Delusion – Episode 4

“میرے ساتھ لاہور جاؤ گی؟”
ننا نے عکس سے پوچھا جو اس خوبصورت سے گھر میں ننا کی بنائی گئی چھوٹی سی لائبریری میں ان کے برابر والی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔
“آپ لاہور جارہے ہیں؟”
عکس چونک پڑی
“ہاں میرے نواسے کی منگنی ہے جانا تو پڑے گا”
انہوں نے سادہ سے لہجے میں بات کی جسے عکس لمحہ بھر کو سمجھ نہیں پائی, اور ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔
“عیسیٰ اور مستبشرہ کا رشتہ طے ہوا ہے ایک دو ہفتوں تک کوئی انگوٹھی کی رسم ہونی ہے سوچ رہا ہوں تمہیں اس بار ساتھ لے جاؤں”
ایک ساتھ کئی زوردار دھماکے ہوئے تھے اور عکس ان دھماکوں کی زد میں آگئی تھی۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں۔
“جانا چاہو گی تو لے جاؤں گا, نہیں جانا تو پھر میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا جو بھی کرنا ہو سوچ کر بتا دینا مجھے”
عکس ننا سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھی تھی۔ اسکا چہرہ جھکا ہوا تھا ہاتھ میں کتاب پکڑی تھی, اس کے ہاتھ ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے۔ چہرہ جھکا ہونے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں تیرنے والے آنسو دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
وہ خاموش ہی رہی تو ننا پھر سے بول پڑے۔
“یہ جو عادت ہوتی ہے ناں باتوں کو دل میں قید کر لینے والی, یہ آگے جاکر ہمارا بڑا نقصان کرتی ہے عکس پتر۔ ہر چیز کی ایک اسٹوریج کیپیسیٹی ہوتی ہے, دل میں بھی جب ضرورت سے زیادہ باتیں جمع ہونا شروع ہو جائیں ناں تو ایک نا ایک دن دل پھٹ جاتے ہیں”
اچانک لائٹ چلی گئی تو کمرے میں اندھیرا سا ہوگیا۔ آنکھ سے ایک آنسو لڑک کر کتاب کے ورق پر گرا جس نے ہلکا سا شور کیا۔
“تمہیں کتنا کہا تھا دوست بنالو, کچھ باتیں کہہ دو, دل پر بوجھ نا بننے دو, جن لوگوں کے دوست ہوتے ہیں ناں ان کے دکھ , درد آنے اور جانے میں زیادہ وقت نہیں لیتے۔ جو لوگ خاموشی اور تنہائی سے دوستی کرلیتے ہیں غم وہاں مستقل بیٹھ جاتے ہیں”
ننا اپنی جگہ سے اٹھ کر عکس کے پاس آئے۔
“جو چیز تم سے چھن جائے اس کے غم میں نا پڑو, لیکن اگر تمہیں کسی چیز سے محبت ہے تو اسے اللہ سے ایک بار مانگ کر ضرور دیکھو, اگر کسی انسان کے ذریعے سے تمہیں تمہاری خوشی مل جاتی ہے تو ایک بار ضرور مانگو, اگر وہ تمہارے نصیب کی ہوئی تو تمہارے مانگنے پر تمہیں مل جائے گی, لیکن اگر تمہیں مانگنے پر بھی وہ چیز نہیں ملتی تو اسکی خواہش ترک کردو اسی میں بھلائی ہے”
ننا نے عکس کے جھکے سر پر ہاتھ رکھا۔ عکس کے بے ترتیب آنسو گرے۔ کتاب ہاتھ سے پھسل کر گود میں آگری۔
“میں نے تمہارے لئے اللہ سے بھی بات کی ہے اور اس انسان سے بھی, جس کے ہاتھ میں فیصلہ کرنے کی طاقت ہے, اب تم خود مانگو تاکہ تمہیں کوئی پچھتاوا نا رہے, صحابہ نے جوتے کے تسمے بھی اللہ سے مانگے تھے, مانگنے سے ملتا ہے تو مانگو”
ننا کا ہاتھ عکس کو دلاسا دے رہا تھا۔ عکس کی خاموشی اور محبت صرف وہی تو تھے جو محسوس کرتے آرہے تھے۔
“اللہ سے مانگنے میں کوئی شرم نہیں, جتنی بار پکارو گی وہ اتنی بار سنے گا اور ہر بار پہلے سے زیادہ توجہ سے سنے گا۔ لیکن انسانوں سے مانگنے میں حد سے تجاوز نا کرنا, کیونکہ انسانوں سے بار بار مانگنے جانا آپ کی ذات کو ہلکا کردیتا ہے”
ننا کمرے سے باہر جاتے جاتے بولے
“میں تمہیں کسی کی نظر میں ہلکا ہوتا نہیں دیکھ سکتا پتر, کوشش کرو کوشش کرکے ہار جانا اچھا ہے بغیر کوشش کئے ہار مان جانے سے”
اب کمرے میں عکس اکیلی تھی اور اس کے خاموش آنسو۔

