Delusion – Episode 15

عیسیٰ چپ چاپ ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا رہا۔ فرحین اس کی بند آنکھوں کے پیچھے چھپی پریشانی بھانپ لینا چاہتی تھیں۔ دھیرے دھیرے عیسیٰ کے بالوں میں انگلیاں چلاکر وہ جیسے اس کے دماغ کے اندر بھری سوچوں کو سلا دینا چاہتی تھیں۔ کچھ بھی تھا وہ ماں تھیں اور اپنی اولاد کو بےسکون کون ماں دیکھ سکتی تھی۔
“عیسیٰ؟”
انہوں نے پکارا۔ جواب ندارد۔ انہوں نے پھر کہنا شروع کیا۔
“عیسیٰ! تم افراح کی فیملی سے میری بات کروادو۔ عکس کیلئے میں نے بات کرلی ہے۔ تم دونوں اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو جاؤ گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا”
عیسیٰ کی بند آنکھیں کھلیں۔ بےتاثر آنکھیں۔ اسے روشنیاں چبھنے لگیں تو آنکھیں پھر بند کردیں۔
“زبردستی رشتے نہیں بن سکتے, نا ہی زبردستی کسی کو خود سے محبت کروائی جاسکتی ہے۔ میری غلطی تھی مجھے لگتا تھا ایسے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ عکس کو میں نے سمجھا لیا ہے۔ تم اسے چھوڑ دو گے تو وہ شادی کرلے گی۔ اور تم بھی افراح سے شادی کرلو, یہ گھر قبرستان کی طرح لگ رہا ہے, اور ہم جیسے کوئی چلتے پھرتے مردے۔ خوشیاں دے دو ہمیں تھوڑی سی زندگی بچی ہے کوئی خوشی دے دو ہمیں”
شاید وہ کسی دیوار سے باتیں کررہی تھیں۔
آنکھیں بند کر لینے سے نیند کہاں آتی ہے؟ عیسیٰ اس وقت ذہنی ابتری کا شکار تھا۔ جب اسے ماں کی گود میں بھی سکون نہیں ملا تو وہ ان کا ہاتھ روک کر خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
گیمنگ روم پر نظر پڑتے ہی عیسیٰ کو اپنے اس بےانتہا محنت اور لگن سے بنائے گئے روم سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ اپنے کمرے میں جاکر وہ بیڈ کی پائنتی سے ٹیک لگا کر کارپٹ پر بیٹھا اور اپنا سر اس نے بیڈ پر گرا دیا۔ چھت کو گھورنے لگا۔ پھر اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگائی۔ ایک کے بعد ایک سگریٹ۔ سگریٹ کے دھوئیں میں اسے عکس کا بھیگا چہرہ نظر آنے لگا۔ عیسیٰ بےچین ہوا۔ اس نے ہاتھ سے دھواں اڑ کر وہ چہرہ غائب کیا۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔
وہ ٹیرس پر آیا۔ بارش جاچکی تھی۔ حبس ہوچکا تھا۔ کھلی فضا میں سانس لے کر اس نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ ناکام رہا۔
وہ روم میں آیا اور شاور کے بہتے پانی کے نیچے کچھ دیر کھڑا رہا۔ بھیگتا رہا۔ بھیگتا رہا۔ بیڈ پر پڑا اس کا فون بجنے لگا۔ اس نے افراح کے نام کی مخصوص رنگ ٹون لگا رکھی تھی۔ آج یہ نمبر بھی عیسیٰ کے دل کے بھاری پن کو ختم نہیں کرسکتا تھا کیونکہ آج عیسیٰ کو اس آواز کی چاہت نہیں تھی۔
شاور لیکر اس نے ڈریس چینج کیا۔ اب اس وقت وہ بوسکی کے کرتے میں آئینے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا۔ ہئیر برش اس نے پھینکا۔ اور بیڈ پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں میں سر کو تھام لیا۔ پھر اس نے اپنا فون اٹھایا۔ پھر اپنے سارے دوستوں کو میسجز بھیجے۔ وہ دوست جنہیں وہ پچھلے کئی مہینوں سے چھوڑ کر بیٹھا تھا۔
رات کے ایک بجے وہ سب کو میسجز کررہا تھا۔ ہیلو۔ کیسے ہو. کیا کررہے ہو۔ کیا چل رہا ہے۔ سبھی کو ایک جیسے میسجز۔ اور آج تو لگتا تھا جیسے شاید سب رات چڑھتے ہی سو گئے ہیں۔ کسی نے نا دیکھا نا جواب دیا۔ اسکرین کو سکرول کرتے نیچے کہیں بہت نیچے بہت پرانے میسجز میں اسے عکس لکھا نظر آیا۔ اور یہیں اسکا چلتا ہاتھ رک گیا۔
