Delusion – Episode 14

افراح کی فیملی میں تمام افراد ہی عیسیٰ سے واقف تھے۔ ماما بابا بھائی سسٹرز۔ سب سے عیسیٰ کی اچھی دعا سلام تھی۔ فون کے ذریعے ہی یہ رابطہ قائم ہوا تھا۔ گیمنگ کے دوران بھی افراح کے پیچھے اکثر اسکی فیملی کا کوئی نا کوئی فرد عیسیٰ سے گفتگو کرتا رہتا تھا۔ وہ آزاد گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جہاں لڑکیوں کو نہ تو دوستی میں روک ٹوک تھی اور نہ ہی شادی کیلئے ان پر زبردستی کی جاتی تھی۔ عیسیٰ اور افراح کے تعلق پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس وقت عیسیٰ افراح کے بڑے بھائی کے ساتھ بیٹھا پاکستان کے حالات ڈسکس کررہا تھا۔ افراح نے اپنے فرینڈز سے فارغ ہوکر انہیں جوائن کیا۔ وہ بےتکلفی سے عیسیٰ کے برابر آکر بیٹھی۔
“بڑا ہی شور شرابہ کرتے ہیں تمہارے دوست۔ اوپر ماما کو بڑی مشکل سے بابا نے کنٹرول کیا ہے۔ وہ کہہ رہی تھیں آئندہ کوئی پارٹی گھر پر نہیں منانے دوں گی”
افراح کے بھائی نے اسے خبردار کیا۔
“واٹ ایور برو! یہ والی برتھ ڈے پارٹی میری سب سے بیسٹ رہی ہے”
افراح نے ہنس کر کہا۔
“تمہارا یہ دوست دوسروں سے کچھ مختلف ہے, خاموش خاموش ہے”
بھائی نے کہا تو افراح ہنس پڑی۔
“یہ صرف اسکرین پر ہی طرم خان بنتا ہے, ویسے تو اس سے کسی کی آنکھوں میں بھی نہیں دیکھا جاتا۔ دیکھیں ناں ابھی بھی سر جھکا کر بیٹھا ہوا ہے”
عیسیٰ کو افراح کے منہ سے اپنے لئے یہ جملے خود کے اوپر مزاح کی طرح لگے۔
دونوں بہن بھائی ہنس رہے تھے۔
“میں نے تمہارے لائیوز دیکھے ہیں, وہ والا عیسیٰ گھر پر چھوڑ کر آئے ہو؟”
بھائی نے مذاق میں ہنس کر کہا۔
عیسیٰ کو اپنا آپ معمولی سا لگنے لگا تھا۔
“جب تھک جاتا ہوں تب لائیو نہیں آتا, اس لئے وہ سائیڈ میری کوئی دیکھ نہیں سکتا”
میں جوکر تو نہیں ہوں جو ہر وقت ہنستا رہوں۔ عیسیٰ نے دل ہی دل میں سوچا۔
“تم تھک گئے ہو تو ریسٹ کرلو”
بھائی نے کہا۔
“ابھی نہیں, ابھی گفٹس کی ان باکسنگ کرنی ہے, ویٹ کرو ابھی”
افراح نے فوراً کہا۔
عیسیٰ بھاگ جانا چاہتا تھا یہاں سے۔
“تمہارے گفٹس ہیں تم آرام سے کرلینا مجھے ہوٹل جانا ہے صبح مجھے جلدی نکلنا ہے, کام ہے میرا”
“تم کہہ رہے تھے تم یہاں میرے لئے آئے ہو؟”
اور یہاں وہ پھنس گیا تھا۔
“تمہارے لئے ہی آیا ہوں لیکن ابھی مجھے کال آئی ہے (عیسیٰ نے فیمس انفلوئسر کا نام لیا) اس نے انوائیٹ کیا ہے مجھے”
اس دوران بھائی اپنے روم میں جاچکے تھے۔
“ہممم اوکے جاؤ”