_____________

عیسیٰ سو کر اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ دوستوں نے ملکر عیسیٰ پر دھاوا بولا۔ کسی کو عیسیٰ کے گھر آنے جانے کی روک ٹوک نہیں تھی۔ کیونکہ اس گھر میں لڑکی تو کوئی تھی نہیں کہ دوستوں کے آنے جانے پر پابندی لگائی جاتی۔ ماما تو پھر سب دوستوں کی ہی ماما تھیں۔
وہ تیار شیار ہوکر دوستوں کے ساتھ نکلا اوپر والے فلور سے نیچے والے فلور تک آیا تو ماما سے سامنا ہوا۔ دوست گھر سے نکل گئے اور عیسیٰ ماما سے بات کرنے رک گیا۔
” اب تمہارا ڈریم خیر سے پورا ہوگیا ہے۔ اب میرے ڈریم پورے کرنے کا سوچ پتر”
ماما نے عیسیٰ کو یاددہانی کروائی۔
“ابھی میں انیس سال کا ہوں ماما ابھی سے شادی کرکے بیٹھ جاؤں؟”
عیسیٰ کا اچھا موڈ ہمیشہ کوئی نا کوئی بدمزہ بات کرکے خراب کردیتا تھا۔ اور عیسیٰ موڈ خراب ہو تو بدتمیزی پر اتر آتا تھا۔
“ابھی صرف منگنی کروں گی۔ شادی تو تین چار سال بعد ہو گی جب تم اپنی زمہ داریاں وغیرہ سنبھالنا سیکھ جاؤ گے”
فرحین نے اسے سمجھایا۔
“بس ٹھیک ہے منگنی بھی تین چار سال بعد ہی کرلینا آپ”
اس نے جان چھڑا کر بھاگ جانا چاہا مگر فرحین نے اسکا راستہ روک لی۔۔
“پتر منگنی کرلے تیرے ماموؤں کو آسرا ہو جائے گا, انہیں یقین ہو جائے گا ان کی بہن جھوٹ نہیں بول رہی لارے نہیں لگا رہی”
یہاں ہر بندے کے اپنے ہی الگ دکھڑے تھے۔
“ماما آپ کو اچھی طرح معلوم ہے میں زبردستی میں کوئی کام نہیں کرتا”
عیسیٰ نے اونچی آواز میں کہا
“عیسیٰ تم نے پرامس کیا تھا کہ ماما شادی آپ کی مرضی سے کروں گا”
فرحین نے اسے یاد کرایا
“ماما بچوں سے زبردستی پرامس کروا کر پھر بلیک میل کرتی ہیں آپ۔ تب پتا نہیں میں چار سال کا تھا یا پانچ کا آئی ڈونٹ نو, اب میں بڑا ہوگیا ہوں اور ابھی میں انکار بھی نہیں کررہا بس ابھی تین چار سال نا مجھے منگنی کرنی ہے نا شادی”
عیسیٰ کے راستے میں کھڑی تھی فرحین، وہ باہر نکل بھی نہیں سکتا تھا۔ ظاہر ہے ماں کو دھکا دے کر تو سائیڈ پر نہیں کرسکتا تھا۔
“تمہارے پاپا ہارٹ پیشنٹ ہیں میں چاہتی ہوں وہ تمہاری خوشیاں اپنی زندگی میں دیکھ لیں”
“دیکھ لیں گے پاپا بھی خوشیاں ابھی وقت نہیں آیا, جب وقت آئے گا تب کرلوں گا, میں ابھی جارہا ہوں میرا مزید موڈ خراب نہیں کریں آپ, راستہ دے دیں مجھے مہربانی کرلیں بس”
اس سے پہلے کہ عیسیٰ کی بدتمیزی اور زبان درازی میں اضافہ ہوتا فرحین نے غصے اور ناراضگی سے دیکھا اور پھر اس کیلئے راستہ چھوڑ دیا۔ جس میں سے وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔

___________

دوست کے ساتھ پیچھے بائیک پر بیٹھتے ہی عیسیٰ نے عکس کو میسج بھیجا۔
“تم میری خوشی خراب کررہی ہو عکس ایسے منہ بنا کے”
عکس نے میسج پڑھا اور جواب لکھا
“اچھا تو تمہاری خوشی شامل ہے اس میں؟”
عیسیٰ نے میسج ٹائپ کرنے کے بجائے کال ملائی اور اٹھا لی گئی
“میں بہت زیادہ خوش تھا, میں اپنا ڈریم پورا کرکے آیا ہوں, تمہیں میری اس خوشی پر میرے ساتھ ہونا چاہئے تھا تم اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ گئی ہو”
وہ سلام دعا کے بغیر ہی بولنا شروع ہوا۔ بائیک تیزی سے چل رہی تھی عیسیٰ کی آواز ہوا کی رفتار سے زیادہ تیز تھی۔
“مبارک ہو تمہیں عیسیٰ تمہارا ڈریم پورا ہوا۔ اور تمہیں منگنی کی بھی مبارک ہو, اتنا سیکریٹ رکھا تم نے, مجھے لگتا تھا تم سب کچھ شئیر کرتے ہو مجھ سے, غلط لگتا تھا”
عکس کے طنز عیسیٰ کے دل پر لگے۔
“جو منگنی ابھی ہوئی ہی نہیں اس کے بارے میں تمہیں کیا بتاتا؟”
عیسیٰ نے اب تحمل سے بات کی وہ بائیک سے اتر کر دوستوں سے ذرا سائیڈ پر آکر ایک پیڑ کے نیچے کھڑا ہوگیا تھا۔
“اچھا تم مجھے انگیجمنٹ کے بعد بتانا چاہتے تھے”
عکس کا رویہ آج بلکل مختلف تھا۔ یہ جو اس کے لہجے میں تلخی تھی یہ چھن جانے کا خوف تھا جو زبان پر آرہا تھا۔
“عکس مجھے نا اس انگیجمنٹ میں کوئی دلچسپی ہے نا اس لڑکی میں”
عیسیٰ نے سچ کہا تھا۔
“تمہاری مرضی کے بغیر ماما کچھ نہیں کرسکتیں عیسیٰ”
عکس کی بےیقینی برقرار تھی۔
“تمہیں یقین نہیں ہے نا؟ ماما سے پوچھ لو, میں ابھی ابھی انہیں بول کر آیا ہوں کہ میں ابھی کوئی منگنی نہیں کرسکتا”
“تم جھوٹ بول رہے ہو, مجھے ننا نے بتایا ہے۔ کہ نیکسٹ ویک وہ لاہور جارہے ہیں عیسیٰ کی انگیجمنٹ پر”
دونوں لڑ رہے تھے۔ پہلی بار دونوں ایک دوسرے سے بدتمیزی سے بات کررہے تھے۔
“عکس ماما چاہتی ہیں ایسا, میں نہیں چاہتا”
عیسیٰ نے اپنی بات پر زور دیا۔ عکس اس کے لہجے پر نرم پڑی اور پوچھنے لگی
“تم کیا چاہتے ہو عیسیٰ؟”
عیسیٰ نے گہری سانس بھری اور کہنے لگا
“میں نے تمہارے بارے میں ماما سے بات کی تھی انہوں نے کہا عکس تم سے بڑی ہے, انہیں لگا میں کوئی مذاق کررہا ہوں۔ سیریس ہی نہیں لیا انہوں نے مجھے”
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بول پڑا
“عکس, تمہیں اگر میں چاہئیے ہوں نا تو تم ماما سے خود بات کرو”
یہاں اسے بہت زیادہ رونا آیا تھا, دوستی کرنے سے پہلے اس نے کب سوچا تھا کہ محبت ہو جائے گی اور محبت کرنے کے بعد وہ عیسیٰ سے شادی کرنا چاہے گی یہ تو اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ خود سے پانچ سال چھوٹے لڑکے سے شادی کرنے کیلئے ایسے مجبور ہو جائے گی۔
“عکس پلیز میں خوش ہوں منہ بنا کر میری خوشی خراب مت کرو, تم اچھی طرح جانتی ہو تم سے لڑائی ہو تو میرا سارا موڈ فک ہو جاتا ہے”
عیسیٰ نے منت کی وہ اس وقت بس خوش ہونا چاہتا تھا۔
عکس کو راضی کرنے کے بعد اس نے دوستوں کے ساتھ بھرپور سیلیبریٹ کیا۔ عکس نے اس سے خاص تاکید کی تھی کہ زیادہ رات ہونے سے پہلے گھر واپس چلے جانا اور گھر پہنچ کر میسج کرنا کہ گھر پہنچ آیا ہوں, یہ خاص تاکید تھی, جسے عیسیٰ خوشی خوشی میں اگنور کرگیا۔
عکس ساری رات فون دیکھتی رہی۔ نیند اسکی آنکھوں سے دن بدن اڑتی جارہی تھی۔ اسکا نقصان ہوتا جارہا تھا۔ اور وہ ہر نقصان کو بھلا کر بس حاصل کی چکی کے پیچھے لگ گئی تھی۔