جو دل ڈوب رہا تھا وہ یہاں بہہ گیا۔
اس نے لکھا اور لکھ بھیجا۔ نا کچھ سوچا۔ نا کچھ جانا۔ بس لکھ بھیجا۔
“عکس”
وہاں عکس رات کو اپنے لئے پانی رکھنا بھول گئی تھی۔ نیند ٹوٹی تو پیاس محسوس ہوئی۔ وہ کچن سے پانی لینے گئی۔ تو پیچھے فون روشن ہوا پھر بجھ گیا۔ پانی لیکر واپس آئی۔ اس نے پانی پیا۔ اور چادر اوڑھ کر منہ پر تکیہ رکھ کر سوگئی۔ نیند اس پر اس قدر حاوی تھی کہ وہ دروازے کو لاک لگانا بھول گئی۔
بنا کسی آواز کے دروازہ کھلا پھر بند ہوا۔ اس قدر گھپ اندھیرے میں کون سوتا ہے؟ لڑکیاں تو ڈرپوک ہوتی ہیں یہ کیسی لڑکی تھی۔ کوئی نام کی روم لائٹ کچھ بھی نہیں آن تھا۔ سیاہ گھور اندھیرا۔ اندازے سے چلتا ہوا وہ قریب آیا۔ اچانک عکس کا فون روشن ہوا۔ اس ہلکی سی روشنی میں اس نے خود کو عکس کے بیڈ کے قریب کھڑے پایا۔ عیسیٰ نے جلدی سے فون اٹھایا۔ اور لائٹ آن کی۔ عکس کسی چوری بند لاش کی طرح چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ اور تکیے کو چہرے پر رکھ کر دونوں بازوؤں سے دبوچا ہوا تھا۔ وہ اس وقت عکس کی صرف کھلی ہوئی زلفیں ہی دیکھ سکتا تھا۔ اس نے فون کو الٹا کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔ جس کی روشنی پھیل کر کمرے کو ہلکا روشن کر گئی تھی۔
وہ کچھ دیر یونہی کھڑے اسے دیکھتا رہا۔ وہ کروٹ کے بل لیٹی تھی۔ عیسیٰ جس دروازے سے اندر آیا تھا اس نے اس بند دروازے کو دیکھا۔ وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ وہ تھک گیا تھا۔ وہ بیڈ پر عکس کے قریب رخ موڑ کر بیٹھ گیا اور اپنے ماتھے کو مسلنے لگا۔ کس قدر مشکل میں تھا وہ اس وقت۔ ہار گیا تھا مگر ہارا ہوا دکھنا نہیں چاہ رہا تھا۔ اس نے پھر رخ موڑ کر عکس کو دیکھا اور پکارا۔
“عکس”
اور عکس نے ابھی حال ہی میں تو سیکھا تھا کہ جاگتے رہنے سے کوئی نہیں ملتا۔ دو دن سے وہ گہری نیند لینے لگی تھی بنا کسی دوائیوں کے سہارے کے۔ اس نے جان لیا تھا کہ غم میں پڑے رہنے سے غم ختم نہیں ہو جاتے۔
عیسیٰ پکار رہا تھا اور وہ سن نہیں رہی تھی۔ اچانک عیسیٰ نے اس کا بازو کھینچ کر اسے سیدھا کیا۔ اس آفت پر عکس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔ عیسیٰ اس کا بازو پکڑے اس کے بےحد نزدیک اس پر جھکا ہوا تھا۔ عکس نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔
“میسجز کئے تھے تمہیں۔ دیکھے نہیں تم نے”
عیسیٰ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہا تھا۔ عکس نے اٹھنے کی کوشش کی۔ عیسیٰ نے اسکا بازو نہیں چھوڑا۔ وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی۔ عیسیٰ اس کے بلکل قریب تھا۔
“کچھ پوچھ رہا ہوں”
“سورہی تھی میں”
عکس نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ اس کا دل اس قربت پر دھڑک رہا تھا۔ مگر وہ جانتی تھی یہ کوئی رومانوی ملاقات نہیں تھی۔ یہ بھی پچھلی ملاقاتوں کی طرح کوئی سزا ہی ثابت ہونے والی تھی۔ عیسیٰ کے یوں خاموش اسے دیکھنے پر عکس نے اپنے بازو کو دیکھا جو عیسیٰ کی گرفت سے اب درد کر رہا تھا۔ عیسیٰ نے اس کا بازو چھوڑ کر عکس کی گود میں پڑے چھوٹے سے کشن پر سر رکھ دیا۔ عکس کی جان ہوا ہوئی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر اپنی چیخ کو روکا۔
“میں تمہیں چھوڑوں گا تو تم شادی کرلو گی”
