Delusion - Episode 7

بیل جارہی تھی۔ فون اٹھایا گیا۔
“ہیلو”
سوئی ہوئی بھاری آواز۔
“ماما؟”عکس کو کچھ شک ہوا کچھ مردانہ آواز محسوس ہورہی تھی یہ تو۔ ایک تو وہ نیند میں تھا بوجھل سا لہجہ تھا۔ پہچان نہیں پائی وہ۔
“ہممممممممم”
عیسیٰ نے نیند میں ہممممم کیا۔
“آپ ماما بول رہی ہیں؟”
عکس ابھی تک پہچان نہیں پائی تھی۔
“ماما کی آواز پہچانتی نہیں آپ؟”
عیسیٰ کی بھاری آواز نیند میں ڈوبی ہوئی۔ وہ پریشان تھی اب اور پریشان ہورہی تھی۔
“مجھے ماما سے بات کرنی ہے, آپ میری ماما سے بات کروا دیں”
اب عکس کو اندازہ ہوگیا تھا کہ فون کے اس طرف عیسیٰ ہے۔
“تو آپ اپنی ماما کو فون ملائیں نا”
اب وہ عکس کو تنگ کرنے کا سوچنے لگا۔ اس کے شیطانی دماغ میں ہر وقت کوئی نا کوئی شرارت چلتی پھرتی رہتی تھی۔
“میں نے ماما کو ہی فون ملایا ہے آپ انہیں فون دے آئیں مجھے ضروری بات کرنی ہے”
عکس کا لہجہ اسکی آواز عیسیٰ کو نیند میں کسی خوشبو کے پیارے سے جھونکے کی طرح محسوس ہوئی۔ آنکھیں بند کئے وہ مسکرا کر عکس کو تنگ کرنے لگا۔
“میرے گھر میں تو میری ماما رہتی ہیں بس”
عکس کو آج اندازہ ہوگیا تھا یہ لڑکا سچ میں لوگوں کو کتنا عاجز کردیتا ہے۔
“یہ ماما کا ہی نمبر ہے آپ کے پاس پتا نہیں کیا کررہا ہے۔ دیکھیں میری ماما سے بات کروا دیں مجھے بہت ضروری کام ہے, زیادہ وقت نہیں ہے میرے پاس”
اس بار عکس نے ذرا غصے سے کہا۔ پر مقابل ٹھہرا الٹرا ڈھیٹ۔
“پہلے اس طرح بولیں کہ ملک عیسیٰ اپنی ماما سے میری بات کروادیں پھر میں اپنی نیند کی قربانی دینے کے بارے میں سوچتا ہوں”
اس نے لفظ “اپنی” پر زور دیا۔ صبح صبح عکس کے دماغ کی دہی بننے لگی تھی۔
“مجھے ڈاکٹر فرحین سے بات کرنی ہے کیا آپ میری بات کروا سکتے ہیں”.عکس نے بڑے تحمل سے اور بڑے شائستہ لہجے میں گزارش کی۔ عیسیٰ کو اس کھیل میں بڑا مزا آنے لگا۔
“جب آپ بولیں گی کہ عیسیٰ اپنی ماما سے میری بات کروادیں تب میں کروادوں گا”
عیسیٰ نے زور سے جمائی لی عکس کو کراہیت محسوس ہوئی اس نے فوراً کال ڈسکنیکٹ کردی۔
کوئی پانچ منٹ بعد فون پر ماما کالنگ بلنک کرنے لگا۔ اسے لگا اب تو فرحین ہی ہونگی دوسری جانب۔
“السلامُ و علیکم ماما”
“وعلیکم السلام , آج صبح صبح مجھ پر دو بار رحمتیں نازل ہوچکی ہیں, دن نیکی میں گزرنے والا ہے یعنی”
کتنا شرارتی تھا یہ لڑکا اففففف۔ وہ خاموش رہی تو عیسیٰ پھر سے بول پڑا۔
“ایک تو میری ماما پر قبضہ جما کر بیٹھی ہوئی ہیں آپ اور پھر ایٹی ٹیوڈ بھی ماشاءاللہ میرے سے بھی دو گز لمبا ہے”
“آپ نے اگر بات نہیں کروانی تو دوبارہ کال نہیں کرئیے گا”
عکس نے دو ٹوک کہا۔
“ریکوئسٹ کریں تو مان بھی جاؤں آپ تو آرڈر دے رہی ہیں وہ بھی ملک عیسیٰ اعوان کو”
اففففف یہ ادائے خود پسندی۔
