Delusion – Episode 2
ماما وڈے وڈے شہراں وچ چھوٹیاں چھوٹیاں گلاں ہوندیاں رہندیاں نے”
عیسیٰ تازہ زخموں کی ٹیسیں مسکراہٹ میں چھپائے فرحین کو نارمل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ ویسے بھی وہ سخت لونڈا تھا جو اپنا درد ظاہر کرکے کمزور بننا نہیں پسند کرتا تھا۔ فرحین اپنے اکلوتے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر رونے لگ بیٹھی تھیں۔
“یار ماما میری طرف دیکھیں ناں”
عیسیٰ نے فرحین کا آنسوؤں والا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی تو اسکی زخمی ہتھیلی سے ایک تیز ٹیس اٹھی۔
اس نے آنکھیں میچ لیں
“کہتے ہو درد نہیں ہورہا”
فرحین نے غصے سے اسے دیکھا۔
“ابھی پھر تمہارے پاپا بولیں گے تمہارے لاڈوں کا نتیجہ ہے”
فرحین نے عیسیٰ کے ہاتھ کو نرمی سے تھام لیا
“یار ماما آپ کی لاڈلی نے فل اگنور ماردیا ہے نا کوئی میسج نا کوئی کال, ابھی میرا دل بڑا برا ہورہا ہے اگر تھوڑی دیر اور اس کی کال نا آئی تو میں اس کے گھر وڑ جاؤں گا”
اسے ایک تکلیف زخموں سے ہورہی تھی اور دوسری عکس کی خاموشی دے رہی تھی
فرحین نے اپنی ہنسی چھپائی
“اس کے گھر کا پتا ہے؟”
“اگر وہ لاہور کے کسی بھی کونے میں ہوتی نا وللہ اب تک میں اسے اٹھوا چکا ہوتا”
عیسیٰ نے خطرناک ارادے ظاہر کئے
“بدمعاشی بس اپنے شہر تک ہی ہے, ہاں پتر؟”
ڈاکٹر فرحین نے مسکرا کر اس کے ماتھے پر آئے بال ٹھیک کئے
“شہر سے باہر آپ نے کبھی نکلنے نہیں دیا”
اس نے شکوہ کیا
“مجھے تو ننا کی شکل بھی یاد نہیں اب”
اس نے منہ بسورا
“تو پتر جی! فون آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے کبھی اپنے نانا کو بھی کال کر لیا کرو”
عیسیٰ کے دیدار کا شرف تو اس کے محلے والوں کو ہفتوں ہفتوں بعد نصیب ہوتا تھا, کیونکہ وہ شام میں اٹھتا تھا اور سارا وقت اپنے گیمنگ روم میں گزار کر رات کے دو ڈھائی بجے کسی فوڈ کارنر پر برگر وغیرہ کھانے چلا جاتا تھا۔ اس کی دنیا الگ تھی۔اتنی سی عمر میں اتنی مصروف زندگی۔
“ماما اب تو میں بڑا ہوگیا ہوں آپ جانے کیوں نہیں دیتی ہیں؟”
اس نے سبب پوچھا
“میں تمہیں اکیلا بھیجوں تو تم ایسی ہی حرکتیں کرو گے, اور ہم دونوں پاپا کو اکیلا چھوڑ کر جا نہیں سکتے ہارٹ پیشنٹ ہیں وہ , وہاں کا موسم انہیں راس نہیں آتا”
فرحین نے تفصیل سے بتایا
“پتا نہیں آپ کی نظر میں کب تک بڑا ہوجاؤں گا میں”
عیسیٰ نے سانس بھری
“جب تم رات کو جلدی سونا شروع کرو گے صبح جلدی اٹھو گے اپنی زمہ داریاں سنبھالو گے, اپنے پاپا کے ساتھ بیٹھو گے ان کا ہاتھ بٹاؤ گے”