عیسیٰ بند آنکھوں سے اس سے پوچھ نہیں رہا تھا اسے جیسے بتا رہا تھا۔ وہ پہاڑی لڑکی جانوروں کیڑے مکوڑوں سے نہیں ڈرتی تھی۔ وہ عیسیٰ کی اچانک سے کچھ بھی کر گزرنے والی حرکتوں سے ڈرتی تھی۔ ابھی بھی وہ اس ڈر سے کانپ رہی تھی۔
“بہت اکیلا فیل کر رہا ہوں میں, نا میرے پاس تم ہو نا دوست ہیں نا سکون ہے”
عیسیٰ نے بند آنکھوں سے شکست تسلیم کی۔ عکس نے حیران ہو کر اسکی بند آنکھوں کو دیکھا۔ وہ پھر سے بولنے لگا۔
“آج سب دوستوں کو میسجز کئے ہیں میں نے۔ کسی نے ریپلائے نہیں دیا۔ آج کوئی ہے ہی نہیں۔ آج میں اکیلا ہوں”
عکس نے غور سے اس کے چہرے کو جھک کر دیکھا کیا وہ سچ میں تنہا فیل کر رہا تھا یا صرف وقتی فیلنگز تھیں۔
“افراح ہے نا تمہارے پاس”
عکس کے منہ سے پھر شکوہ کی صورت افراح کا نام نکلا۔
“نہیں چاہئیے مجھے افراح”
عیسیٰ نے تلخ لہجے میں کہا اور آنکھیں کھول دیں۔ عکس جو اس پر جھک کر اسے غور سے دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ایکدم سے پیچھے کو ہوئی۔ عیسیٰ نے سر کشن سے اٹھایا اور رخ موڑ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“آئی ایم سوری”
عکس پر صدمے کے صدمے گزر رہے تھے۔
“مجھے معلوم ہے یہ سوری تمہاری اتنے مہینوں کی اذیت کو کم نہیں کرسکتا مگر میرے پاس بس یہی ہے”
بھاری آواز میں اس شخص کے منہ سے بنا کوئی احساس پیدا کئے اتنا کہہ دینا ہی غنیمت تھا۔
“کیوں آئے ہو؟”
عکس نے پوچھ ہی لیا۔
“سوری کرنے”
سیدھا سیدھا بولا گیا۔
“کوئی لڑائی ہوئی ہوگی اس سے ۔ بات نہیں ہورہی ہوگی اس لئے آج اکیلا فیل کیا۔ سوری کرنے آئے۔ کل افراح آئے گی پھر وہی سخت دل بن جاؤ گے”
عکس اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔
“میں اسے چھوڑ دوں تو تم شادی کرلو گی؟”
اس نے اپنا رخ عکس کی طرف موڑ کر پوچھا۔
“تم مجھے چھوڑ گے تو میں شادی کرلوں گی”
عکس نے اس کی بات کا مختلف جواب دیا۔ وہ بھی پر اعتماد ہو کر۔ عیسیٰ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ اسے بلا خوف دیکھ رہی تھی۔ جن آنکھوں میں اسے کھو دینے کا خوف رہتا تھا آج وہ آنکھیں بلکل صاف تھیں۔
“ٹھیک ہے چھوڑ دیتا ہوں”
عیسیٰ کو اپنی آواز پرائی محسوس ہوئی۔
“دوبارہ اس کمرے میں آنے سے پہلے سوچنا بھی اور اجازت بھی لینا”
عکس کے سخت لہجے پر عیسیٰ نے اسے بغور دیکھا۔
عیسیٰ اپنی جگہ سے اٹھا اور بنا پلٹے اس کے کمرے سے نکل گیا۔ اس کی خوشبو عکس کے کمرے کی دیواروں سے لپٹ گئی تھی۔ عکس نے کشن اٹھا کر گھٹنوں پر رکھا پھر اس پر اپنا چہرہ رکھا۔ پھر ہلکی ہلکی آواز کیساتھ رونے لگی۔
_______________

صبح موسم صاف تھا۔ اور عکس کا دل بھی دھل گیا تھا۔ اس نے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ وہ جانتی تھی رات جو ہوا تھا وہ محض رات گئی بات گئی تھا۔ عیسیٰ کی نیچر سے واقف تھی وہ زندگی میں اس نے بس ایک شخص پر ہی تو غور کیا تھا۔ اور پھر ہوا بھی وہی جیسا اس نے سوچا تھا۔ عیسیٰ اب شام کے بجائے بارہ بجے اٹھنے لگا تھا۔ وہ کچن میں آیا۔ تو عکس کو سامنے پایا۔ عیسیٰ نے کندھے کے سہارے سے فون کان سے لگایا اور پانی کا گلاس بھر کر پینے لگا۔
“یار افی مجھے صبح جلدی اٹھانا ہے تو بریک فاسٹ بنانا سیکھ لو بس۔ میں صبح صبح ہوٹلوں سے بریک فاسٹ نہیں لا سکتا”
اس نے فون پر افراح سے کہا تھا اور سنایا عکس کو تھا۔ وہ جانتی تھی یہی ہونا تھا۔ رات والی روح نے صبح غائب ہو جانا تھا۔ عکس جی بھر کر بدمزہ ہوئی اور کچن سے نکلنے لگی تھی کہ اسے پکارا گیا۔