_______________

کافی دن گزر چکے تھے عیسیٰ افراح کو فراموش کرچکا تھا۔ عکس اور عیسیٰ کے درمیان جو کشیدگی تھی وہ بھی ختم ہوچکی تھی دونوں کافی دن سے ایک دوسرے کے ساتھ پہلے جیسا ہی ہنس بول رہے تھے۔ منگنی کا شور بھی ذرا دیر کو ٹھہر گیا تھا۔ عیسیٰ اپنے گیمنگ روم میں لائیو بیٹھا تھا۔ دوستوں کے ساتھ لائیو گیم پلے چل رہا تھا اس بار وہ خود سے اپنے فالوورز کے ساتھ میچز کھیل رہا تھا۔ جو لوگ اس کی لائیو پر آتے انہی میں سے کچھ لوگ سلیکٹ کرکے وہ میچز کھیل رہا تھا اسی دوران عیسیٰ کو افراح کی فرینڈ ریکوئسٹ موصول ہوئی۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر اسے اپنی زندگی میں داخل کرلیا۔
اس رات افراح واحد لڑکی تھی جو ان دوستوں کے گروپ میں عیسیٰ کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ کھیلتے کھیلتے دونوں کے درمیان دوستی ہونے لگی۔ عیسیٰ کا زیادہ وقت افراح کے ساتھ گزرنے لگا۔ عکس ایک بار پھر سائیڈ پر ہوتی چلی گئی۔ ننا کی باتوں کی وجہ سے اس نے عیسیٰ کو اسٹالک کرنا بند کردیا تھا۔ وہ عیسیٰ سے بات بھی تب کرتی جب عیسیٰ کا کوئی میسج ملتا تھا یا کوئی کال آتی تھی وہ خود کو اس کے پیچھے بھاگنے سے روک رہی تھی۔
اپنی جگہ خالی چھوڑ دینے کی غلطی کبھی نہیں کرنی چاہئیے۔ بہت سے لوگ اس خالی جگہ پر اپنا تسلط بنا لیتے ہیں۔ اور پھر ہماری ہزار ہا کوششیں بھی ہمیں ہماری وہ جگہ واپس لاکر نہیں دے سکتیں۔ عکس کی غلطی تھی اس نے اپنی جگہ خالی چھوڑ کر افراح کو وہاں گھر بنانے کی کھلی اجازت دے دی تھی جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔
عکس کو عیسیٰ کی یاد نے گھیرا تو اس نے نو کانٹیکٹ کو پس پشت ڈال کر اسے فون ملایا۔
رات بارہ بجکر پینتالیس منٹ ہوئے چاہتے تھے۔ سردیوں کی لمبی اور سرد راتیں تھیں۔ عیسیٰ محلے کے نکڑ میں موجود دوست کی پان شاپ پر بیٹھا تھا۔ کال کے نیچے دوسری کال موصول ہونے پر عیسیٰ نے پہلی کال والے شخص سے تھوڑی اجازت لی۔ اور ایک کال بند کرکے دوسری کال ملائی۔
“بولو”
پہلا لہجہ ہی سردیوں کی راتوں جیسا سرد تھا۔