“میرے سے نہیں ہوتے یہ بزرگوں والے کام, میں گیمنگ میں اپنا نام بناؤں گا, اور میں اس بار گیمنگ چیمپئن شپ میں ضرور حصہ لوں گا, دبئی جاؤں گا, ٹرافی لیکر آؤں گا, خبردار آپ نے میرے اس ڈریم کے بیچ میں آنے کی کوشش کی”
عیسیٰ کا خواب تھا وہ دنیا کے بہترین آنلائن گیمنگ مقابلے میں حصہ لینا چاہتا تھا جو وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے تھے۔ وہ لوکل مقابلوں میں کئی بار حصہ لے چکا تھا مگر اس بار وہ ورلڈ ٹرافی لینا چاہتا تھا۔ اور اپنا نام گیمنگ کے بادشاہوں کی لسٹ میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔
“اچھا ٹھیک ہے کرلینا ڈریم پورا, ابھی تم آرام کرو, آجاتی ہے عکس کی کال بھی, غصے میں ہو تو کسی سے بات نہیں کرتی”
“کسی نہیں ہوں میں”
عیسیٰ کو اس بات پہ انتہا کا غصہ چڑھا, چہرے کے زاوئیے سخت ہوگئے, ڈمپل غائب ہوگئے, سانولی رنگت سرخ پڑ گئی
اسے یکدم گھبراہٹ ہونے لگی وہ کارپٹ سے اٹھا اور چھت کی طرف بڑھنے لگا
“کہاں جارہے ہو؟ آرام نہیں ہوتا تم سے؟”
“ولیمے پر جو مہمان آئے ہوئے ہیں ان کو کھانا بھی تو کھلانا ہے”
عیسیٰ نے جل کر کہا
ڈاکٹر فرحین ہنس پڑیں
“ولیمہ کینسل نہیں ہوسکتا؟”
انہوں نے استفسار کیا
“اونہہہہ یاراں دا نقصان, ساڈا نقصان”
“ایک تو میں تمہارے یاروں سے تنگ ہوں”
عیسیٰ نے لنگڑا کر چلتے ہوئے گنگنایا
یاراں واری یاراں واری بول نا کڑئیے پہلیاں وی اسی گلوں چھڈیاں”
عیسیٰ نے مصنوعی اکڑ دکھانے کی اداکاری کی ڈاکٹر فرحین نے اس کے سر پر ایک چپت رسید کی وہ ہنس پڑا
وہ چلا گیا تو ڈاکٹر فرحین اس کا بکھرا روم سیٹ کرنے لگیں
_____________
رات کے دو بج رہے تھے عیسیٰ کی برتھ ڈے پارٹی اس کے فرینڈز کی طرف سے منائی جانی تھی برتھ ڈے کیک اور کھانا ٹھیک بارہ بجے گھر پر ڈلیور ہوچکا تھا۔
لہٰذا یہ پارٹی انہیں زخموں کیساتھ منانی ہی تھی۔
ایسے چھوٹے موٹے ایکسیڈنٹس تو ان کی لائف کا حصہ تھے۔ نیو جنریشن تھی جو صرف انجوائے کرنا جانتی تھی اگر ایک دوست اداس ہونا چاہتا تو سب ملکر اس کا جینا حرام کر دیتے۔
ایک نہیں دو کیک کاٹے گئے ایک فرینڈز کی طرف سے دوسرا کزنز کی طرف سے
چھت پر کھلے آسمان کے نیچے آتش بازی کی گئی۔میوزک کا شور آس پاس کے گھروں میں سوئے لوگوں کو بیدار کرگیا۔ مگر کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا تھا کیونکہ بقول عیسیٰ “اسی بدمعاش ہونے آں”
سب چلے گئے تھے عیسیٰ اسکا ایک دوست اور کزن چھت پر رکھی کرسیوں پر بیٹھے کیک کھارہے تھے۔ عیسیٰ اپنی جگہ سے اٹھا اور اسنو اسپرے اٹھا کر دیوار پر کچھ لکھنے لگا
عیسیٰ کا دوست احمد موبائل سے اسکی ویڈیو ریکارڈ کرنے لگا