“بریک فاسٹ بنا دو”
“فون والی سے کہو بریک فاسٹ بنا کر دے”
عکس کے جیلس ہونے پر عیسیٰ نے اپنے قہقہے کو روکا۔
“وہ جب آئے گی تو بنا دے گی۔ ابھی تم بنا دو, ابھی تمہارا فرض ہے”
“میرے فرض یاد ہیں اور اپنے فرائض بھول گئے ہو؟”
عکس کے منہ سے غصے میں پھسلا اور عیسیٰ نے شرارت میں پکڑ لیا۔
“کونسا حق چاہئیے بتاؤ”
عیسیٰ عکس کے نزدیک آیا اور اس نے معنی خیزی سے کہا۔
“اپنے حقوق و فرائض کا معاملہ اب افراح سے طے کرنا۔ مجھے جتنی جلدی چھوڑ دو گے اتنی جلدی تمہیں تمہارے بریک فاسٹ ملیں گے”
عکس نے خود کو کمپوز کیا اور پر اعتمادی سے جواب دیا۔
عیسیٰ کا فون بند ہوچکا تھا۔ عکس کی بات پر اس کا موڈ بگڑنے لگا۔ وہ دو قدم دور ہٹ گیا۔
“یہ شادی تم پہلے بھی کر سکتی تھی۔ جس کیلئے ابھی اتاولی ہو رہی ہو”
عیسیٰ نے کڑس کر کہا۔
“پہلے عقل نہیں تھی”
عکس نے مزہ سے کہا۔
“اب کس نے عقل ٹھیک کی ہے؟”
عیسیٰ نے خود کو ایک اجنبی سے کمپئیر کیا۔
“اس کا نام پتا ڈیٹیلز ماما سے پوچھ لینا”
“ہونہہہہ میں اتنا ویلا ہوں؟”
عیسیٰ نے تلخی زائل کرنے کو پانی کا گلاس منہ سے لگایا۔
“ہمیں شادی ہی کرنی ہے تو اتنا سوچنا کیسا
کسی سے تم بھی کر لینا کسی سے ہم بھی کر لیں گے”
عکس نے پرسکون انداز میں شعر پڑھا اور کچن سے نکل گئی۔
عیسیٰ پیچھے خود کی کیفیت پر کڑسنے لگا تھا۔ اسے فرق کیوں پڑرہا تھا اب؟

____________

“کیا سوچا تم نے؟”
فرحین نے عیسیٰ سے پوچھا۔ وہ اس وقت عیسیٰ کے ساتھ گاڑی میں تھیں اور دونوں فیملی ڈنر پر پھپھو کے گھر جارہے تھے۔ عکس اب ان کی فیملی کا حصہ نہیں رہنے والی تھی اس لئے اسے ساتھ لے جانا ضروری نہیں تھا۔
“کس بارے میں؟”
عیسیٰ نے ڈرائیونگ کے دوران مصروف انداز میں جواب دیا۔
“افراح کی فیملی سے بات کرواؤ گے یا خود ہی سب کرو گے؟”
“کچھ بھی نہیں کرنا”
“کیا مطلب؟”
انہوں نے ناسمجھی سے پوچھا۔
“ابھی میں صرف بیس سال کا ہوں, ابھی کوئی بزنس کروں گا کرئیر بناؤں گا بعد میں شادی کروں گا”
عیسیٰ نے آرام سے جواب دیا۔
“افراح تو چوبیس سال کی ہے وہ تمہارے کرئیر بنانے کا ویٹ کرے گی؟”
“نا کرے”
عیسیٰ نے لاپرواہ ہو کر کہا۔
یہاں بھی یہ بندا نان سیریس تھا فرحین ماتھا پیٹ کر رہ گئیں۔
“تم کیا چاہتے ہو کیا کرنا چاہتے ہو کیا تمہارے ذہن میں چلتا ہے مجال ہے کبھی مجھے سمجھ آسکے”

“کب بڑی ہوں گی آپ ماما؟”
عیسیٰ نے ہنستے ہوئے پوچھا فرحین اسے گھورنے لگیں۔ پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولیں۔
“پیپر کب بنوا رہے ہو؟ وہ لوگ عکس کیلئے بہت انتظار کر رہے ہیں”
فرحین کی بات پر عیسیٰ نے گاڑی کو بریک لگائے۔ گاڑی ایک درخت کے نیچے کھڑی کر دی۔ پھر فرحین کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔
“پہلے عکس کی پہلی شادی کرواتے ہوئے آپ ڈر رہی تھیں۔ اب آپ کو ڈر نہیں لگتا دوسری شادی کے بعد اس کیساتھ کیا ہوسکتا ہے؟”
“پتر لڑکیوں کو زندگی میں کم ظرف انسان بس ایک بار ہی ملتا ہے”
فرحین کا جواب سن کر عیسیٰ کافی دیر خالی سڑک کو دیکھتا رہا۔ دونوں گاڑی میں خاموش بیٹھے رہے۔ آنے جانے والی گاڑیوں کو دیکھتے رہے۔ پھر عیسیٰ نے گاڑی اسٹارٹ کی ماما کو پھپھو کے گھر کے باہر اتارا اور کچھ بھی کہے سنے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ فرحین نے افسردگی سے اسے جاتے دیکھا۔

جاری ہے