“کس کیساتھ کال پر تھے؟”
عکس ناچاہتے ہوئے بھی سوال کر بیٹھتی تھی۔ جس سے عیسیٰ ہمیشہ تنگ پڑ جاتا تھا۔
“دوست تھا”
“کون دوست؟”
“ہادی کی کال تھی”
اس نے جھوٹ بولا
“اس وقت فون کرے گا تمہیں؟”
کسی پر نظر رکھنے سے کوئی ہمارا اگر بن سکتا ہوتا تو محبت ہر جگہ ذلیل نا ہورہی ہوتی۔
“دوست ہے کسی بھی وقت فون کرسکتا ہے”
عیسیٰ نے عام سے لہجے میں جیسے مکھی اڑائی
وہ عیسیٰ کے اوپر اس عقاب کی طرح آنکھیں رکھ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ جو اپنے گھونسلے میں سوئے بچوں کی طرف آنے والے ہاتھوں کو قریب آنے سے پہلے ہی توڑ کر پھینک دینا چاہتا تھا۔
“تم ابھی اس وقت شاپ پر بیٹھے ہو؟”
عکس کو پیچھے سے آنے والی آوازوں سے اندازہ ہوا تھا کہ وہ گھر سے باہر کہیں ہے۔
“ہممممم”
بس اتنا جواب دیا گیا۔ عکس نے آرام سے سمجھانا چاہا۔
“عیسیٰ گھر جاؤ, تمہیں پہلے بھی کہا تھا لیٹ نائٹ نا نکلا کرو, ایک تو تم نے دشمن بھی اتنے بنائے ہوئے ہیں, ڈر ہی لگا رہتا ہے”
“عکس میری ماں بننے کی کوشش مت کیا کرو”
ایک ایک لفظ چبا چبا کر منہ پر مارا گیا تھا۔ عکس کا دماغ سن ہوچکا تھا۔ وہ تو اسے چار سال سے سکھاتی آرہی تھی۔ اور وہ سنتا اور مانتا آرہا تھا۔
میری ماں بننے کی کوشش مت کیا کرو۔ عکس کو یہ جملہ زناٹے دار تھپڑ کی طرح لگا تھا۔ آنسو ٹپ ٹپ ٹپ گرنے لگے تھے۔ آواز جواب دے گئی تھی۔ جو فون اس نے کان سے لگایا ہوا تھا وہ سیسہ انڈیل گیا تھا۔
“دوستوں کے بیچ میں بیٹھ کر بات نہیں کرسکتا میں, سب سن رہے ہیں مجھے, بعد میں بات کروں گا, سو جاؤ تم”
وہ اپنی کہہ کر چلا گیا عکس چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
انسان انسانوں کے دلوں پر اختیار تھوڑی رکھ سکتے ہیں جو دل آج آپ کا ہے اس پر کل بھی آپ ہی حکومت کریں گے یہ غرور لمحوں میں پاش پاش ہوجایا کرتے ہیں۔ اسلئے کسی کو ہمیشہ کیلئے اپنا سمجھ لینا یا کسی کے دل کو اپنی انگلیوں کے اشاروں پر چلانا ایک محدود مدت کیلئے ہوتا ہے۔ لوگوں کے دل محبت کے معاملے میں پتھر کے نہیں ہوتے۔