“ننا کی طبیعت خراب ہے مجھے ماما کو بتانا ہے, وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جارہے, آپ پلیز تنگ نا کریں مجھے”
عکس نے صاف صاف بات بتائی۔ تو عیسیٰ کو تھوڑی بہت پریشانی ہوئی۔
“میرا فون خراب ہوگیا تھا ماما سے رات کو فون لیا تھا یوز کرنے کیلئے ابھی نیچے جاتا ہوں تو کرادیتا ہوں بات”
اب عیسیٰ لائن پر آگیا تھا۔
“مہربانی ہوگی آپ کی”
عکس نے پھر طنز کیا۔ عیسیٰ نے پھر اپنے ابرو آپس میں ملا کر فون کر گھورا۔ لیکن اب وہ اس پریشان سی معصوم آواز کو مزید تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ عیسیٰ کا بھاری لہجہ عکس کو اجنبی نہیں لگا۔
عکس اپنے خیالوں سے نکلی۔ رات کے ایک بجے وہ اپنے بستر پر چت لیٹی چھت پر لگے پنکھے کو گھور رہی تھی۔ اور سوچیں چار سال پہلے پہنچی ہوئی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب عیسیٰ عکس کی زندگی میں آیا تھا۔ ایک آواز بن کر۔ اور پھر ہمیشہ کیلئے وہ آواز عکس کے گھر اور عکس کے دل میں ٹھہر گئی تھی۔
آنسو عکس کی آنکھوں سے بہتے جارہے تھے۔ آنکھیں درد کرنے لگی تھیں۔ تعلق جتنی تیزی اور جتنی نرمی سے بنتے ہیں اتنی ہی سست روی اور سختی سے ختم ہوتے ہیں۔ محبت کا تعلق ایسا تعلق ہے جو شروع دونوں اطراف سے ہو بھی جائے تو ختم ہوتے ہوتے ایک فریق کے اندر ہمیشہ کیلئے رہ جاتا ہے۔
عیسیٰ کے دل سے ختم ہورہا تھا لیکن عکس کے لئے دل کا مرض بن رہا تھا۔
آج پہلی رات تھی اس نے چار گھنٹے مسلسل جائے نماز پر روتے ہوئے گزارے۔ چار گھنٹے مسلسل رونے والے کی آنکھوں کا صبح کیا حال ہوتا ہو گا؟
______________

“تم اگر صبح اٹھ ہی جاتے ہو تو پاپا کے پاس چلے جایا کرو, انہیں ضرورت ہے تمہاری بیٹا”
فرحین نے عیسیٰ کو صبح سویرے نیچے والے پورشن میں آتے دیکھ کر کہا۔
“میں اپنے کاموں کیلئے جلدی اٹھتا ہوں”
اس نے پانی کا گلاس منہ سے لگایا۔
“ناشتہ بناؤں؟”
“اونہہہہ, صبح صبح ناشتہ نہیں کرنے ہوتا, میں دوست کی طرف جارہا ہوں”
وہ گھر سے باہر بائیک لیکر نکلا تو فرحین سوچنے لگیں۔ بغیر کسی وجہ کے تو عیسیٰ نیند قربان کرتا نہیں۔
وجہ تھی ناں جو دبئی سے پاکستان آئی ہوئی تھی۔ اسے کمپنی دینا عیسیٰ کو اس وقت ہر چیز سے زیادہ دلچسپ لگ رہا تھا۔ وہ افراح کے گھٹنوں سے لگ گیا تھا۔ دوست احباب سب سے ملنا وہ چھوڑ چکا تھا۔ صبح گھر سے نکلتا شام کو واپس آتا۔ کبھی افراح کیساتھ کسی ریسٹورنٹ کبھی کسی شاپنگ مال, کبھی کسی پلے لینڈ, کبھی افراح کے گھر دونوں گیمز کر وقت گزارتے۔ تقریباً ایک مہینہ افراح نے پاکستان میں گزارا اور کسی ایک دن بھی عیسیٰ نے افراح کو اکیلا چھوڑ کر بوریت محسوس نہیں ہونے دی۔ وہ عکس کو اپنی زندگی سے نکال چکا تھا۔ بلاک لسٹ میں پڑے عکس کے نام سے اب تعفن کی بو اٹھنے لگی تھی۔
