Delusion – Episode 17
“جب تم افراح سے مل کر خوش ہوسکتے ہو تو میں کیف کو دیکھ کر کیوں نہیں خوش ہوسکتی؟”
عکس اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط لہجے میں بنا ڈرے بات کررہی تھی۔
“تم میرے نکاح میں ہو”
عیسیٰ کو اس کی بات پر بےانتہا غصہ آیا۔
“تم بھی تو نکاح میں تھے جب گلگت کے پہاڑوں میں اس کے ساتھ گھوم رہے تھے”
“میں چار شادیاں کرسکتا ہوں, تمہارے لئے نکاح میں رہتے ہوئے کسی دوسرے کو سوچنا بھی حرام ہے”
عیسیٰ نے اونچی آواز میں بول کر عکس کو ڈرانا چاہا۔
“تمہیں چار نکاح کرنے کی اجازت ہے, لڑکیوں کو لے کر گلی گلی گھومنا تم پر بھی ویسے ہی حرام ہے جیسے مجھ پر”
دونوں بچوں کی طرح لڑ رہے تھے۔
“جس سے شادی کروں گا اس کے ساتھ گھوم نہیں سکتا؟”
عیسیٰ کے پاس بڑے جواب تھے۔
“نہیں, گرل فرینڈ کے ساتھ گھومنے پھرنے کا کوئی کانسیپٹ نہیں اسلام میں”
وہ تیزی سے بولی۔ پھر اسے بولنے کا موقع دئیے بغیر دوبارہ کہنے لگی۔
“اس طرح تو میں بھی کیف سے شادی کرنے والی ہوں میرے لئے بھی پھر اس سے ملنا جائز ہے”
عیسیٰ آگے بڑھا وہ پیچھے ہٹی۔
“تم نا اپنی اوقات میں رہو, جب تک میرے نکاح میں ہو, میں یہ بے ہودگی نہیں ہونے دوں گا”
وہ پھنکارہ۔
عکس نے کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ کمرے کا دروازہ دھکیل کر فرحین اندر داخل ہوئیں۔ اور دونوں کو ایک کمرے میں آمنے سامنے کھڑا دیکھ کر حیران رہ گئیں۔
“تمہارے چیخنے کی آوازیں نیچے تک آرہی ہیں, تم عکس پر چلا رہے تھے؟ کس لئے؟”
انہوں نے پوچھا۔ دونوں خاموش رہے۔
“عکس تم؟ میں تمہیں شام سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہلکان ہوگئی ہوں تم, تم یہاں کیسے؟”
“آپ کا بیٹا مجھے اس کمرے میں بند کر گیا تھا”
عکس نے جواب دیا۔
“کیوں عیسیٰ؟ خیریت تھی؟”
انہوں نے عیسیٰ کو دیکھا۔
“میں اتنا بےغیرت نہیں ہوں جو اپنی بیوی کو سجا سنوار کر اس کیف صاحب کے سامنے بٹھا آؤں”
عیسیٰ نے غصے سے کہا۔
“کبھی اس سے یہ کہا ہے آپ نے کہ عیسیٰ کیلئے تیار ہو جاؤ؟”
وہ غصے میں اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا تھا اور یہاں عکس اور فرحین صدمے سے بے ہوش ہونے کو تھیں۔
فرحین تو گنگ رہ گئی تھی۔
“دوبارہ آپ نے اس کو کسی مرد کیلئے سجنے سنورنے کا بولا تو میں اسے جلاؤں گا نہیں اسے گولی مار دوں گا”
عیسیٰ نے عکس کو ایسے دیکھا جیسے ابھی کھا جائے گا۔
فرحین نے موقع کی مناسبت سے فوراً اپنا مدعا پیش کیا۔ وہ عیسیٰ کے اس غصے میں سچ کہنے والی کیفیت کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہ رہی تھیں
“لیکن اسے تم سے طلاق چاہئیے”
“وہ کیا ہوتا ہے؟”
عیسیٰ نے اب نارمل ہو کر کہا۔ دونوں ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگیں۔ اسے آخر دوبارہ خود ہی بولنا پڑا