بڑی سی دیوار تھی اس نے اسپرے سے ایک جگہ عیسیٰ لکھا اور دوسری جگہ عکس
اس سے اگلی دیوار پر اس نے دل بناکر ای اور اے لکھا۔
پھر واپس کرسی پر بیٹھ کر اپنے شاہکار دیکھنے لگا
“عیسیٰ عکس”
وہ مسکرایا
پھر ویڈیو عکس کو سینڈ کی ساتھ ہی کچھ لفظ لکھ کر بھیجے
“عکس ناراض نہیں ہوا کرو مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا”
اس کا فون بجا آواز کانوں میں پڑی گویا اسے ہر زخم پر مرہم رکھ دیا ہو کسی نے
“زندگی میں دو تین عیسیٰ ہوتے ناں تو فکر ہمیں زیادہ نا ہوتی تم, تم سمجھتے نہیں ہو, کیوں نہیں سمجھتے تم؟”
وہ رو دینے کو کوئی
“واللہ میں نہیں چلارہا تھا بائیک”
“تو وہ اندھا تھا جو آگے بیٹھا ہوا تھا؟’
عکس کو غصہ چڑھا
“اب تم سنو گی تو تمہیں ہنسی آئے گی یا اور زیادہ غصہ آجائے گا”
عیسیٰ اسے ایکسیڈنٹ والا واقعی سنانے لگا
“ہمارے چھ بائیکس تھے پیچھے والوں نے اپنے بائیکس ہمارے اوپر چڑھا دئیے اور پھر سب گر گئے”
“پاگل تھے وہ؟ یا اندھے تھے؟”
عکس کو مزید غصہ آنے لگا
“اچھا ناں غصہ نا کرو اب, جاؤں گا ہی نہیں ان کے ساتھ”
اسے عکس کا غصہ پسند تھا لیکن زیادہ دیر یہ غصہ رہتا تو وہ پریشان ہونے لگتا تھا
“زیادہ درد ہو رہا ہے؟”
عکس نے پوچھا
“ہورہا تھا مگر اب آرام آرہا ہے”
عیسیٰ نے ساتھ ہی دونوں لڑکوں کو الوداع کہا اور کرسی پر سر ٹکا کر آنکھیں بند کردیں
“عکس”
“ہمممم؟”
“زندگی کا پہلا نام عکس ہے”
اس نے آہستہ سے کہا عکس نے اسکی آواز میں محبت کو محسوس کیا۔
“عکس میں تو ہمیشہ یہیں ہوں۔ تمہارے لئے ہمیشہ ایسا ہی رہوں گا۔ لیکن مجھے لگتا ہے تم مجھے چھوڑ جاؤ گی”
“میں تمہیں کیوں چھوڑ کرجاؤں گی؟”
“بس مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے”
عیسیٰ نے آنکھیں کھول دیں
“میں نے خواب میں دیکھا تھا تم مجھے چھوڑ کر جارہے تھے”
عکس نے نروٹھے پن کا اظہار کیا
“کوئی لڑکی تھی ساتھ؟”
عیسیٰ نے اسے چھیڑا
“ہاں, کوئی فاطمہ نامی لڑکی تھی جو تمہیں مجھ سے دور لیکر جارہی تھی, میں نے تمہاری فیملی میں دور دور تک پتا لگایا ہے ایک لڑکی ملی ہے فاطمہ نام کی مگر وہ دو سال کی ہے”
عیسیٰ کے فلک شگاف قہقہہ سناٹے میں گونجا
پھر عیسیٰ کے زخموں نے دہائی دی وہ چلا اٹھا
“تمہارے جوک نے میرے زخم ہلا دئیے ہیں عکس”
عیسیٰ گال سے اٹھنے والی تکلیف پر اچھلنے لگا
“فجر سے پہلے جو خواب دیکھو وہ سچے ہوتے ہیں”
عکس کی سوئی ابھی بھی وہیں گھوم رہی تھی
“اب تم دو سال کی بچی سے نفرت کرنے لگو گی؟ چھیییی عکس”
اس نے عکس کو چھیڑا
“مجھ میں ایک بہت گندی عادت ہے میں اپنی چیزیں شئیر نہیں کرتی چاہے وہ سستی ہوں یا مہنگی, اور تم تو پھر جیتے جاگتے انسان ہو”
