گا میں اپنی بچی کو کنارے پر نہیں لاسکا”
فرحین کے دل کو ہاتھ پڑا۔
“ابا کیسی باتیں کررہے ہیں۔ میں سمجھاؤں گی دونوں بچوں کو آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا آپ ایسی باتیں نہیں سوچیں”
وہ گھبرا گئی تھی۔
“تمہارے بیٹے سے سخت نفرت ہے مجھے, میرے بعد میری بیٹی کو اس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا, میرے بس میں اگر ہوتا اللہ کی مدد اگر مل جاتی میں اپنی بچی کو تمہارے بدمعاش بیٹے کے سائے سے بھی دور لے جاتا”
وہ مایوس ہوچکے تھے۔ چار مہینوں میں کتنے دن ہوتے ہیں, کتنے گھنٹے ہوتے ہیں , کتنے سیکنڈز ہوتے ہیں یہ اس شخص سے پوچھو جس نے لمحہ لمحہ سسک سسک کر گزارا ہو۔ کبھی رات گزر جانے کی دعا کی ہو کبھی دن ڈھلنے کی آرزو کی ہو۔ دکھ میں مبتلا شخص قطرہ قطرہ پگھل رہا ہوتا ہے لمحے کے ہر احساس کے ساتھ۔
_____________
“تم نے کبھی بتایا نہیں کہ تمہارا اور عکس کا کوئی تعلق تھا”
افراح نے اس سے فون پہ ہونے والی گفتگو کے دوران پوچھا۔
“جو تعلق ختم ہو جائیں ان پر بات نہیں کرتا میں”
عیسیٰ کا لہجہ عکس کا ذکر آتے ہی بہت برا ہو جاتا تھا۔ اس نے کبھی سوچا نہیں تھا عیسیٰ کبھی اتنی بھی نفرت کرسکتا تھا۔ وہ تو ہمیشہ کہتی تھی ساری دنیا بدل سکتی ہے اس کیلئے عیسیٰ کبھی نہیں بدل سکتا۔ ساری دنیا چھوڑ سکتی ہے اسے عیسیٰ کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔ مگر شاید گمان ایسے ہی ٹوٹتے ہیں۔ اللہ سے زیادہ بندوں پر یقین کرلینا ہی ہماری تباہی بن جاتا ہے۔ بندوں سے محبت حقوق العباد میں آتی ہے مگر جہاں ہم اللہ سے زیادہ کسی اور کو اپنا سب کچھ ماننے لگے جاتے ہیں وہاں پھر وہ ہمیں بتاتا ہے کہ تمہاری زیادہ محبت کا حقدار صرف اللہ ہے۔ محبت کرنا اس شخص سے شادی کرنے کا سوچنا گناہ نہیں لیکن نامحرم محبت کی طرف جھکتے چلے جانا گناہ ہی ہے اللہ ایسے گناہ اسی طرح ختم کرتا ہے۔ چھین لیتا ہے جو چیز حد سے زیادہ بڑھ جائے۔
“شادی کرنا چاہتی ہے وہ تم سے کوئی وعدہ کیا تھا تم نے اس سے؟”
افراح نے کریدنے کی کوشش کی
“نہیں میں کبھی کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا”
“تو پھر وہ اتنا تمہارے پیچھے کیوں پڑی ہوئی ہے”
“میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ ماما سے بات کروں گا, وہ بھی اس لئے کیونکہ مجھے فیل ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے منہ سے نہیں بولتی۔ اس لئے میں نے کوشش کی تھی لیکن ماما نہیں مانیں, اور اب میں اس سے محبت نہیں کرتا”
“پہلے کرتے تھے؟”
“ہممممم کرتا تھا”
اس نے تسلیم کیا۔
“اگر تمہاری ماما اب راضی ہو جائیں تو کرلو گے شادی اس سے؟”
“افی! میں کوئی کام زبردستی نہیں کرتا”
وہ اسے پیار سے افی کہا کرتا تھا۔
“پھر کس سے شادی کرو گے؟ کوئی سوچا تو ہوگا ناں”