آج افراح نے دبئی واپس جانا تھا۔ عیسیٰ بجھے دل اور خراب موڈ کیساتھ اسے الوداع کہنے ائیر پورٹ پہنچا۔ جہاں وہ اپنی فیملی کیساتھ موجود تھی۔ وہ اس کی فیملی کے ہر فرد کیساتھ گھل مل چکا تھا۔
“موڈ کیوں خراب ہے؟”
اس نے ہنستے ہوئے عیسیٰ سے پوچھا۔
“واپس جانا ضروری ہے؟”
عیسیٰ نے سوال کے بدلے سوال کیا۔
“ہممم ضروری ہے, اپنے گھر واپس جانا بہت ضروری ہوتا ہے, جو سکون اپنے گھر میں ہے وہ دنیا کے کسی کونے میں نہیں”
افراح نے شدت سے گھر کی کمی محسوس کی تھی۔ عیسیٰ اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ وہ دونوں ائیر پورٹ کے گراؤنڈ میں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
“کیا دیکھ رہے ہو؟”
اس نے عیسیٰ سے پوچھا۔
“مس کرو گی مجھے؟”
دونوں کے دل اس بات پر ایک ساتھ دھڑکے۔ پھر افراح ہنس پڑی۔ لیکن عیسیٰ مسکرا بھی نہیں سکا۔
“Moon Knows”
افراح نے ہنستے ہوئے کہا۔ اس نے عیسیٰ سے نہیں پوچھا یہی سوال کیونکہ وہ دیکھ چکی تھی جانے سے پہلے ہی عیسیٰ اس کی غیر موجودگی کو بہت بری طرح محسوس کررہا تھا۔
“پھر کب آؤ گی؟”
اگلا سوال۔
“اب تم آؤ گے, اب تمہاری باری ہے”
وہ مسکرائی پھر کہنے لگی۔
“پہلے تم مجھ سے ملنے آیا کرو گے پھر میں تم سے ملنے آیا کروں گی تاکہ دونوں کی کنٹری بیوشن ہوسکے”
اب وہ ہنسی تو عیسیٰ بھی ہنس دیا۔
“ماما خود سے دور نہیں جانے دیتیں, لاہور کے علاوہ کوئی شہر دیکھا نہیں میں نے”
وہ جانتی تھی دبئی عیسیٰ کیوں اور کیسے گیا تھا۔
“ماما کو ساتھ لیکر آجانا”
اس نے آہستہ سے کہا۔ عیسیٰ اس کے لہجے پر ٹھٹک گیا پھر مسکرایا اور صرف اتنا کہا
“ہممم لے آؤں گا”
اب وہ کچھ بہتر فیل کررہا تھا۔ افراح سے آخری ملاقات بھی پھر سے ملنے کی ایک نئی امید پیدا کرگئی تھی۔ وہ خوش تھا بہت خوش تھا۔ شاید یہ دونوں ایک دوسرے کیلئے بنے تھے۔ شاید عکس عیسیٰ کیلئے نہیں بنائی گئی تھی۔ مگر یہ بات عکس کو کون سمجھاتا کہ کبھی کبھی جس انسان کو ہم چاہتے ہیں وہ ہمارے لئے نہیں بنایا گیا ہوتا۔ اور جو ہمارے لئے نہیں بنایا گیا ہوتا اس کے پیچھے خود کو گھسیٹنا ہمارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔ وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی جارہی تھی پھر بھی عیسیٰ سے دور رہنے کا فیصلہ نہیں کرپارہی تھی۔
_______________

“میری بچی کو اس تکلیف سے نکالو فرحین, میں اسے اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا”
آج ننا لاہور میں فرحین کے سامنے بیٹھے التجاء کررہے تھے۔ ان کی آنکھیں نم تھیں۔
“میں نے کوشش کی ہے, جب بھی عیسیٰ سے عکس کے بارے میں بات کرتی ہوں وہ اٹھ کر چلا جاتا ہے”