وہ ہچکیاں لے کر رو رہی تھی۔ جو شخص اسے کہتا تھا جیسا بولو گی ویسا کروں گا بس تم ناراض نہیں ہوا کرو ۔ بس تم دور نہیں جایا کرو۔ اس شخص نے اسے اپنی ماں بننے کا پورا پورا اختیار خود دیا تھا۔ وہ ماں کی وہ بات نہیں مانتا تھا جو عکس کی ماں لیتا تھا۔ مگر وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔
ایک وقت پہلے جو روک ٹوک ہمیں اچھی لگ رہی ہوتی تھی۔ اگلے ہی وقت میں وہی روک ٹوک ہمیں عذاب لگنے لگ جاتی ہے۔
یہ دوست اچھا نہیں ہے اس سے دوستی ختم کردو۔ عیسیٰ ختم کردیتا تھا۔ یہ جگہ اچھی نہیں ہے یہاں جانا چھوڑ دو عیسیٰ وہاں جانا چھوڑ دیتا تھا۔ یہ کام اچھا نہیں ہے یہ کرنا چھوڑ دو عیسیٰ وہ کام کرنا چھوڑ دیتا تھا۔
تعلق کے شروع میں یہ طے ہوا تھا۔ عیسیٰ نے خوشی خوشی کہا تھا عکس تم میری باتیں مانو گی میں تمہاری باتیں مانوں گا۔ جو کام مجھے نہیں پسند تم وہ نہیں کرو گی جو چیز تمہیں نہیں پسند ہوگی وہ میں چھوڑ دوں گا۔
لیکن شاید ہوا یہ تھا کہ عکس کی زندگی صرف اور صرف عیسیٰ کے گرد گھومتی تھی۔ نا کوئی دوست تھا نا کوئی فضول ایکٹیویٹی۔ اس کے برعکس عیسیٰ کی زندگی میں بہت سارے بھنڈ تھے, کبھی وہ خراب دوستوں میں ہوتا کبھی گندی جگہ چلا جاتا۔ کبھی نقصان دہ چیزیں استعمال کرلیتا تھا۔
عیسیٰ عکس کو زیادہ روک ٹوک نہیں کر پاتا تھا۔ کیونکہ عکس کی اپنی لائف میں کوئی جھول ہی نہیں تھی۔ سادہ سی زندگی کو عیسیٰ کیا بدلتا۔ جو جو وہ چاہتا تھا چھوٹی چھوٹی خواہشیں وہ عکس اسکی پوری کرلیتی تھی۔ لیکن عکس کی زیادہ روک ٹوک اب عیسیٰ کو بری لگنے لگ گئی تھی۔ یا شاید جب زندگی میں کوئی اور چلا آتا ہے تو پچھلے انسان کی اہمیت ختم ہونے لگتی ہے۔
کچھ بھی تھا عکس کیلئے برا ثابت ہوا تھا۔ 

جاری ہے….
(اشنال)

2 thoughts on “Delusion – Episode 5”

  1. Bahoot sa alfaaz asa jo dil ko chooh gya.. Hum. Ksi lia eham han .. Yahi tu weham han.. Kb kn kahan nata chor jaya koi na pata… Nana ka jumla aur ya k apni jaga nai chorni chahia .. End Syeda

Your thoughts matter – share them below!

Scroll to Top