“اب آپ دونوں میرے روم سے جانے کا کیا لیں گی؟”
باری باری دونوں کو اس نے دیکھا۔ جانے میں پہل عکس نے کی۔ وہ عیسیٰ کے برابر سے نکلنے لگی تھی کہ عیسیٰ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا پھر ماما سے بولا۔
“آپ جائیں”
فرحین اب پورے ہوش میں آ چکی تھیں۔ انہوں نے عیسیٰ سے کہا۔
“چار گھنٹے تم نے اسے اپنے روم میں بند کیا ہے۔ تمہاری فرسٹریشن اتارنے کا سامان نہیں ہے یہ, چھوڑو اسے”
فرحین نے عکس کا ہاتھ عیسیٰ کے شکنجے سے چھڑایا اور اسے اپنے ساتھ لے جانے لگیں۔
عیسیٰ دونوں کو جاتے دیکھتا رہا۔ پھر اپنے روم کا دروازہ بند کر کے اپنے بیڈ پر بیٹھا پھر اس نے خود کو پیچھے گرا دیا۔
خود سے کہنے لگا۔
“جب نہیں چاہئیے تھی۔ تب دے رہی تھیں۔ اب چاہئیے تو دور کر رہی ہیں”
عیسیٰ نے وہ تکیہ اٹھا کر اپنے چہرے پر رکھ لیا جہاں سر رکھ کر عکس سوئی تھی۔
پھر وہ گنگنانے لگا۔
دل کردا میں تینوں ویکھی جاواں
دل کردا میں تینوں ویکھی جاواں
نئیں تیرے جیہا ہور دسدا
اس کی آواز میں نمی تھی۔ سوز تھا۔ اسے اس وقت اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس کے گھر میں تھی۔ لیکن وہ اسے اپنے کمرے میں اپنے پاس لانے کا حق رکھتے ہوئے بھی حق جتا نہیں سکتا تھا۔ وہ اسے ہاتھ بڑھا کر چھو لینا چاہتا تھا محسوس کرنا چاہتا تھا اسے اختیار تھا مگر وہ اسے گلے سے لگا لینے کی خواہش رکھنے کے باوجود اپنی خواہش کو تھپک کر سلا رہا تھا۔
وہ محسوس کررہا تھا عکس پر کیا گزری ہوگی جس وقت اس نے عکس سے اپنا آپ چھینا تھا۔ عکس نے کیسے صبر کیا ہوگا وہ تو عیسیٰ کے معاملے میں بہت کمزور تھی۔ کتنا روئی ہوگی وہ۔ کتنا تڑپی ہوگی۔ کتنی تکلیف محسوس کی ہوگی اس نے افراح کے ساتھ اسے دیکھ کر۔ اب وہ سب محسوس کرنے لگا تھا جو عکس پر گزرا تھا۔
عکس کمزور تھی اور عیسیٰ بہادر تھا۔ وہ اوپر سے مضبوط بن رہا تھا مگر وہ اندر سے ٹوٹ رہا تھا۔
“عکس میری زندگی سے چلی گئی تو کسی کو پھر عیسیٰ نہیں ملے گا”
اس نے سخت لہجے میں دیواروں سے کہا۔ دیواروں نے سن کر ایک دوسرے کو دیکھا پھر نظریں جھکا لیں۔
____________
“درد تو نہیں ہورہا؟”
فرحین نے عکس کے جلے ہوئے ہاتھوں کو پیار کرتے ہوئے پوچھا۔
“اونہہہہ, زیادہ گرم نہیں تھی”
عکس نے فرحین کی گود میں سر رکھا ہوا تھا۔
“تمہارا رونا اسے واپس لے آیا ہے”
فرحین کی بات پر عکس کی آنکھیں پانی سے لبالب بھر آئیں۔عکس خاموش رہی تو فرحین پھر بولیں۔
“میرے بیٹے کو معاف کر دینا عکس, ایک ہی بیٹا ہے میرا, تمہارے آنسو اسے یہاں تک لے آئے ہیں, وہ جیسا بھی ہے میں اسے دُکھ میں نہیں دیکھ سکتی”
فرحین نے دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھے۔ عکس ان کی گود میں لیٹی ان کے آنسوؤں سے تر چہرے کو دیکھ کر کہنے لگی۔
