Delusion – Episode 13

کل صبح آرٹ ایگزیبیشن تھا۔ جہاں عکس کی پینٹنگز بھی رکھی جانی تھی۔ رات نو بجے فرحین عکس کے روم میں داخل ہوکر پوچھتی ہیں۔
“عکس ساری تیاری مکمل ہے ناں؟ سارا ورک فینیش کرلیا ہے یا کچھ باقی ہے؟”
عکس سر جھکائے بیٹھی رہتی ہے۔ وہ پھر پوچھتی ہیں۔
“عکس کچھ پوچھ رہی ہوں”
وہ اپنی جگہ سے اٹھتی ہے۔ اور اپنا سارا ورک لاکر فرحین کے سامنے رکھتی ہے۔ ایک کے بعد ایک پینٹنگ بےدردی سے کالے برش پھیر کر خراب کردی گئی تھی۔
“یہ سب کس نے کیا؟”
فرحین کو صدمے نے آ گھیرا۔
“ماما عیسیٰ نے میری بنائی ہر پینٹگ کو خراب کردیا”
“عیسیٰ نے؟ وہ تمہارے روم میں روز آتا ہے؟”
ایک نیا انکشاف۔
“ہممم مجھے نہیں معلوم وہ کس وقت میرے کمرے میں آتا ہے مگر وہ لکھ کر جاتا ہے کہ اسے کتنی نفرت ہے مجھ سے”
عکس نے فرحین کو ساری پینٹگز دکھائیں جن کے نیچے کارنر پر ملک عیسیٰ اعوان کے سگنیچرز کے ساتھ ہر صفحے پر ایک نئی لائن لکھی ہوئی تھی۔ جن کے مختلف تلخ عنوان عکس کی روح کو زخمی کر دیتے تھے۔ فرحین کے دل میں دکھ کی ایک لہر اٹھی تھی۔ بس وہی جانتی تھیں انہوں نے کس مشکل سے عکس کو دوبارہ اس زندگی کی طرف لایا تھا۔
“اب کیا ہوگا صبح کیا لے کر جائیں گے”
انہوں نے جیسے خود سے سوال کیا۔
“میں نے کہا تھا آپ سے ابھی میرا وقت اچھا نہیں ہے۔ کاغذوں میں رنگ بھرنے سے میری زندگی میں رنگ نہیں آسکتے”
عکس کی آواز میں نمی تھی۔
فرحین بغیر کچھ کہے اس کے کمرے سے نکلیں۔ ان کا رخ اوپر والے پورشن کی جانب تھا۔ گیمنگ روم کا دروازہ کھلا تھا اور اسکرین اور ویڈیو گیمز کا ایک شور وہاں اٹھ رہا تھا۔ عیسیٰ کا رخ اسکرین کی جانب تھا۔ فرحین نے اسے کالر سے گھسیٹ کر کھڑا کیا۔ پھر ایک زور دار تھپڑ عیسیٰ کے گال پر چھپ گیا۔ صدمے کی کیفیت میں عیسیٰ کچھ بول نہیں سکا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
“لعنت ہے میری تربیت پر۔ اتنی گھٹیا تربیت میری؟”
ایک ایک لفظ اذیت کی انتہا میں ڈوب کر بولا گیا تھا۔
“آپ نے مجھے تھپڑ مارا؟”
عیسیٰ کے منہ سے بمشکل نکلا۔
“یہ تھپڑ اگر تمہیں پہلے پڑ جاتے تو تم ہمارے سروں پر چڑھ کر نا ناچ رہے ہوتے”
“اس لڑکی کی وجہ سے آپ نے مجھے تھپڑ مارا”
“تم نے اس کی تین ہفتوں کی محنت خراب کردی”
“اور جو اس نے میری زندگی خراب کردی ہے اس کا کیا؟ ہاں؟”
دوبدو مقابلہ کررہا تھا وہ۔
“زندگی تم نے اس کی خراب کی ہوئی ہے۔ وہ آگے بڑھتی ہے تم اسے آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ بولتی تھی تب بری لگتی تھی۔ اب خاموش رہتی ہے تب بھی بری لگتی ہے۔ تمہیں آخر مسئلہ کیا ہے چاہتے کیا ہو تم؟”
فرحین پھٹ پڑی تھیں آج۔
“اس کی وجہ سے افراح مجھ سے ناراض ہے۔ نا وہ میری زندگی میں ہوتی نا مجھے اس کے نام کے طعنے سننے پڑتے”