عکس نے کھوئے ہوئے لہجے میں سب بولا
“ابھی تک کوئی لڑکی آئی ہے جو آگے آئے گی؟”
عیسیٰ نے اس کی ذہنی حالت کو کوسا
“وقت کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا عیسیٰ”
عکس نے فون پر وقت کو دیکھا دو بجکر پینتیس منٹ ہورہے تھے
“جب کوئی لڑکی نظر آئی تب لڑائی کرنا”
عیسیٰ نے بات کو ختم کیا
“تمہاری وجہ سے میری تہجد مس ہو جاتی ہے عیسیٰ بند کرو فون اب”
عیسیٰ نے ٹائم دیکھا اور پھر پوچھا
“تم نے مجھے کبھی اللہ سے مانگا ہے؟”
“نہیں”
کیوں؟”
“پتا نہیں, میں نے کبھی اس بارے میں سوچا نہیں”
وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ دعا میں عیسیٰ کو کبھی کیوں نہیں مانگ سکی
“میں چاہتا ہوں تم مجھے اللہ سے مانگو”
اس نے خواہش ظاہر کی
“میں تم سے بڑی ہوں عیسیٰ”
یاد دہانی کرائی گئی
ان دونوں کے بیچ عمروں کا یہ فرق کبھی کبھار عکس کو بہت ہرٹ کرتا تھا
“محبت کرنے سے پہلے سوچنا تھا ناں”
“محبت اس لئے تو نہیں کی تھی کہ شادی ہوگی”
“مطلب تم کسی اور سے شادی کرنا چاہو گی؟”
عیسیٰ کو تعجب ہوا
“نہیں, مجھے کسی سے شادی نہیں کرنی, اور تم سے ہوگی نہیں”
عکس نے آہستہ سے کہا
“ماما سے بات کروں گا”
اس نے حوصلہ دیا, اور ساتھ ہی الوداعی بات کرکے فون بند کردیا
عکس آرٹسٹ تھی, وہ اپنی سوچ کو کاغذ پر تخلیق کرتی تھی, پھر ان میں رنگ بھرتی, بہت خوبصورتی تھی اس کے ہاتھوں میں, اس نے بہت سارے مقابلوں میں حصہ لیا اور گرینڈ پرائز حاصل کئے۔ اس کے کمرے سے رنگوں کی خوشبو آتی تھی۔ اس نے کمرے کے ایک کونے میں کھڑے Easel کو دیکھا اور مسکرادی
“زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے”
________
عکس ننا کے ساتھ پینٹنگ کا سامان لینے آئی بازار تک آئی تھی۔ وہ دونوں پہاڑ سے نیچے کی جانب پیدل اتر رہے تھے عکس کا وجود سیاہ چادر میں چھپا تھا جس کے اطراف میرون رنگ کی کڑھائی اور شیشوں کا کام ہوا تھا۔ اسکی سرخ و سفید رنگت اس وقت ہلکی ہلکی دھوپ کی روشنی سے دمک رہی تھی, موسم میں ہلکی سی خنکی تھی۔ عکس کے پیروں میں سیاہ رنگ کے سادہ سے سلیپرز تھے۔ اور ننا سفید رنگ کے کرتے میں اسٹک کے سہارے چل رہے تھے۔ عکس کے ہاتھ میں دو تین شاپرز تھے سامان کے۔ چلتے چلتے پہاڑی کے قریب ایک مردہ گدھے کو دیکھ کر دونوں رک گئے۔
“ننا یہاں ہر ہفتے دو ہفتے بعد کوئی نا کوئی گدھا مرا ہوا پڑا ملتا ہے, ان کی موت کیسے واقع ہوتی ہے؟”
عکس نے ننا سے سوال کیا
“پتر جب ہم ضرورت سے زیادہ بوجھ کمزور جانوں پر ڈالتے ہیں نا تو وہ منزل تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ دیتی ہیں”