“جس کیساتھ مجھے زندگی, زندگی جیسے لگے گی, جس کیساتھ میں خود کو خوش محسوس کروں گا, جو مجھے روکے ٹوکے گی نہیں, جو مجھے تنگ نہیں کرے گی, جو مجھے طعنے نہیں مارے گی, جس کیلئے میں اگر کچھ کروں تو خوش ہوجایا کرے گی, اس سے شادی کرلوں گا”
عیسیٰ کے جواب پر افراح دلجمعی سے مسکرائی۔ کیونکہ وہ ایسی ہی تھی۔ بلکل لفظ بہ لفظ ایسی۔
مرد عورت کو جیسا رکھے گا عورت ویسی نظر آئے گی خوش رکھے گا تو خوش نظر آئے گی۔ پریشان رکھے گا تو غمگین نظر آئے گی۔ وہ افراح کو خوش رکھ رہا تھا۔ وہ افراح کے اندر خوشیاں ڈھونڈ رہا تھا۔ جو اسے مل رہی تھیں۔ وہ افراح کو خوشیاں دے رہا تھا۔ اور بدلے میں افراح کی ہلکی سی توجہ بھی عیسیٰ کو خوش کر دیتی تھی۔
کسی بھی ریلیشن کے شروع میں یہ سب چیزیں عام بات ہوتی ہیں۔ نیا نیا سب اچھا لگتا ہے۔ وہ افراح کے پیچھے اس وقت بھاگ رہا تھا۔ دوست احباب سب سائیڈ پر ہوچکے تھے۔ وہ عیسیٰ جو لڑکیوں کی لڑکوں کیساتھ دوستی کو غلط سمجھا کرتا تھا آج اسی افراح کے بےشمار میل فرینڈز کے بیچ میں بیٹھ کر افراح کے نام کی مالا جپ رہا تھا۔ اس نے اپنا سٹینڈرڈ توڑ دیا تھا۔ اپنے اصول توڑ دئیے تھے۔ اپنی دن کی نیند ختم کردی تھی۔ سارا وقت افراح کے نام کرچکا تھا۔ صرف زبان سے اقرار کرنا باقی رہ گیا تھا دونوں کے درمیان۔
“میں کال بیک کرتا ہوں ماما کی کال آرہی ہے, تم کال ڈسکنیکٹ کرو”
اس نے افراح سے کہا اور پھر ماما کی کال اٹینڈ کی۔ جہاں اسے ایک بری خبر ملی۔ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ننا کا انتقال ہوگیا تھا۔
________________
لاہور سے مری تک بائی ائیر سفر۔ ماما کو روتے ہوئے دیکھا تھا اس نے۔ ماما پاپا اور عیسیٰ تینوں مری پہنچے رات کی تاریکی تھی۔ یہاں تو شام میں ہی رات اتر آتی تھی سخت سردی تھی۔ بارش نے بھی آج کی زور دکھانا تھا۔ بارش میں بھیگتے دوڑتے وہ اس گھر میں پہنچے جہاں عکس سیاہ لباس میں میت کے سرہانے بیٹھی رو رہی تھی۔
بہت زیادہ لوگ جمع تھے۔ گھر کے برآمدے میں مرد اور گھر کے اندر عورتیں۔ بارش کی وجہ سے مری شہر کے اس علاقے کی بجلی بند تھی۔ مصنوعی لائٹوں کی روشنی میں ہلکی پھلکی روشنی کر رکھی تھی جو اس وقت تک اپنی آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ چہرے واضح دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ عیسیٰ کے قدم دروازے کے پاس رک گئے تھے۔ ہو ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
سیاہ لباس, سر سے ڈھلکتی سیاہ چادر, سیاہ چادر سے جھانکتی کچھ آوارہ لٹیں اسکے بھیگے چہرے پر ماتم کناں تھیں۔ ننا کے مردہ چہرے کو تکتا عکس کا حزن میں ڈوبا حسین چہرہ صرف آدھا ہی نظر آرہا تھا۔ وہ بھی ڈم لائٹس میں مدھم سی شبیہہ۔