(اشنال)عیسیٰ چپ چاپ ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹا رہا۔ فرحین اس کی بند آنکھوں کے پیچھے چھپی پریشانی بھانپ لینا چاہتی تھیں۔ دھیرے دھیرے عیسیٰ کے بالوں میں انگلیاں چلاکر وہ جیسے اس کے دماغ کے اندر بھری سوچوں کو سلا دینا چاہتی تھیں۔ کچھ بھی تھا وہ ماں تھیں اور اپنی اولاد کو بےسکون کون ماں دیکھ سکتی تھی۔
“عیسیٰ؟”
انہوں نے پکارا۔ جواب ندارد۔ انہوں نے پھر کہنا شروع کیا۔
“عیسیٰ! تم افراح کی فیملی سے میری بات کروادو۔ عکس کیلئے میں نے بات کرلی ہے۔ تم دونوں اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو جاؤ گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا”
عیسیٰ کی بند آنکھیں کھلیں۔ بےتاثر آنکھیں۔ اسے روشنیاں چبھنے لگیں تو آنکھیں پھر بند کردیں۔
“زبردستی رشتے نہیں بن سکتے, نا ہی زبردستی کسی کو خود سے محبت کروائی جاسکتی ہے۔ میری غلطی تھی مجھے لگتا تھا ایسے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ عکس کو میں نے سمجھا لیا ہے۔ تم اسے چھوڑ دو گے تو وہ شادی کرلے گی۔ اور تم بھی افراح سے شادی کرلو, یہ گھر قبرستان کی طرح لگ رہا ہے, اور ہم جیسے کوئی چلتے پھرتے مردے۔ خوشیاں دے دو ہمیں تھوڑی سی زندگی بچی ہے کوئی خوشی دے دو ہمیں”
شاید وہ کسی دیوار سے باتیں کررہی تھیں۔
آنکھیں بند کر لینے سے نیند کہاں آتی ہے؟ عیسیٰ اس وقت ذہنی ابتری کا شکار تھا۔ جب اسے ماں کی گود میں بھی سکون نہیں ملا تو وہ ان کا ہاتھ روک کر خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
گیمنگ روم پر نظر پڑتے ہی عیسیٰ کو اپنے اس بےانتہا محنت اور لگن سے بنائے گئے روم سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ اپنے کمرے میں جاکر وہ بیڈ کی پائنتی سے ٹیک لگا کر کارپٹ پر بیٹھا اور اپنا سر اس نے بیڈ پر گرا دیا۔ چھت کو گھورنے لگا۔ پھر اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگائی۔ ایک کے بعد ایک سگریٹ۔ سگریٹ کے دھوئیں میں اسے عکس کا بھیگا چہرہ نظر آنے لگا۔ عیسیٰ بےچین ہوا۔ اس نے ہاتھ سے دھواں اڑ کر وہ چہرہ غائب کیا۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔
وہ ٹیرس پر آیا۔ بارش جاچکی تھی۔ حبس ہوچکا تھا۔ کھلی فضا میں سانس لے کر اس نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ ناکام رہا۔
وہ روم میں آیا اور شاور کے بہتے پانی کے نیچے کچھ دیر کھڑا رہا۔ بھیگتا رہا۔ بھیگتا رہا۔ بیڈ پر پڑا اس کا فون بجنے لگا۔ اس نے افراح کے نام کی مخصوص رنگ ٹون لگا رکھی تھی۔ آج یہ نمبر بھی عیسیٰ کے دل کے بھاری پن کو ختم نہیں کرسکتا تھا کیونکہ آج عیسیٰ کو اس آواز کی چاہت نہیں تھی۔
شاور لیکر اس نے ڈریس چینج کیا۔ اب اس وقت وہ بوسکی کے کرتے میں آئینے کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا۔ ہئیر برش اس نے پھینکا۔ اور بیڈ پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں میں سر کو تھام لیا۔ پھر اس نے اپنا فون اٹھایا۔ پھر اپنے سارے دوستوں کو میسجز بھیجے۔ وہ دوست جنہیں وہ پچھلے کئی مہینوں سے چھوڑ کر بیٹھا تھا۔
رات کے ایک بجے وہ سب کو میسجز کررہا تھا۔ ہیلو۔ کیسے ہو. کیا کررہے ہو۔ کیا چل رہا ہے۔ سبھی کو ایک جیسے میسجز۔ اور آج تو لگتا تھا جیسے شاید سب رات چڑھتے ہی سو گئے ہیں۔ کسی نے نا دیکھا نا جواب دیا۔ اسکرین کو سکرول کرتے نیچے کہیں بہت نیچے بہت پرانے میسجز میں اسے عکس لکھا نظر آیا۔ اور یہیں اسکا چلتا ہاتھ رک گیا۔