“تو ننا ان پر اتنا بوجھ کیوں ڈالا جاتا ہے؟ میں نے دیکھا لوگ سامان کے ساتھ اب خود بھی اونچائی پر چڑھنے کیلئے ان جانوروں پر بیٹھ جاتے ہیں”
عکس کے دل میں بہت حساسیت تھی۔
“اب تو لوگ اونچائی پر چڑھنے کیلئے کمزور انسانوں کا استعمال کررہے ہیں”
ننا مسکرا کر چلنے لگے
عکس کچھ دیر مرے ہوئے گدھے کو دیکھتی رہی پھر ننا کے پیچھے چلنے لگی
“عیسیٰ بھی اونچائی تک جانا چاہتا ہے”
عکس کو اچانک عیسیٰ کی باتیں یاد آئیں تو اس کے منہ سے نکل گیا اور ننا نے سن لیا
“کامیابی کی خواہش رکھنا اچھی بات ہے مگر کسی کمزور پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھنا, یہ آپ کو جتنی جلدی اوپر لے جائے گا اتنی ہی تیزی سے نیچے بھی گرائے گا”
ننا نے بہت گہری بات کہی
“ننا عیسیٰ اپنے جیسے لوگوں سے جب جیت نہیں سکتا تو بھاگ جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس کے سامنے بولتے نہیں ہیں انہیں وہ بہت بےعزت کرتا ہے, مجھے بلکل اچھا نہیں لگتا”
عکس کو عیسیٰ کی یہ عادت بلکل اچھی نہیں لگتی تھی
“مت دیکھا کرو اس کے لائیو, نا کیا کرو اسے اسٹالک”
ننا نے ہمیشہ کی طرح اسے روکا
اور یہ بات عکس کہاں سنتی تھی, رات کے کسی پہر آنکھ کھلتی عکس جاکر دیکھتی کہ عیسیٰ کہاں ہے کیا کررہا ہے اور وہ معمول کے مطابق لائیو گیمنگ میں بیٹھا کسی نا کسی کی لے رہا ہوتا تھا۔
“ننا اس کے اندر اتنی “میں” کیوں ہے؟”
عکس نے پھر پوچھا
“اکلوتا پوتا تھا دادا نے بڑا لاڈ دیا۔ ماں نے تو تربیت کی ہی نہیں۔ دادا کی تربیت ہے ساری۔ کچھ لوگوں کا جب سپورٹ سسٹم نرا ہی مضبوط ہو جائے نا تو وہ بگڑ جاتے ہیں, بگڑ گیا ہے بچہ ایسے لوگوں کو ٹھوکریں ہی سدھارتی ہیں”
عکس کے دل کو کچھ ہوا
“ننا کیسی باتیں کررہے ہیں اللہ نے کرے اسے کوئی تکلیف ہو”
“نا سوچو اسے اتنا ہم جس کے بارے میں زیادہ سوچنے لگتے ہیں ناں پھر اسکی سوچوں سے نکل جانے ہیں”
کتنی عجیب باتیں کرتے ہیں ننا, عکس نے سوچا جھرجھری لی
“لا ابالی بچہ ہے, محبت ایسے دلوں میں زیادہ دیر نہیں بیٹھتی, خود کو ایک جگہ پر نا رکھ دینا عکس, میرے بوڑھے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہیں کہ تمہارے آنسو صاف کرسکوں”
ننا نے سخت لہجے میں بات کی
عکس سے چلنا مشکل ہوگیا تھا
وہ جانتے تھے دونوں بچوں کے درمیان گہری دوستی, ہلکی پھلکی محبت میں کنورٹ ہوتی جارہی تھی, اپنے ہی بچے ایک دوسرے سے محبت کر بیٹھیں تو نا تعجب ہوتا ہے نا کوئی پریشانی مگر وہ عیسیٰ کی لاپرواہ طبیعت سے بخوبی واقف تھے۔ جو کھلونا اسے بن مانگے مل جایا کرتا تھا وہ اس کھلونے سے کھیلا ہی نہیں کرتا تھا, خواہ وہ کتنا ہی مہنگا کتنا اچھا کتنا نایاب ہی کیوں نا ہو۔