پہلی بار اس نے عکس کو مجسم روپ میں دیکھا تھا۔ عکس کے گال اور ہونٹ اس کے بالوں کی بکھری براؤن لٹوں کے گھیرے میں صاف دکھائی نہیں دے رہے تھے البتہ پلکوں سے گرتے ایک آنسو کو عیسیٰ نے بغور دیکھا۔ وہ ہاتھ باندھے گم صم کھڑا رہا۔ کسی نے اندر آنے کو نہیں کہا۔ وہ ابھی اس کے چہرے پر غور کر ہی رہا تھا کہ فرحین عکس اور اس کے بیچ میں حائل ہوئیں۔ انہوں نے کے عکس کو زور سے خود میں بھینچا۔
لمحے بھر کو عیسیٰ نے عکس کا آنسوؤں میں ڈوبا, بکھری زلفوں کے حصار میں آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھا۔ عکس کی بند ہوتی پلکیں ماما کے کاندھے پر رکھا سر۔ ماما کے اطراف بندھے عکس کے ہاتھ۔ ہولے ہولے لرزتا جسم۔ خاموش کانپتے ہوئے سوکھے لب۔
اس کے دل کو کچھ ہوا۔ ابھی اس نے محسوس کرنا شروع کیا تھا کہ عکس نے اپنا چہرہ ماما کے کاندھے میں چھپا لیا۔
عیسیٰ نے رخ باہر کو موڑا ہی تھا کہ اسے عکس کی آواز سنائی دی۔
“ماما مجھے اس دنیا میں نہیں رہنا, مجھے ننا کے بغیر نہیں رہنا, ننا سے کہیں آنکھیں کھولیں مجھے چلنا نہیں آتا، ننا سے کہیں عکس رو رہی ہے”
وہ بہت کچھ روتے روتے کہہ رہی تھی۔ عیسیٰ کا دم گھٹنے لگا تھا۔ کچھ بھی تھا اس لڑکی سے چار سال محبت کی تھی عیسیٰ نے۔ چار سال اس آواز نے عیسیٰ کے دل پر حکومت کی تھی۔ چار سال یہ چہرہ عیسیٰ کے دل کی دھڑکنوں کو منتشر کرتا رہا تھا۔ اسے فضا میں حبس محسوس ہونے لگا وہ تیر کی سی تیزی سے دروازے سے باہر نکلا بلکہ گھر سے ہی باہر نکل کر بارش میں جا کھڑا ہوا۔ یہاں عکس کی آواز بارش کی آواز میں غائب ہوگئی تھی۔ وہ گہرے سانس لینے لگا۔ اور بارش میں بھیگتا رہا۔ ایکدم سے وہ ڈر گیا تھا۔ کیا تھا اس معمولی سی جھلک میں۔ اس کانپتی لرزتی دور سے آتی ہلکی ہلکی آواز میں کیا تھا جس نے عیسیٰ کو پل بھر کیلیے خوفزدہ کردیا تھا۔ وہ کچھ دیر اگر اور وہاں کھڑے رہ کر اسے دیکھتا رہتا تو کوئی شک نہیں تھا وہ سب کچھ اپنا اس لڑکی کے آنسوؤں پر وار آتا۔
یہ کیفیت عیسیٰ پر طاری ہوچکی تھی کہ اچانک اس کے جیب میں پرس فون بج اٹھا اسے خوف سے آزاد کرنے کو فون پر چہکنے والی آواز کافی تھی۔ فون کان سے لگاکر وہ درخت کے سائے تلے کھڑا ہوگیا۔ اس نے سکھ کا سانس لیا۔ کیا کرنے جارہا تھا وہ۔ عکس کو ہزاروں لوگوں کے بیچ خود میں بھینچنے کا سوچنے لگا تھا۔ عکس کا غم اس سے دیکھا نہیں گیا تھا وہ لمحے کے پہلے حصے میں ہی کمزور پڑ گیا تھا۔
افراح کی آواز اسے اس موقعے پر کسی نیکی کی طرح لگی تھی۔ عکس سے کسی قسم کا کوئی تعلق نا رکھنے کی قسم کھا چکا تھا وہ۔ اس نے شکر کیا افراح کے فون کال نے اسے غلط قدم اٹھانے سے بچا لیا۔ عکس کی طرف دوبارہ جانا عیسیٰ کی نظر میں غلط قدم ہی تھا۔
خوف دھیرے دھیرے غائب ہوتا گیا۔ کوئی جادو تھا شاید افراح کے پاس پل بھر میں وہ عیسیٰ کے دل و دماغ کو اپنے بس میں کرلیتی تھی۔