عیسیٰ نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔
“اچھا تو تم اپنی افراح باجی کو سمجھانے میں جب ناکام ہوئے ہو تو تم عکس کی زندگی اجیرن کرنے آگئے ہو؟”
آج فرحین کی آواز اس گھر کے در و دیوار ان کر سہم گئے تھے۔
“جب میں سکون میں نہیں ہوں تو وہ کیوں سکون میں رہے؟”
عیسیٰ کی بات پر فرحین کا دل کیا ایک اور تھپڑ اسے جڑ دے۔
“کیوں پتر اب افراح کے پاس سکون نہیں ملتا؟”
“ماما بار بار افراح کو بیچ میں نا لائیں۔ میں پینٹگز خراب کرسکتا ہوں نا جب تو اور بھی بہت کچھ کرسکتا ہوں”
دھمکی دینے کے علاؤہ کوئی کام نہیں کرسکتے کمزور لوگ یقیناً۔
“تو پتر کر۔ دل کھول کر کر۔ اس بار تیرا مقابلہ میں کروں گی اور پتر عکس کمزور ہے تیری ماں کمزور نہیں ہے۔ تو نے صرف لاڈ دیکھا ہے میرا”
“آپ اس لڑکی کیلئے مجھ سے دشمنی کررہی ہیں”
عیسیٰ خود کو مظلوم سمجھنے لگا تھا۔
“جب پتر تو دو دن میں بننے والی گرل فرینڈ کیلئے سارے رشتے بھول سکتا ہے ناں۔ تو عکس تو پھر میرے ابا کے جگر کا ٹکڑا ہے”
فرحین کے گلے میں انسوؤں کا گولا سا بن گیا تھا مگر وہ رو کر کمزور نہیں بننا چاہتی تھیں۔
“ابا کے جگر کا ٹکڑا۔ اپنی اولاد سے زیادہ عزیز ہوگیا ہے”
عیسیٰ نے دکھ سے کہا۔ اس کے دل میں عکس کیلئے نفرت مزید بڑھ گئی تھی۔
“جب اپنی اولاد آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر والدین کی آواز سے اونچی آواز میں بات کرنے لگ جائے ناں تو جگر کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں پتر”
فرحین کے شکستہ لہجے کو عیسیٰ کہاں سمجھ سکتا تھا۔
“آئندہ میری بیٹی کو تکلیف مت دینا۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا”
فرحین اسے دھمکی دے کر چکی گئیں۔
اس دھمکی پر عیسیٰ نے کمپیوٹر اسکرین کو اٹھاکر پوری قوت سے زمین پر مارا۔ اشتعال پھر بھی کم نا ہوا۔ تو اس محنت سے سجائے گیمنگ روم کی ہر چیز کو تہس نہس کرتا گیا۔
پھر اپنے روم میں گیا اپنا سوٹ کیس نکالا اور اس میں سامان بھرنے لگا۔ اپنی ضرورت کا تھوڑا بہت سامان رکھ کر وہ کمرے سے بیگ لیکر نکلا۔ دھڑا دھڑ سیڑھیاں اترنے کی آواز پر فرحین نے اس کی جانب دیکھا۔ عیسیٰ نے ماما کو دیکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور سیدھا گھر کی راہداری عبور کرگیا۔
____________

عکس اپنے چہرے پر صوفے کا کشن رکھے لیٹی تھی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ لیکن اسے اور اندھیرا چاہئیے تھا۔ گھپ اندھیرا۔ وہ تھک گئی تھی۔ رونے سے بھی تھک گئی تھی۔ بندوں کی محبت انسان کو کتنا خوار کرتی ہے۔ ایک انسان کی محبت حاصل کرنے کیلئے اس نے اپنی جان پر ظلم کیا تھا۔ ایک شخص کی بے وفائی نے اسے توڑ دیا تھا۔ لیکن اب وہ مزید اس کیفیت میں پڑے رہنا نہیں چاہتی تھی۔ ماما کیلئے وہ خود کو ٹھیک کرنا چاہتی تھی۔ کیونکہ ماما اسے دیکھ کر دکھی ہو جاتی تھیں۔ اور پاپا؟ ان کا دل تو ویسے ہی دھڑکنا بند کردیتا تھا۔ پھر وہ اپنے ان پیارے رشتوں کو صرف عیسیٰ کی وجہ سے کیوں تکلیف دے رہی تھی۔