_____________
ہفتے کا دن عیسیٰ نے سو کر گزارا شام ہوئی اس نے اوپر والے پارشن سے آوازیں لگانا شروع کیں۔
“ماما کپڑے نکال دیں فارم ہاؤس جانا ہے”
اور فرحین عیسیٰ کا ناشتہ, اس کے کپڑے, اس کی ضرورت کی ہر چیز پوری کرنے لگیں,
جانے سے کچھ دیر قبل اس نے عکس کو کال کی
“رات کے ایک بجے کونسا ڈنر ہوتا ہے عیسیٰ ؟”
عکس کو علم ہوا تو پھٹ پڑی
“یار یہ پینڈو سا کوئی مری نہیں ہے یہ شہر ہے, لاہور ہے یہاں ایسا ہی ٹائم نارمل ٹائم ہوتا ہے”
وہ اسے روکنے کیلئے آج بھی پُرعزم تھی۔ اور عیسیٰ بےبس نظر آرہا تھا
“تم نہیں جاؤ گے عیسیٰ”
“عکس میرے دوست باہر کھڑے ویٹ کررہے ہیں, میں کیسے منع کردوں اب؟”
“جس منہ سے بولا تھا جاؤں گا اسی منہ سے بولو میں نہیں آرہا”
وہ نہیں چاہتی تھی عیسیٰ کسی غلط صحبت میں بیٹھے کوئی نشہ وغیرہ کرنے لگ جائے کیونکہ یہ چیز اب بہت عام تھی
“عکس سارے ہنسیں گے یار اور میں اکیلا تو نہیں جارہا اس نے گاڑی لی ہے اور سب کو ٹریٹ دے رہا ہے سب ساتھ جائیں گے ساتھ واپس آئیں گے”
وہ عکس کو ناراض کرکے جا نہیں سکتا تھا
“تمہیں گھر پر کھانا نہیں ملتا؟”
“کھانے کی بات تو نہیں ہے دوستی یاری بھی تو کچھ ہوتی ہے”
“توڑ دو دوستی ایسے دوستوں سے جو تمہیں آدھی رات کو سنسان جگہ پر کھانا کھلانے لے جائیں, اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے شہر کے فارم ہاؤسز میں کس طرح کی پارٹیز ہوتی ہیں”
“عکس ایسا کچھ نہیں ہے یار سمجھا کرو ناں انکار نہیں کرسکتا ناں”
“ٹھیک ہے جاؤ تم, اپنی مرضی کرو”
عکس نے ناصرف فون بند کیا بلکہ اسکا نمبر بھی بلاک لسٹ میں ڈال دیا
اور یوں عیسیٰ کا موڈ خراب ہوا اس نے دوستوں کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ خود کا نمبر بلاکڈ دیکھ کر اس نے فون زمین پر پھینکا اور سو گیا۔
______________
اگلی صبح عیسیٰ جلدی اٹھ گیا تھا کیونکہ سو سو کر وہ اب تھک چکا تھا۔ اس نے اپنی ماما کے نمبر سے عکس کو کال ملائی عکس کچن میں کھانا بنارہی تھی۔
“تمہاری وجہ سے میں دوستوں کے ساتھ نہیں گیا اور تمہارا ابھی بھی موڈ خراب ہے”
عیسیٰ کی بھاری آواز اوپن اسپیکرز سے سنائی دے رہی تھی فون شیلف پر پڑا تھا۔
“کسی کی ایک نہیں سننے والا ملک عیسیٰ اعوان تمہاری ساری باتیں مان لیتا ہے تم پھر بھی خوش نہیں ہوتی”
عیسیٰ نے خفگی ظاہر کی ساتھ ہی وہ کمپیوٹر اسکرین پر اپنی گیم آن کرکے دیکھ رہا تھا۔
جاری ہے………
(اشنال)
بہترین 🌸
شکریہ 🌸