کچھ منٹس کی گفتگو کے بعد دوبارہ اس گھر کے اندر داخل ہونے والا عیسیٰ ۔ افراح کا عیسیٰ بن چکا تھا۔ جو افراح کے علاوہ باقی سب کیلئے بےحس, لاپرواہ, سخت دل, مغرور اور بداخلاق ثابت ہوتا تھا۔
ننا کو دفنا دیا گیا تھا۔ تین دن گزر چکے تھے۔ ان تین دنوں میں شہر میں ہونے والی مسلسل بارش نے لوگوں کو اپنے اپنے گھروں تک محصور کردیا تھا۔ ٹھنڈ بھی بڑھ گئی تھی۔سورج نکلنا بھول گیا تھا۔ عیسیٰ سب سے الگ ایک علیحدہ کمرے میں اکیلا بیٹھا رہتا تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت افراح سے باتیں کرنے میں اس کے ساتھ گیمز کھیلنے میں گزرتا تھا۔ تین دن سے اس نے لائیو نا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ گھر جانا چاہتا تھا۔ یہاں کی بند زندگی سے وہ اب تنگ آچکا تھا۔ لیکن ماما کا حکم تھا سب ساتھ ہی جائیں گے۔ اس دن کے بعد عکس اور عیسیٰ کا پھر آمنا سامنا نہیں ہوا۔
عکس کے روم میں عکس فرحین کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی۔ فرحین کے ہاتھ عکس کے تپتے ہوئے ماتھے کو سہلا رہے تھے۔ عکس کی آنکھوں نے سارے آنسو بہا دئیے تھے۔ اسکی آنکھیں اس وقت سیلاب گزر جانے کے بعد والی صورتحال پیش کررہی تھیں۔ ہونٹ بلکل خاموش تھے۔
“اپنی ضرورت کی چیزیں رکھ لو تمہیں ساتھ لیکر جاؤں گی”
فرحین نے عکس کو پیار سے بولا۔
“مجھے یہیں رہنا ہے ماما”
تین دن سے دونوں کے درمیان یہی گفتگو ہورہی تھی۔ عکس اپنی ضد پر قائم تھی اور فرحین اپنی۔
“عکس یہاں رہنا ہے تو ٹھیک ہے شادی کرلو تاکہ میں تمہیں کسی مضبوط ہاتھ کی پناہ میں رکھ کر سکون سے جاسکوں”
عکس کا سارا وجود کڑواہٹ سے بھر گیا تھا۔
“کرلوں گی شادی, مجھے وقت دیں, ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں”
اس نے آہستہ سے کہا
“تمہاری یہ پوزیشن پچھلے چار مہینے سے جوں کی توں ہے, انسان غم سے خودبخود نہیں نکلتا۔ اسے کوشش کرنی پڑتی ہے تم نے خود کو ایک جگہ پر پھینک دیا ہے”
وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔
“کوشش کرتی تو ہوں ماما, اب چار سال چار مہینوں میں بھلائے تو نہیں جاسکتے”
“بھول جاتے ہیں لوگ ایک دن میں بھول جاتے ہیں آگے بڑھ جاتے ہیں پیچھے رہ کر اپنی زندگی خراب نہیں کرتے”
“لوگوں کی طرح اسٹرونگ نہیں ہوں میں”
عکس خود سے نفرت کرنے لگی تھی اب۔
“عکس تمہیں اب شادی کرنی پڑے گی۔ یہاں رہنے کیلئے بھی اور میرے ساتھ جانے کیلئے بھی۔ اب فیصلہ خود کرو یہاں رہنا ہے یا میرے ساتھ جانا ہے”
کیا کہنا چاہ رہی تھیں وہ عکس سمجھ نہیں پائی۔ اس نے فرحین کی گود سے سر اٹھایا اور ان کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔
“سمجھی نہیں آپ کی بات کو”
“ابا کے پاس تمہارے لئے بہت سارے رشتے تھے۔ جن میں سے انہوں نے ایک نام مجھے بتایا تھا۔ کل بھی وہ لوگ مجھ سے بات کرنے آئے تھے۔ اچھا لڑکا ہے۔ نیک اور شریف۔ لیکن”