“اس چہرے سے محبت ہے مجھے ماما, اس چہرے کے علاؤہ کسی چہرے کو دیکھنے کا دل نہیں کرتا, وہ جب کسی اور کا تھا تب بھی اس کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھائے, اب تو اس کی آنکھوں میں مجھے اپنا چہرہ پھر سے نظر آنے لگا ہے”
فرحین نے عکس کی آنکھوں کے کناروں سے بہنے والے آنسو صاف کئے۔
“ماما وہ نہیں چاہے گا تو میں کیف سے شادی نہیں کروں گی”
عکس نے مضبوط لہجے میں کہا۔
“وہ منہ سے کہتا ہی تو نہیں ہے”
فرحین نے عیسیٰ کی عادت بتائی۔ وہ ایسا ہی تھا۔
“محبت انسان کو بہت مجبور کر دیتی ہے, وہ گھما پھرا کر بھی کہے گا تو میں سمجھ جاؤں گی”
عکس اس کی محبت میں کیا بن گئی تھی۔
“کس سے سیکھی ہے محبت کرنی؟”
انہوں نے عکس سے مسکرا کر پوچھا۔ عکس جھینپی۔
“وہ ایسا ہے ہی نہیں کہ اس سے نفرت کی جا سکے, ایسا ہوسکتا تو تہجد میں بڑا رو کر میں نے کہا تھا کہ مجھے عیسیٰ سے نفرت ہو جائے”
وہ نم آواز سے بس اتنا کہہ سکی۔
پھر دونوں نے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ کبھی روئیں کبھی ہنسیں۔ ماں بیٹی بہت دیر تک ساتھ بیٹھیں رہیں۔ نیند دونوں کی آنکھوں سے دور تھی۔
_____________
وہ بیڈ پر آڑھا ترچھا لیٹا ہوا تھا, اے سی کی فل ٹھنڈک میں سر تا پیر کمبل اوڑھے دنیا سے بے نیاز نیند کی وادیوں میں گم۔ عکس اس کے سر پر کھڑی اس کا کمبل کھینچنے کا ناکام کوشش کررہی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ روتی جارہی تھی ساتھ ساتھ اسے پکارتی جارہی تھی
“عیسیٰ…… عیسیٰ اٹھو….. عیسیٰ ہوش میں آؤ”
وہ بہت گہری نیند میں تھا۔ عکس نے ہمت کرکے اسے جھنجھوڑنا شروع کیا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اپنے سامنے عکس کو جھکے دیکھ کر پہلے وہ حیران ہوا پھر غصہ سے بولا۔
“کیا مصیبت ہے, اتنی مشکل سے سویا تھا میں, کیا آفت آگئی ہے؟”
“پاپا کو ہارٹ اٹیک آیا ہے وہ ہاسپٹل میں ہیں”
عکس نے روتے ہوئے اتنا کہا عیسیٰ کی نیند بھک سے اڑی۔ اس نے کمبل اپنے اوپر سے کھینچ کر پھینکا۔ بیڈ سے اتر کر بھاگنے لگا تھا کہ عکس کی آواز نے روکا۔
“عیسیٰ”
عکس کے ہاتھ میں بلیک کلر کی ٹی شرٹ تھی۔ اس نے خود کو دیکھا وہ بنیان اور ٹراؤزر میں بغیر جوتا پہنے بھاگنے والا تھا۔ عیسیٰ نے اس کے ہاتھ سے شرٹ چھین کر پہنی اور سلیپرز پاؤں میں اڑس کر بھاگتا ہوا سیڑھیاں اترا۔ عکس بھی اسی کی اسپیڈ میں اس کے پیچھے بھاگی۔
عیسیٰ نے بائیک اسٹارٹ کی۔ تو عکس اس کی بائیک کے سامنے آ رکی کہیں مبادا وہ اسے چھوڑ کر ہی نا چلا جائے۔ عیسیٰ نے پہلی بار اس کی حالت نوٹ کی پھر اس نے بائیک موڑی عکس جلدی سے عیسیٰ کے پیچھے بیٹھی وہ پہلے ہی چادر اور ماسک پہن کر ساتھ جانے کیلئے ہی آئی تھی۔ عیسیٰ بائیک کو زن سے بھگا لے گیا۔