اس نے آنکھوں سے کشن ہٹایا۔ کمرے کی لائٹس جلائیں۔ اور دوبارہ سے سفید کاغذ پر تخلیق کرنے لگی۔
فرحین کے دل میں جانے کیا آیا وہ سونے سے پہلے عکس کے کمرے کا چکر لگانے آئیں۔ اور اسے برش پھیرتے دیکھ کر چونک پڑیں۔
عکس نے ہنستے ہوئے کہا
“وہ تھک جائے گا پینٹگز خراب کر کر کے۔ کیوں کہ وہ ایک کام کر کر کے تھک جاتا ہے۔ میں زیادہ پینٹگز بنایا کروں گی۔ آدھی چھپا لیا کروں گی۔ جب ہم ایگزیبیشن میں رکھیں گے تب وہ خود تھک جائے گا”
فرحین عکس کی ہمت دیکھ کر خوش ہوئیں۔ مسکراتے ہوئے اسے گلے لگا کر کہنے لگیں۔
“اللہ کبھی اپنے پیاروں کی محنت رائیگاں نہیں جانے دیتا, تم تو اللہ کی لاڈلی ہو”
“میں لاڈلی کیسے ہوں؟”
“اپنے لاڈلوں کو وہ تہجد میں بٹھاکر رلاتا ہے بڑے پسند ہیں اللہ کو تمہارے آنسو”
“اب آپ مجھے رلانے کی کوشش کررہی ہیں”
عکس نے مسکراتے ہوئے کہا فرحین نے عکس کے ماتھے پر پیار دیا۔
“میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں پتا ہے کیوں؟ جب تم چھوٹی تھی نا تو ابا تمہیں خوش دیکھ کر تمہارے ہاتھ چوما کرتے تھے۔ اور اماں؟ اماں فورا بھاگ کر جاتی تھیں چینی لاتی تھیں تمہارے سر پر سے پھیر کر تمہاری نظر اتارا کرتی تھیں”
فرحین کھوئے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھیں۔
“میں کہتی تھی اماں کبھی اتنا پیار مجھ سے بھی کیا ہے؟ تو آگے سے کہتی تھیں۔ پیار سب بچوں سے کیا ہے مگر آخری بچے نے بڑھاپے میں جوان کردیا ہے۔ عکس خوش ہوتی ہے تو ہم جوان محسوس کرتے ہیں خود کو عکس روتی ہے تو ہم ایکدم سے بوڑھے ہو جاتے ہیں”
عکس نے فرحین کے گلے میں بانہیں ڈالیں فرحین نے اپنی آنکھیں صاف کیں۔
“ان سب محبتوں کے ہوتے ہوئے میں نے صرف ایک عیسیٰ کی محبت کیلئے سب کو تکلیف دی۔ کتنی ناشکری تھی ناں میں؟”
عکس نے دکھ سے کہا۔
“لاحاصل چیزوں کیلئے خود کو ہلکان مت کرو عکس, بس اپنے لئے دعا کیا کرو۔ اللہ سے مانگا کرو اس نے مانگنے سے کبھی منع نہیں کیا۔ لیکن جب تمہیں لگے کہ تمہارے مانگنے پر بھی وہ تمہیں نہیں دے رہا۔ تو تم اسکی رضا میں راضی ہوجاؤ۔ اور اس خواہش کو ترک کردو۔ اللہ کیلئے کچھ چھوڑو گی تو کبھی کوئی ریگریٹ نہیں رہے گا۔ جانے دو عیسیٰ کو اللہ نے دینا ہوگا تو گھوم پھر کر واپس آجائے گا۔ اور اگر نہیں آیا تو سمجھ جانا کہ تم اس کے نصیب کا پھول نہیں تھی”
فرحین نے سمجھایا تو بہت عکس نے سمجھنے کی کوشش بھی بہت کی مگر وہ یہ دعا بھی کرتی تھی کہ اسے عیسیٰ کی محبت پر صبر آجائے کیونکہ صبر آجانا ہی ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔

_______________


افراح کا برتھ ڈے تھا۔ عیسیٰ کو ویسے بھی اسے سرپرائز دینے جانا تھا۔ ماما سے لڑائی تو بہانہ بن گئی تھی۔ لاہور سے اسے کراچی کی فلائٹ ملی۔ کراچی کچھ گھنٹے اسٹے کے بعد وہ دبئی پہنچا۔ دبئی کے ایک ہوٹل میں اس نے سو کر دن گزارا رات آئی تو تیار ہو کر ڈھیر سارے گفٹس کیساتھ افراح کے گھر پہنچا۔
یہاں برتھ ڈے پارٹی چل رہی تھی۔ سجا سجایا لان۔ آنکھوں کو جھلسا دینے والی روشنیاں۔ اونچا میوزک۔ ڈھیر سارے لڑکے لڑکیاں۔ بے ہودہ لباس۔ گھٹیا ڈرنکس۔ سگریٹوں کے دھوئیں کی بدترین مہک۔ لڑکے لڑکیوں میں فرق کا ذرا پتا نا لگنا۔ مسلمان گھرانے کے لوگوں نے اپنے بچوں کو کیا واہیات تربیت دی تھی۔ ایسی آزادی اور ایسا ماڈرنزم۔ ایسے مسلمانوں کو دیکھ کر تو کافر بھی شک میں پڑجاتے ہوں گے۔
پل بھر کو عیسیٰ کا دل گھبرایا۔ پھر اس نے خود کو نارمل کیا۔ اور قدم آگے بڑھائے۔ افراح نہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کی نظروں نے ہر طرف دیکھ لیا۔ کچھ جانے پہچانے چہروں نے اسے افراح کی لوکیشن بتائی۔ عیسیٰ نے گھر کے اندرونی حصے کا رخ کیا۔ غالباً فوٹو شوٹ ہورہا تھا۔ کندھوں سے کندھے جڑے تھے۔ کمر پر ہاتھ رکھے گئے تھے۔ لڑکے کون سے تھے اور لڑکیاں کون سی تھی۔ حدیں کیا ہوتی ہیں اور محتاط رہنا کیا ہوتا ہے۔ یہاں ان چیزوں سے بلا امتیاز فوٹو شوٹ کیا گیا تھا۔
افراح نے عیسیٰ کو جب دیکھا تو حیرت سے آنکھیں واں کیں۔ وہ دوڑتی ہوئی عیسیٰ کے قریب آئی اور بنا کسی جھنجھٹ کے اس کے گلے سے آلگی۔
عیسیٰ اس افتاد کو تیار نہیں تھا۔ سیٹیاں بجنے لگیں۔ آوازیں کسی گئیں۔ کپل کپل کا شور ہوا رومینس کا شور ہوا۔ عیسیٰ کو خوش ہونا چاہئیے تھا خود کو لکی سمجھنا چائیے تھا۔ لیکن اسے خوشی کیوں نہیں ہوئی؟ اس کا دل بوجھل کیوں ہوا؟ دماغ بھاری کیوں ہونے لگا؟ اپنا وجود وزنی کیوں محسوس ہوا؟ جو وجود اس کے سینے سے لگا تھا اس سے بو کیوں محسوس ہوئی؟ وہ ریشم سا کیوں نا لگا؟ بچھو کی طرح کیوں کاٹنے لگا؟
عیسیٰ نے افراح کو خود سے دور کیا نارمل سے انداز پر بھی افراح کو برا لگا۔ اس نے خود کو کمپوز کیا مسکرائی۔
“ہیپی برتھ ڈے افی”
عیسیٰ گفٹ ہاتھ میں پکڑ کر گفٹ دینا بھول گیا۔
“نائس سرپرائز عیسیٰ”
افراح کو اس کا سرپرائز اچھا لگا تھا کیونکہ وہ عیسیٰ سے یہ ایکسپیکٹ نہیں کررہی تھی۔ لیکن عیسیٰ کو یہ پارٹی اچھی نہیں لگی تھی۔ اسے آج یہ احساس بہت شدت سے ہوا تھا کہ افراح کی زندگی عیسیٰ کے بغیر رک نہیں سکتی تھی۔ وہ ناراض ہو تو افراح اپنی خوشیاں اپنے اوپر حرام کبھی نہیں کرے گی۔ مختصر یہ کہ عیسیٰ وہ شخص نہیں تھا جو افراح کی خوشی اور اداسی کو متاثر کرسکتا تھا۔
عیسیٰ جبراً مسکرایا حالانکہ وہ بھاگ جانا چاہتا تھا۔