“لیکن ماما؟”
“میرا دل نہیں مانتا تمہیں یہاں غیروں کے بیچ میں چھوڑ کر جاؤں”
انہوں نے اپنی پریشانی ظاہر کی۔
“پھر؟”
وہ ابھی تک ناسمجھی سے ان کو دیکھ رہی تھی۔
“پھر یہ کہ اپنی بہو بناکر ساتھ لیکر جاؤں گی”
انہوں نے پیار سے مسکرا کر عکس کو دیکھا۔ عکس کے سر پر جیسے کوئی دیوار گری۔ وہ منہ موڑ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی۔
“ٹھیک ہے جو رشتہ ننا نے دیکھا تھا ان سے بات کرلیں”
فرحین کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
“کیوں میرے بدمعاش پتر سے شادی نہیں کرنی؟”
عکس نے مڑ کر فرحین کی طرف دیکھا۔
“نفرت کرتا ہے مجھے سے, ہزاروں لوگوں کے زور دینے پر دوست بناکر رکھنے کیلئے راضی ہوا تھا, بیوی بنانے کا بولیں گی تو مجھے ٹرین کے نیچے دے آئے گا”
فرحین نے عکس نے چہرے کو دونوں ہتھیلیوں کے پیالے میں لیا۔
“اتنا برا نہیں ہے میرا بیٹا, بھٹک گیا ہے, اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تو برباد ہو جائے گا, میں جانتی ہوں ناں اس قسم کی لڑکیاں زیادہ دیر ساتھ نہیں دیتیں, بہت جلد خود کو اکیلا محسوس کرے گا۔ کرلو شادی اس سے , لوٹ کر سیدھا تمہارے پاس آئے گا, کرلو یقین مجھ پر, ماں میں ہوں اس کی جانتی ہوں اس کو”
عکس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
“میں جانتی ہوں کسی اور سے شادی کرکے بھی تم عیسیٰ کو بھول نہیں سکتی, تو پھر جو تکلیف اس سے دور رہ کر جو عذاب تم نے جھیلنا ہے۔ وہ تکلیف تم اس کے ساتھ رہ کر برداشت کرلو”
“وہ مجھے دیکھنا نہیں چاہتا ماما”
عکس نے روتے ہوئے کہا۔
“جو تمہیں دیکھنا نہیں چاہتا ہم اسے تمہارا چہرہ دکھائیں گے ہی نہیں”
ماما کیسی باتیں کررہی تھیں ۔کیا کرنا چاہ رہی تھیں۔ عکس کی سمجھ سے باہر تھا۔
“عکس مجھ پر یقین رکھو, لوٹ کر سیدھا تمہارے پاس آئے گا بس ذرا سا صبر اور تھوڑی سی خاموشی”
فرحین نے عکس کے ماتھے پر پیار دیا اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔ عکس کافی دیر سوچتی رہی مشکل فیصلہ تھا۔ عیسیٰ کی ناپسندیدہ بیوی بن کر رہنا زیادہ تکلیف دہ تھا یا پھر کسی اور کی بیوی بن کر دل و دماغ میں عیسیٰ کو چھپا کر رکھنا زیادہ مشکل تھا۔ ایک بات وہ جانتی تھی ان چار مہینوں میں وہ عیسیٰ کو ہلکا سا بھی اپنے دل سے ادھر ادھر نہیں کرپائی تھی۔ محبت بڑی لالچی بن جاتی ہے کبھی کبھار ایک نظر دیکھ لینا آواز سن لینا ہی کافی لگنے لگتا ہے۔
….جاری ہے
(اشنال)
Zabrdast 🔥
yeh farheen kia kar rae hain aisy tu eesa beintaha takleef sy ga aur aks ko… 😳
Bohat Kamal
Zabrdast ja raha hai novel
بہت شکریہ 🌸
JB SB Kuch paa kr b Kuch na Mily wo Khali hath……..
Syeda… Kamal ast
شکریہ 🌸