ہاسپٹل میں ماما نے عیسیٰ کو دیکھ کر مزید رونا شروع کیا۔ ماما کو روتے دیکھ کر عکس بھی دوبارہ سے رونے لگی۔ عیسیٰ نے اپنی ماں کو تسلی دی۔ ساتھ ہی عکس گھورنے لگا جو بجائے ماما کو سنبھالنے کے خود ہچکیاں بھر بھر رو رہی تھی۔
“عکس ماما کو سنبھالو میں ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں”
عیسیٰ نے عکس سے کہا تو وہ شرمندہ سی ہوئی اس نے خود کو سرزنش کی۔ اس وقت اسے ماما کو سنبھالنا تھا۔ عکس نے اپنے آنسو صاف کئے پھر ماما کو گلے لگا کر انہیں حوصلہ دینے لگی۔ عیسیٰ ڈاکٹر سے ملنے چلا گیا۔
“پاپا جی سویرے سویرے اٹھانے کا یہ طریقہ بلکل پسند نہیں آیا مجھے”
عیسیٰ نے اس غمگین ماحول کو ہلکا کرنے کی کوشش کی۔ فرحین عکس اور عیسیٰ تینوں ہی اس وقت محمد اصغر کے سامنے کھڑے انہیں تشویش سے دیکھ رہے تھے۔ وہ مسکرا کر عیسیٰ کو دیکھتے رہے۔
“میں بارہ بجے تک آپ کے ساتھ آ تو جاتا ہوں اور کیا چاہئیے آپ کو؟”
عیسیٰ سمجھ رہا تھا انہیں کاروبار کی کوئی ٹینشن ہوگی مگر وہ کہنے لگے۔
“میں چاہتا ہوں میں اپنی زندگی میں ایک بار اپنے پوتے پوتیوں کو کندھے پر بٹھا کر آئسکریم کھلانے لے جاؤں”
ان کی معصوم سی خواہش پر جہاں فرحین اور عیسیٰ کو ہنسی آئی وہیں عکس کو شرمندگی اور گھبراہٹ محسوس ہونے لگی۔
“ابھی تو میں خود بچہ ہوں, کتنا برا لگوں گا پاپا بن کر”
عیسیٰ نے بہت ہی برا سا منہ بنایا۔ جس پر دونوں میاں بیوی ہنسنے لگے۔
عکس ہاسپٹل روم میں پڑے بینچ پر جا بیٹھی۔
“تمہاری شادی بھی دھوم دھام سے نہیں کرسکے ہم۔ وہ خوشی بھی ہم نہیں منا سکے۔ ایک ہی اولاد ہے اس کی خوشیاں بھی نصیب نہیں ہو رہیں”
پاپا کی بات سن کر عیسیٰ نے سر جھٹکا۔
“اچھا……یہ بات ہے……ہممممم….., چلو عکس گھر چلیں”
عیسیٰ کے اچانک کہنے پر عکس اچھل پڑی۔ ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگی۔
“بدتمیز”
فرحین نے عیسیٰ کے بازو پر زور سے مکا مارا۔
عیسیٰ اپنا بازو مسلنے لگا۔
“ابھی یہ بحث مزید چلنی تھی کہ ہاسپٹل روم کا ڈور کھٹکھٹا کر پاپا کے کچھ دوست اندر آئے جنہیں دیکھ کر عکس اور فرحین دونوں باہر چلی گئیں۔
کچھ دیر بعد فرحین کے کہنے پر عیسیٰ عکس کو گھر چھوڑنے آیا۔ بائیک پر سفر میں دونوں خاموشی رہے اپنی اپنی سوچوں میں گم۔
“میرے کپڑے نکال دو”
عیسیٰ نے عکس کو روم میں جاتے دیکھ کر آواز لگائی۔ اس نے عیسیٰ کو دیکھ کر سر ہلایا اور اس کے پیچھے اس کے کمرے میں آئی۔
“کون سے کپڑے نکالوں؟”
عکس نے پوچھا
“جو مرضی”
عیسیٰ نے جواب دیا۔ عکس پریشان سے عیسیٰ کے ہینگ شدہ کپڑے الٹ پلٹ کرتی رہی۔ پہلی بار تھی اسے اندازہ نہیں تھا عیسیٰ کو کیا پہننا ہوگا۔ ہمیشہ وہ ماما کے نکالے ہی کپڑے پہنتا تھا۔
“جینز شرٹ یا کرتا؟”
اس نے پھر پوچھا