اسی بھیڑ میں ایک نیا شخص داخل ہوا افراح نے اسے بھی ویسے ہی گلے لگایا جیسے کچھ دیر پہلے اس نے عیسیٰ کو لگایا تھا۔
محبت میں اور دوستوں میں فرق تو رکھنا چاہئیے ناں؟
عیسیٰ نے سوچا۔ وہ اس برتھ ڈے گرل کا بوائے فرینڈ تھا۔ سب سے زیادہ اہمیت اس کی ہونی چاہئیے تھی۔ مگر افراح عیسیٰ کو چھوڑ کر باقی سب کو زیادہ توجہ دے رہی تھی۔ شاید اسلئے کیونکہ وہ جانتی تھی عیسیٰ اس سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتا تھا۔ اور دوستوں کو گھر بلا کر وہ اگنور نہیں کرنا چاہتی تھی۔
کیک کاٹتے ہوئے بس دونوں ساتھ کھڑے تھے۔ یہ واحد موقع تھا جہاں کوئی تیسرا فرد بیچ میں نہیں تھا۔ عیسیٰ کو کچھ حوصلہ ہوا تھا۔ چلو اتنا تو پروٹوکول ملا ناں۔
پارٹی ختم ہونے سے پہلے عیسیٰ نے افراح کو رنگ پہنائی۔ رنگ پہنانے کا مطلب تھا اب وہ جلد شادی کرنے والے ہیں۔ ایک شور مچا تھا۔ مگر افراح زیادہ خوش نہیں تھی۔ اسے گولڈ کی رنگ دیکھ کر سبکی سی محسوس ہوئی تھی اس نے عیسیٰ سے آہستہ سے کہا۔
“تم ڈائمنڈ رنگ افورڈ نہیں کرسکتے تھے تو مجھے بول دیتے میں ہیلپ کردیتی۔ یہ گولڈ کا سرپرائز دینے تم اتنے دور سے آئے ہو؟”
بڑی زور کی عیسیٰ کےدل میں چھری پھیری تھی افراح نے۔ وہ ڈائمنڈز میں کھیلنے والی لڑکی گولڈ ڈزرو نہیں کرتی تھی۔ ظاہر ہے ایک سرکل تھا اس کا۔ بڑی شرمندگی ہوئی اسے یہ گوری انگلیوں میں چند ہزار کا گولڈ پہن کر۔
افراح کا اپنا غم تھا عیسیٰ کا اپنا۔
محبت کو پیسوں میں تولہ جارہا تھا۔ لیکن ملک عیسیٰ اعوان چادر سے باہر پاؤں پھیلاتے ہو تو اپنی چادر بھی بڑی رکھا کرو۔ ڈائمنڈ پہننے والی کو گولڈ نہیں بھاتے۔ ڈائمنڈ پسند کرو گے تو ڈائمنڈ دینے بھی پڑیں گے۔ محبت کو سونے کا پانی چڑھا کر بھی دو ۔ اس نے آپ کا نہیں ہونا ہوگا وہ نہیں ہوگی۔ جس طرح عکس عیسیٰ کے پیچھے بھاگتی تھی۔ بلکل اسی طرح عیسیٰ بھی افراح کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔
“مجھے آئیڈیا نہیں تھا لڑکیوں کو ڈائمنڈز زیادہ پسند ہیں”
عیسیٰ نے اپنے لہجے کو تلخ ہونے سے روکا۔ افراح کا اچھا دن خراب نہیں کرنا چاہتا تھا وہ۔ ابھی بھی اسے افراح کا خیال تھا۔
“مجھ سے مشورہ ہی کر لیتے”
“پھر سرپرائز کیسے ہوتا؟”
“جیسے یہ سرپرائز تو بڑا پسند آ گیا مجھے, ہنس رہے ہیں سب مجھ پر”
افراح نے دبی دبی سرگوشی کی۔
“مجھے کیا پتا پارٹی ہورہی ہوگی آگے”
عیسیٰ کو شرمندگی نے آگھیرا تھا۔ گولڈ کونسا مفت میں آتا ہے عیسیٰ نے دل میں سوچا۔
آگے کی ساری پارٹی افراح نے اپنے دوستوں کیساتھ ہلے گلے سے منائی۔ عیسیٰ اس کے پیچھے پیچھے پھرتا رہا۔ پھر تھک کر ایک صوفے پر اکیلا بیٹھ کر اپنی ہونے والی دوسری بیوی کو بےغیرت مردوں کی طرح بےبس سا انجوائے کرتے دیکھتا رہا۔
…جاری ہے
(اشنال)

Your thoughts matter – share them below!

Scroll to Top