افراح کی ناراضگی بھانپ گیا تھا وہ۔ عجیب دوراہے پر کھڑا تھا وہ۔ جس چیز کیلئے سب کچھ چھوڑ کر آیا تھا سارے رشتے چھوڑ کر آیا تھا اسی سے ہی بھاگ جانا چاہتا تھا۔
“چلو تمہارے گفٹس کی ان باکسنگ کرتے ہیں”
عیسیٰ افراح کیلئے اپنے دل کو بھی مار رہا تھا۔ اور محبت دل کو مار کر محبوب کو راضی کرنے کا ہی نام ہے۔
لیکن عیسیٰ کو اب افراح سے محبت والی وائبز نہیں آرہی تھیں۔ وہ بس کام کو چلا رہا تھا۔ شاید اس کے پاس اب کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اس رشتے کو نبھانے کے۔
“اور تمہاری وہ میٹنگ؟”
افراح نے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے پوچھا۔
“اس کے ساتھ ڈنر رکھ لوں گا, وہ واقف ہے میں صبح اٹھنے والا بندہ نہیں ہوں”
عیسیٰ نے اسے بہرحال راضی کرلیا تھا۔ اسے خوش کرنے کے چکر میں وہ خود بےچین ہوگیا تھا۔ بس ظاہر نہیں کررہا تھا۔
دونوں نے گفٹس ان باکسنگ کی۔ امیروں کی محفل تھی۔ امیروں کے گفٹس تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ عیسیٰ غریب تھا۔ مگر یہاں وہ وہ برینڈز تھے جن کے نام عیسیٰ نے پہلی بار سنے تھے۔ اور سوچنے لگا تھا۔ میں کس کیٹیگری کا امیر سمجھتا ہوں خود کو؟ اسے اپنے امیر ہونے پر شک ہونے لگا تھا۔
صبح کے پانچ بجے وہ افراح سے فارغ ہوا اور اپنے ہوٹل کے روم میں آکر اسی حلیے میں بیڈ پر گرا اور سوگیا۔
افراح نے بہت چاہا کہ وہ اس کے گھر میں ہی اسٹے کرلے, سونا ہی تو تھا۔ مگر عیسیٰ کا دل نہیں مانا۔ وہ تو پہلے ہی فرار چاہتا تھا۔ بس افراح کو خوش کرنے کے چکر میں تین چار گھنٹے اپنے ضائع کرگیا تھا۔
_____________________

“یہ سب ایسے کب تک چلے گا ؟”
محمد اصغر نے فرحین سے عکس اور عیسیٰ کے درمیان دوریاں سے متعلق استفسار کیا۔
“جب تک اسے عقل نہیں آجاتی”
فرحین نے جواب دیا۔
“اگر اسے ساری زندگی عقل نہ آئی تو عکس ایسے ہی زندگی گزار دے گی؟ خوشیاں حرام کرلے گی خود پر؟”
“وہ کسی اور کے ساتھ خوش ہونا بھی نہیں چاہتی, دونوں ہی ضدی ہیں میں کیا کروں, دونوں نہیں سمجھتے, ایک کو عکس نہیں چاہئیے کسی حال میں نہیں چاہئیے دوسرے کو عیسیٰ کے علاؤہ کوئی خوشی, خوشی نہیں لگتی”
فرحین خود بھی پریشان تھیں۔
“میاں بیوی تین دن تک بات نہ کریں تو اللہ سخت ناراض ہوتا ہے اور یہاں؟ یہاں نکاح کرکے دونوں قطع تعلق کرکے بیٹھے ہیں. یہ عذاب ہم پر آئے گا, ہم ان کے بڑے ہیں, نکاح ہماری مرضی اور ہمارے مدعیت میں ہوا ہے۔ ہماری زمہ داری ہے انہیں احساس دلائیں, نہیں ساتھ رہ سکتے دونوں تو کوئی حل سوچو, یہ گناہ سر لے کر نہیں مرنا چاہتا میں”