“جو مرضی”
اس نے پھر وہی جواب دیا۔ وہ ساتھ موبائل میں مصروف تھا۔ لیکن ذہنی طور پر وہ عکس پر ہی نظر رکھے ہوئے تھا۔ عکس کو جان بوجھ کر تنگ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ عکس نے کچھ دیر سوچا پھر بلیک اور ریڈ کلر کی ٹی شرٹ نکالی۔ ساتھ ہی ٹراؤزر نکال کر بیڈ پر رکھا۔ اور عیسیٰ کو دیکھنے لگی۔
عیسیٰ نے فون پر سے نظریں ہٹا کر اس کے نکالے کپڑے دیکھے۔ پھر کہنے لگا۔
“یہ وہی شرٹ ہے جس کا تم نے وال پیپر لگایا ہوا ہے, پچھلے ایک سال سے”
عکس نے بتایا تھا اسے اس شرٹ میں وہ سب سے زیادہ پیارا لگتا ہے۔ عیسیٰ نئے نئے کپڑے نہیں خریدتا تھا۔ جو ماما لاتی تھیں وہ پہن لیتا تھا۔ جس میں عکس کو پکارا لگا کرتا تھا وہ بار بار پہن لیتا تھا۔
“پرانی ہوگئی ہے اب, کلر ڈیمیج ہورہا ہے”
عکس نے آہستہ سے کہا۔
“نئی شرٹس میں پیارا بھی تو نہیں لگتا تمہیں”
عیسیٰ نے ہنس کر کہا۔
“میں نے صرف نیلے پیلے رنگوں سے روکا تھا”
دونوں پرانی باتیں ایک دوسرے کو یاد کروا رہے تھے۔
“کتنا تابعدار ہوتا تھا ناں میں”
عیسیٰ ہنسنے لگا اور عکس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
کالا رنگ اتنا کیوں پسند ہے تمہیں؟”
عیسیٰ نے یونہی پوچھ لیا۔
“کیف کا فیورٹ کلر بھی بلیک ہے”
عکس کے منہ سے کیف کا نام نکلنے کی دیر تھی عیسیٰ کا سارا اچھا خوشگوار موڈ ایکدم سے کڑوے کریلے جیسا ہوگیا۔ عیسیٰ اپنی جگہ سے اٹھا اور عکس کے سامنے آکر کھڑا ہوا۔
“فون کہاں ہے تمہارا؟”
عیسیٰ اس کی آنکھوں میں غصے سے دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔
“نیچے”
عکس نے اطمینان سے جواب دیا۔
“فون لیکر آؤ اپنا”
“کیوں؟”
“جتنا کہا ہے اتنا کرو”
“کسی کی پرسنل چیزوں میں نہیں جھانکتے ہوتے”
عکس کا اطمینان عیسیٰ کو جلا رہا تھا۔ عیسیٰ نے اچانک سے عکس کا منہ دبوچ لیا۔
“میرے سے ضد مت لگاؤ عکس, جب میں کچھ کروں گا تو رونے لگو گی”
وہ سختی سے عکس کا منہ دبوچے غصے سے پھنکار رہا تھا۔ عکس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور ہونٹوں پر مسکراہٹ۔
“تم تو سب کچھ کر چکے ہو عیسیٰ”
کتنے دکھ سے اس نے کہا تھا۔ عیسیٰ سے اس کی آنکھوں میں دیکھنا مشکل ہوا تو اس نے عکس کو چھوڑ دیا۔
“جو کام میں چھوڑ چکا ہوں وہ تم کیوں کر رہی ہو؟”
پتا نہیں وہ ریکوئسٹ کر رہا تھا سمجھا رہا تھا یا پھر بتا رہا تھا وہ سمجھ نہیں پائی۔
“میں صرف وہی کر رہی ہوں جو ماما چاہتی ہیں”
عکس نے نم آنکھوں سے جاتے جاتے کہا۔
“میں تم سے یہ کیسے کہوں عکس کہ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگ رہا, مجھے کیف سے نفرت محسوس ہو رہی ہے, تمہیں کیسے سمجھاؤں میں”
عکس کے جانے کے بعد عیسیٰ شاور کے نیچے کھڑا دیواروں سے مخاطب تھا۔
…جاری ہے
(اشنال)