جو دل ڈوب رہا تھا وہ یہاں بہہ گیا۔
اس نے لکھا اور لکھ بھیجا۔ نا کچھ سوچا۔ نا کچھ جانا۔ بس لکھ بھیجا۔
“عکس”
وہاں عکس رات کو اپنے لئے پانی رکھنا بھول گئی تھی۔ نیند ٹوٹی تو پیاس محسوس ہوئی۔ وہ کچن سے پانی لینے گئی۔ تو پیچھے فون روشن ہوا پھر بجھ گیا۔ پانی لیکر واپس آئی۔ اس نے پانی پیا۔ اور چادر اوڑھ کر منہ پر تکیہ رکھ کر سوگئی۔ نیند اس پر اس قدر حاوی تھی کہ وہ دروازے کو لاک لگانا بھول گئی۔
بنا کسی آواز کے دروازہ کھلا پھر بند ہوا۔ اس قدر گھپ اندھیرے میں کون سوتا ہے؟ لڑکیاں تو ڈرپوک ہوتی ہیں یہ کیسی لڑکی تھی۔ کوئی نام کی روم لائٹ کچھ بھی نہیں آن تھا۔ سیاہ گھور اندھیرا۔ اندازے سے چلتا ہوا وہ قریب آیا۔ اچانک عکس کا فون روشن ہوا۔ اس ہلکی سی روشنی میں اس نے خود کو عکس کے بیڈ کے قریب کھڑے پایا۔ عیسیٰ نے جلدی سے فون اٹھایا۔ اور لائٹ آن کی۔ عکس کسی چوری بند لاش کی طرح چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ اور تکیے کو چہرے پر رکھ کر دونوں بازوؤں سے دبوچا ہوا تھا۔ وہ اس وقت عکس کی صرف کھلی ہوئی زلفیں ہی دیکھ سکتا تھا۔ اس نے فون کو الٹا کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔ جس کی روشنی پھیل کر کمرے کو ہلکا روشن کر گئی تھی۔
وہ کچھ دیر یونہی کھڑے اسے دیکھتا رہا۔ وہ کروٹ کے بل لیٹی تھی۔ عیسیٰ جس دروازے سے اندر آیا تھا اس نے اس بند دروازے کو دیکھا۔ وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ وہ تھک گیا تھا۔ وہ بیڈ پر عکس کے قریب رخ موڑ کر بیٹھ گیا اور اپنے ماتھے کو مسلنے لگا۔ کس قدر مشکل میں تھا وہ اس وقت۔ ہار گیا تھا مگر ہارا ہوا دکھنا نہیں چاہ رہا تھا۔ اس نے پھر رخ موڑ کر عکس کو دیکھا اور پکارا۔
“عکس”
اور عکس نے ابھی حال ہی میں تو سیکھا تھا کہ جاگتے رہنے سے کوئی نہیں ملتا۔ دو دن سے وہ گہری نیند لینے لگی تھی بنا کسی دوائیوں کے سہارے کے۔ اس نے جان لیا تھا کہ غم میں پڑے رہنے سے غم ختم نہیں ہو جاتے۔
عیسیٰ پکار رہا تھا اور وہ سن نہیں رہی تھی۔ اچانک عیسیٰ نے اس کا بازو کھینچ کر اسے سیدھا کیا۔ اس آفت پر عکس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔ عیسیٰ اس کا بازو پکڑے اس کے بےحد نزدیک اس پر جھکا ہوا تھا۔ عکس نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔
“میسجز کئے تھے تمہیں۔ دیکھے نہیں تم نے”
عیسیٰ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہا تھا۔ عکس نے اٹھنے کی کوشش کی۔ عیسیٰ نے اسکا بازو نہیں چھوڑا۔ وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی۔ عیسیٰ اس کے بلکل قریب تھا۔
“کچھ پوچھ رہا ہوں”
“سورہی تھی میں”
عکس نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ اس کا دل اس قربت پر دھڑک رہا تھا۔ مگر وہ جانتی تھی یہ کوئی رومانوی ملاقات نہیں تھی۔ یہ بھی پچھلی ملاقاتوں کی طرح کوئی سزا ہی ثابت ہونے والی تھی۔ عیسیٰ کے یوں خاموش اسے دیکھنے پر عکس نے اپنے بازو کو دیکھا جو عیسیٰ کی گرفت سے اب درد کر رہا تھا۔ عیسیٰ نے اس کا بازو چھوڑ کر عکس کی گود میں پڑے چھوٹے سے کشن پر سر رکھ دیا۔ عکس کی جان ہوا ہوئی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر اپنی چیخ کو روکا۔
“میں تمہیں چھوڑوں گا تو تم شادی کرلو گی”