محمد اصغر کی بات پر فرحین نے غور کرنے کی کوشش کی۔”
“میں تو چاہتا ہوں, دل سے چاہتا ہوں عیسیٰ اور عکس کے بچے میں اس گھر میں بھاگتے دوڑتے دیکھوں مگر یہ بچے ان بچوں نے پتا نہیں زندگی کو کیا بنا دیا ہے۔ ایک ہی اولاد ہے اس سے بھی کوئی خوشی نہیں ملتی”
“آپ خود کو نا پریشان کریں میں ڈھونڈتی ہوں کوئی حل”
انہیں تسلی دے کر وہ خود ساری رات جاگتی رہیں۔ کوئی حل نظر نہیں آرہا تھا۔ مگر کوئی فیصلہ تو کرنا تھا زندگی ایسے نہیں چل سکتی تھی۔ تقریباً ایک سال ہونے کو آگیا تھا۔ کچھ بھی بدلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
____________

فجر پڑھ کر وہ سوجاتی تھی اگر کبھی صبح وہ سو نہ سکے تو سر درد شروع ہو جاتا تھا اور عکس کا سارا دن پھر اسی سر درد میں بیکار گزرتا تھا۔ نماز اور قرآن پڑھنے کے بعد اس نے موبائل اٹھایا۔ سرچ بار میں عیسیٰ اور افراح کا نام سر فہرست تھا۔
کچھ لوگ اپنے لئے جہنم خود خریدتے ہیں۔ عکس بھی خود کو اسی جہنم میں جھلسانے کیلئے یہ دو نام سرچ کرتی رہتی تھی۔ جانتی بھی تھی کہ یہاں تکلیف کے سوا کچھ نہیں ملنا۔
تصویریں سامنے ائیں۔ افراح کو رنگ پہناتا ہوا ملک عیسیٰ اعوان۔ افراح کا رخ کیمرے کے سامنے تھا لہراتے ہوئے بال۔ ماڈرن سی فراک۔ عیسیٰ کا رخ کیمرے کی دوسری جانب تھا۔ سیاہ رنگ کے جینز شرٹ میں عیسیٰ کی پشت دکھائی دے رہی تھی۔ پھر دو چار ویڈیوز تھیں۔ دوست تھے۔ افراح کے ساتھ جڑ کر کھڑا عیسیٰ۔ برتھ کیک۔ رومانٹک میوزک۔ گفٹس۔ بہت کچھ تھا آج کے دن عکس کے رونے کا بہت سامان تھا۔ کس کس چیز پر رونا تھا اسے؟
ایسا تو ہونا ہی تھا۔ اس کے شوہر نے نکاح سے پہلے بتایا تھا وہ دوسری شادی کرے گا۔ پھر انگوٹھی پہناتے دیکھ کر رونا کس لئے تھا؟
اگر وہ افراح کا ہاتھ تھام کر کھڑا تھا تو اس نے نکاح سے پہلے بتایا تھا کہ وہ عکس کو حق نہیں دے گا۔ پھر عکس کی جان ہوا کیوں ہورہی تھی؟
اس نے افراح کے حلیے پر غور کیا۔ وہ لڑکی پیاری تھی۔ لیکن بری تو عکس بھی نہیں تھی۔ وہ موازنہ کرنے لگی۔ اور خود ہی اس نتیجے پر پہنچی کہ افراح اور عیسیٰ کا کپل کچھ بہت زیادہ مائنڈ بلوئنگ نہیں تھا۔ یہ جیلسی تھی؟ افراح کیلئے ناپسندیدگی تھی؟ لیکن ماما کی دوست کو جب فرحین نے افراح کی پکچر دکھائی تھی تو انہوں نے بھی کہا تھا۔ فرحین مزہ نہیں آرہا۔
فرحین اپنی ایک دوست سے باتیں شئیر کرتی تھیں۔ اس دن وہ دونوں ڈسکس کر رہی تھیں تو عکس نے سن لیا تھا۔
عکس نے ان دونوں کے آپس میں پیوست ہاتھوں کو دیکھا پھر اپنی خالی ہتھیلیوں کو گھورنے لگی۔
آنسو ٹپ ٹپ ہتھیلی کی لکیروں پر گر کر پھیلنے لگے۔ اس شائستہ لمس کو دیکھ کر اسے یاد آیا کس قدر سختی اور بےرحمی سے عیسیٰ نے عکس کا بازو کھینچ کر اسے کھڑا کیا تھا۔ عکس کیلئے عیسیٰ کے پاس نفرت اور شدید نفرت کے سوا کچھ نہیں تھا۔
___________

تین دن کے بعد وہ پاکستان پہنچا۔ دوپہر کے دو بج رہے تھے سخت گرمی تھی لاہور میں۔ ائیر پورٹ سے گاڑی تک آتے وہ پسینے سے شرابور ہوچکا تھا۔ دوست اس کے پھر بھی ساتھ نبھانے والے تھے۔ ایک اشارے پر دوڑے آتے تھے۔ یہ اور بات تھی عیسیٰ انہیں کال بہت کم کرتا تھا۔ گاڑی میں سفر کے دوران ہی گرمی کا زور ٹوٹا۔ اور بادلوں نے برسنا شروع کردیا۔ اچانک ہی دھوپ ہٹ کر بادل چھا گئے تھے۔ چھم چھم برستی بارش میں وہ بھیگتی گاڑی لیکر گھر پہنچا۔ اس کا دوست اسے گھر سے باہر چھوڑ کر گاڑی لے گیا تھا۔ ایک سوٹ کیس کے علاوہ عیسیٰ کے پاس فالتو سامان کوئی نہیں تھا۔ اس نے گھر کے گیٹ کو ادھ کھلا دیکھا۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے بارش سے بری طرح وہ بھیگ چکا تھا۔ بارش ایسی تھی دھوئیں جیسی بارش جس میں حد نگاہ صفر تک چلی گئی تھی۔ بارش کے اس دھوئیں میں اسے ایک شبیہہ نظر آئی۔ گول گول گھومتی ۔ دونوں بازو پھیلائے۔ لمبے بھیگے بالوں کی گیلی چٹیا۔ سفید پیروں تک آتی فراک اس وقت عکس کے خدو خال نمایاں کررہی تھی۔ جو صد شکر بارش کے دھوئیں میں۔ واضح نہیں دکھائی دے رہے تھے۔ ننگے پیر بارش کے پانی میں ڈبکیاں لگا رہے تھے۔ آنکھیں بند کئے وہ بس بارش کو محسوس کررہی تھی۔
عیسیٰ اسے دیکھنے میں اس قدر محو تھا کہ اسے اپنے بھیگنے کا ہوش نہیں رہا۔ بارش کسی کو اتنا حسین بنا سکتی تھی؟ اس نے سوچا۔ عیسیٰ کے بال ماتھے پر آگئے تھے۔ جن سے پانی برس رہا تھا۔ آنکھوں کی پلکوں سے بارش کا جیسے کوئی نالا گر رہا تھا۔ وہ آنکھیں پونچھتا پھر اسے دیکھتا۔ پھر آنکھوں سے پانی صاف کرتا پھر اسے دیکھتا۔ اسے دیکھنے میں جو راحت عیسیٰ کو مل رہی تھی اس نے پچھلے تین دن کی بےچینی کو زائل کر دیا تھا۔
عکس نے کسی نظروں کی تپش کو محسوس کر کے آنکھیں کھولیں۔ آنکھیں کھولتے ہی وہ پتھر کی ہوگئی۔
عیسیٰ نے ایک لمحے کے اندر پینترا بدلہ۔