عیسیٰ بند آنکھوں سے اس سے پوچھ نہیں رہا تھا اسے جیسے بتا رہا تھا۔ وہ پہاڑی لڑکی جانوروں کیڑے مکوڑوں سے نہیں ڈرتی تھی۔ وہ عیسیٰ کی اچانک سے کچھ بھی کر گزرنے والی حرکتوں سے ڈرتی تھی۔ ابھی بھی وہ اس ڈر سے کانپ رہی تھی۔
“بہت اکیلا فیل کر رہا ہوں میں, نا میرے پاس تم ہو نا دوست ہیں نا سکون ہے”
عیسیٰ نے بند آنکھوں سے شکست تسلیم کی۔ عکس نے حیران ہو کر اسکی بند آنکھوں کو دیکھا۔ وہ پھر سے بولنے لگا۔
“آج سب دوستوں کو میسجز کئے ہیں میں نے۔ کسی نے ریپلائے نہیں دیا۔ آج کوئی ہے ہی نہیں۔ آج میں اکیلا ہوں”
عکس نے غور سے اس کے چہرے کو جھک کر دیکھا کیا وہ سچ میں تنہا فیل کر رہا تھا یا صرف وقتی فیلنگز تھیں۔
“افراح ہے نا تمہارے پاس”
عکس کے منہ سے پھر شکوہ کی صورت افراح کا نام نکلا۔
“نہیں چاہئیے مجھے افراح”
عیسیٰ نے تلخ لہجے میں کہا اور آنکھیں کھول دیں۔ عکس جو اس پر جھک کر اسے غور سے دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ایکدم سے پیچھے کو ہوئی۔ عیسیٰ نے سر کشن سے اٹھایا اور رخ موڑ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“آئی ایم سوری”
عکس پر صدمے کے صدمے گزر رہے تھے۔
“مجھے معلوم ہے یہ سوری تمہاری اتنے مہینوں کی اذیت کو کم نہیں کرسکتا مگر میرے پاس بس یہی ہے”
بھاری آواز میں اس شخص کے منہ سے بنا کوئی احساس پیدا کئے اتنا کہہ دینا ہی غنیمت تھا۔
“کیوں آئے ہو؟”
عکس نے پوچھ ہی لیا۔
“سوری کرنے”
سیدھا سیدھا بولا گیا۔
“کوئی لڑائی ہوئی ہوگی اس سے ۔ بات نہیں ہورہی ہوگی اس لئے آج اکیلا فیل کیا۔ سوری کرنے آئے۔ کل افراح آئے گی پھر وہی سخت دل بن جاؤ گے”
عکس اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔
“میں اسے چھوڑ دوں تو تم شادی کرلو گی؟”
اس نے اپنا رخ عکس کی طرف موڑ کر پوچھا۔
“تم مجھے چھوڑ گے تو میں شادی کرلوں گی”
عکس نے اس کی بات کا مختلف جواب دیا۔ وہ بھی پر اعتماد ہو کر۔ عیسیٰ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ اسے بلا خوف دیکھ رہی تھی۔ جن آنکھوں میں اسے کھو دینے کا خوف رہتا تھا آج وہ آنکھیں بلکل صاف تھیں۔
“ٹھیک ہے چھوڑ دیتا ہوں”
عیسیٰ کو اپنی آواز پرائی محسوس ہوئی۔
“دوبارہ اس کمرے میں آنے سے پہلے سوچنا بھی اور اجازت بھی لینا”
عکس کے سخت لہجے پر عیسیٰ نے اسے بغور دیکھا۔
عیسیٰ اپنی جگہ سے اٹھا اور بنا پلٹے اس کے کمرے سے نکل گیا۔ اس کی خوشبو عکس کے کمرے کی دیواروں سے لپٹ گئی تھی۔ عکس نے کشن اٹھا کر گھٹنوں پر رکھا پھر اس پر اپنا چہرہ رکھا۔ پھر ہلکی ہلکی آواز کیساتھ رونے لگی۔
_______________

صبح موسم صاف تھا۔ اور عکس کا دل بھی دھل گیا تھا۔ اس نے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ وہ جانتی تھی رات جو ہوا تھا وہ محض رات گئی بات گئی تھا۔ عیسیٰ کی نیچر سے واقف تھی وہ زندگی میں اس نے بس ایک شخص پر ہی تو غور کیا تھا۔ اور پھر ہوا بھی وہی جیسا اس نے سوچا تھا۔ عیسیٰ اب شام کے بجائے بارہ بجے اٹھنے لگا تھا۔ وہ کچن میں آیا۔ تو عکس کو سامنے پایا۔ عیسیٰ نے کندھے کے سہارے سے فون کان سے لگایا اور پانی کا گلاس بھر کر پینے لگا۔
“یار افی مجھے صبح جلدی اٹھانا ہے تو بریک فاسٹ بنانا سیکھ لو بس۔ میں صبح صبح ہوٹلوں سے بریک فاسٹ نہیں لا سکتا”
اس نے فون پر افراح سے کہا تھا اور سنایا عکس کو تھا۔ وہ جانتی تھی یہی ہونا تھا۔ رات والی روح نے صبح غائب ہو جانا تھا۔ عکس جی بھر کر بدمزہ ہوئی اور کچن سے نکلنے لگی تھی کہ اسے پکارا گیا۔
“بریک فاسٹ بنا دو”
“فون والی سے کہو بریک فاسٹ بنا کر دے”
عکس کے جیلس ہونے پر عیسیٰ نے اپنے قہقہے کو روکا۔
“وہ جب آئے گی تو بنا دے گی۔ ابھی تم بنا دو, ابھی تمہارا فرض ہے”
“میرے فرض یاد ہیں اور اپنے فرائض بھول گئے ہو؟”
عکس کے منہ سے غصے میں پھسلا اور عیسیٰ نے شرارت میں پکڑ لیا۔
“کونسا حق چاہئیے بتاؤ”
عیسیٰ عکس کے نزدیک آیا اور اس نے معنی خیزی سے کہا۔
“اپنے حقوق و فرائض کا معاملہ اب افراح سے طے کرنا۔ مجھے جتنی جلدی چھوڑ دو گے اتنی جلدی تمہیں تمہارے بریک فاسٹ ملیں گے”
عکس نے خود کو کمپوز کیا اور پر اعتمادی سے جواب دیا۔
عیسیٰ کا فون بند ہوچکا تھا۔ عکس کی بات پر اس کا موڈ بگڑنے لگا۔ وہ دو قدم دور ہٹ گیا۔
“یہ شادی تم پہلے بھی کر سکتی تھی۔ جس کیلئے ابھی اتاولی ہو رہی ہو”
عیسیٰ نے کڑس کر کہا۔
“پہلے عقل نہیں تھی”
عکس نے مزہ سے کہا۔
“اب کس نے عقل ٹھیک کی ہے؟”
عیسیٰ نے خود کو ایک اجنبی سے کمپئیر کیا۔
“اس کا نام پتا ڈیٹیلز ماما سے پوچھ لینا”
“ہونہہہہ میں اتنا ویلا ہوں؟”
عیسیٰ نے تلخی زائل کرنے کو پانی کا گلاس منہ سے لگایا۔
“ہمیں شادی ہی کرنی ہے تو اتنا سوچنا کیسا
کسی سے تم بھی کر لینا کسی سے ہم بھی کر لیں گے”
عکس نے پرسکون انداز میں شعر پڑھا اور کچن سے نکل گئی۔
عیسیٰ پیچھے خود کی کیفیت پر کڑسنے لگا تھا۔ اسے فرق کیوں پڑرہا تھا اب؟

____________

“کیا سوچا تم نے؟”
فرحین نے عیسیٰ سے پوچھا۔ وہ اس وقت عیسیٰ کے ساتھ گاڑی میں تھیں اور دونوں فیملی ڈنر پر پھپھو کے گھر جارہے تھے۔ عکس اب ان کی فیملی کا حصہ نہیں رہنے والی تھی اس لئے اسے ساتھ لے جانا ضروری نہیں تھا۔
“کس بارے میں؟”
عیسیٰ نے ڈرائیونگ کے دوران مصروف انداز میں جواب دیا۔
“افراح کی فیملی سے بات کرواؤ گے یا خود ہی سب کرو گے؟”
“کچھ بھی نہیں کرنا”
“کیا مطلب؟”
انہوں نے ناسمجھی سے پوچھا۔
“ابھی میں صرف بیس سال کا ہوں, ابھی کوئی بزنس کروں گا کرئیر بناؤں گا بعد میں شادی کروں گا”
عیسیٰ نے آرام سے جواب دیا۔
“افراح تو چوبیس سال کی ہے وہ تمہارے کرئیر بنانے کا ویٹ کرے گی؟”
“نا کرے”
عیسیٰ نے لاپرواہ ہو کر کہا۔
یہاں بھی یہ بندا نان سیریس تھا فرحین ماتھا پیٹ کر رہ گئیں۔
“تم کیا چاہتے ہو کیا کرنا چاہتے ہو کیا تمہارے ذہن میں چلتا ہے مجال ہے کبھی مجھے سمجھ آسکے”

“کب بڑی ہوں گی آپ ماما؟”
عیسیٰ نے ہنستے ہوئے پوچھا فرحین اسے گھورنے لگیں۔ پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولیں۔
“پیپر کب بنوا رہے ہو؟ وہ لوگ عکس کیلئے بہت انتظار کر رہے ہیں”
فرحین کی بات پر عیسیٰ نے گاڑی کو بریک لگائے۔ گاڑی ایک درخت کے نیچے کھڑی کر دی۔ پھر فرحین کو دیکھ کر پوچھنے لگا۔
“پہلے عکس کی پہلی شادی کرواتے ہوئے آپ ڈر رہی تھیں۔ اب آپ کو ڈر نہیں لگتا دوسری شادی کے بعد اس کیساتھ کیا ہوسکتا ہے؟”
“پتر لڑکیوں کو زندگی میں کم ظرف انسان بس ایک بار ہی ملتا ہے”
فرحین کا جواب سن کر عیسیٰ کافی دیر خالی سڑک کو دیکھتا رہا۔ دونوں گاڑی میں خاموش بیٹھے رہے۔ آنے جانے والی گاڑیوں کو دیکھتے رہے۔ پھر عیسیٰ نے گاڑی اسٹارٹ کی ماما کو پھپھو کے گھر کے باہر اتارا اور کچھ بھی کہے سنے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ فرحین نے افسردگی سے اسے جاتے دیکھا۔

… جاری ہے
(اشنال)

Your thoughts matter – share them below!

Scroll to Top