جو آنکھیں اسے محویت سے دیکھ رہی تھیں اب وہ اسے گھور کر دیکھنے لگی تھیں۔ غصہ عیسیٰ کے بھیگے ہوئے چہرے پر واضح دکھائی دے رہا تھا۔ چلو جی ایک اور ڈانٹ ایک اور سزا کیلئے تیار ہوجا عکس۔ عکس نے دل کو سرزنش کی۔ اسے بھی ابھی آنا تھا؟
“وہاں کیوں کھڑی ہو, یہاں آؤ دروازے کے سامنے کھڑی ہوجاؤ تاکہ آنے جانے والے بھی اس بے ہودگی کا لطف لے سکیں”
وللہ جب بھی بولتا تھا آگ ہی برستا تھا۔ عکس نے سوچا۔ اب اسے احساس ہو رہا تھا بارش نے اس کو بے ہودہ بنا دیا تھا۔ جتنا وہ ڈھانپ لیتی اب فائدہ نہیں تھا۔ وہ ہنوز بھیگتی رہی۔
عیسیٰ اس کی ہٹ دھرمی پر آگ بگولہ ہوا۔ اس کے قریب آیا پھر بازو سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا کھلے دروازے سے روڈ پر لے جانے لگا۔
“عیسیٰ”
عکس چلائی۔
اپنے نام کی بازگشت اسے بہت پیچھے لے گئی۔ کبھی اسے اس آواز سے محبت ہوا کرتی تھی۔ عکس کے منہ سے بار بار اپنا نام سن کر اسے راحت ملا کرتی تھی۔ سب کچھ عیسیٰ کو یاد آیا۔ وہ بارش میں پگھلنے لگا۔ دونوں دروازے کے عین وسط میں کھڑے تھے۔ عکس کا بازو عیسیٰ کے مضبوط ہاتھ میں تھا۔
“چھوڑو مجھے”
عکس نے چلا کر کر کہا۔ اتنی ہمت اس لڑکی کے اندر کیسے آگئی تھی؟ عیسیٰ کچھ دیر اسے یونہی دیکھتا رہا۔ پھر اسے بازو سے گھسیٹ کر دروازے سے تھوڑا دور کیا۔ اور دروازہ بند کرکے عکس کا بازو بھی چھوڑ دیا۔
عکس کا لال بھبھوکا چہرہ اسے اور پیچھے لے گیا۔ وہ ایسے ہی عیسیٰ کی حرکتوں پر غصہ ہو جایا کرتی تھی۔
عکس اسے وہیں چھوڑ کر گھر کے اندر چلی گئی۔ اب عیسیٰ اور عیسیٰ کا بیگ بارش میں بھیگ رہے تھے۔ وہ لان میں رکھی چئیر پر بیٹھ کر بارش میں بھیگتا رہا۔ یہ بارش اسے ماضی میں لے جانے لگی۔ وہ ماضی کو سوچنے لگا۔
مری کے پہاڑوں پر جب بارش برستی تھی تو عکس کو فلو ہو جاتا تھا۔ عکس کی آواز بدل جاتی تھی۔ اور زیادہ پیاری ہو جاتی تھی۔ عکس کی ناک سرخ رہتی تھی۔ اور گال بھی ٹماٹر بن جاتے تھے۔ عیسیٰ اسے چھیڑا کرتا تھا اور گنگنایا کرتا تھا۔ آہا ٹماٹر بڑے مزیدار واہ ٹماٹر بڑے مزیدار۔ عکس اپنے ٹماٹر جیسے سرخ گالوں پر کالا ماسک چڑھا کر پھر ویڈیو کال پر آتی تھی۔ یادیں خوبصورت ہوتی ہیں۔ اس نے بارش میں سوچا۔ فرحین ہاسپٹل سے لوٹیں تو اسے یوں بھیگتا دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔ وہ چپ رہا۔ اداس رہا۔ وہ اسے ہاتھ پکڑ کر بارش سے بچا کر لائیں۔ جیسے کوئی چھوٹے بچے کو بھیگنے سے بچاتا ہے۔
…جاری ہے
(اشنال)

Your thoughts matter – share them below!

Scroll to Top