“بہت بےحس ہے تمہارا بیٹا, میری بچی کے دل کو کھلونا سمجھ کر کھیل گیا ہے, تین تین گھنٹے جائے نماز پر بیٹھ کر روتی رہتی ہے, دن اور رات کا فرق بھول گئی ہے, آرٹ چھوڑ چکی ہے, کھانا کھانے بیٹھتی ہے دو لقمے لیتی ہے اور کہتی ہے بس ننا کھایا نہیں جارہا, فرحین عکس کا ایک آنسو بھی تمہارے بیٹے کو لگ گیا ناں تو وہ سانس نہیں لے پائے گا”
ننا یہ سب کہتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے اور فرحین کا سر شرمندگی سے جھکتا جارہا تھا۔
“حفاظت کی زمہ داری لی تھی نا تم نے, کیا جواب دو گی اس کے ماں باپ کو, ایک بار فرحین ایک بار تم نے اس سے فون کرکے نہیں پوچھا کہ عکس جب محبت کر ہی لی ہے تو مجھ سے شئیر بھی کرلو, کتنی بار تم سے کہا اس سے پوچھو اس سے بات کرو مگر تم اور تمہارا بیٹا کسی کے غم پر اپنا وقت کہاں ضائع کرتے ہو”
ننا نے دونوں سے کہا تھا ایک دوسرے سے بات کرنے کو مگر عکس اور فرحین دونوں ہی اس ٹاپک پر بات کرنے سے جھجھک رہی تھیں جو سراسر نقصان دہ تھا۔ مسئلوں پر گفتگو کرکے ہم چیزوں کو ٹھیک نا بھی کرسکیں۔ ٹھیک کرنے کی کوشش ضرور کرسکتے ہیں۔
“ابا میں پہلے عیسیٰ کو دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اس نے مستبشرہ کا صاف انکار کیا تو میں نے اس سے عکس کا پوچھا جس پر اس نے بولا مجھے فی الحال یہ رشتے وشتے نہیں کرنے۔ وہ تنگ ہوتا ہے ابا زیادہ تنگ کروں گی تو مجھ سے بات کرنا بند کردے گا”
“تنگ ہوتا ہے؟ سبحان اللہ! جب بیٹے کو باپ بناؤ گی تو خود کی عزت اور وقار بھی جاتا رہے گا”
ننا کو غصے میں پہلی بار دیکھا گیا تھا۔ ان کا چہرہ غضب سے سرخ پڑگیا تھا۔
“ابھی سو رہا ہے, شام کو آپ بھی بات کرکے دیکھیئے گا ہوسکتا ہے آپ کی بات سمجھ جائے”
“جو والدین کو کچھ نہیں سمجھتا وہ صدیوں بعد ملنے والے نانا کی خاک عزت کرے گا”
ننا سخت نالاں تھے۔ فرحین اور اس کے ابا خاموشی سے شام کا انتظار کرنے لگے۔

شام ہوئی تو عیسیٰ گنگناتے ہوئے نیچے والے پورشن میں داخل ہوا۔ جہاں صوفے پر بلکل سامنے ننا بیٹھے تھے۔ اور فرحین کچن میں کچھ کام کررہی تھیں۔ وہ ننا کو دیکھ کر چہکا۔ پھر ان کے گلے لگا۔ سلام دعا ہوئی۔
“پچھلی بار آپ زیادہ ینگ لگ رہے تھے اس بار کچھ بوڑھے بوڑھے سے لگ رہے ہیں”
اس نے شرارت سے کہا اور کچن میں کھڑی ماما سے ناشتے کا کہنے لگا۔
“تمہیں دکھائی دیتا ہے کون جوان ہے اور کون بوڑھا ہورہا ہے؟”
ننا کے کڑوے لہجے پر عیسیٰ کا دل بھی کڑوا ہونے لگا۔ اس نے بالوں میں ہاتھ پھیر کر خود کو نارمل کیا۔ سامنے والے سنگل صوفے پر بیٹھ کر ریموٹ اٹھایا اور چینل بدلنے لگا۔
“آپ کو لگتا ہے جو لوگ صبح جلدی اٹھتے ہیں بس انہی کو نظر آتا ہے؟ جو رات کو اٹھتے ہیں نا ان کی نظر زیادہ تیز ہوتی ہے”
ہر بات مزاح میں اڑا دینا یہی تو آتا تھا اسے۔
“یعنی تم اندھے بننے کی اداکاری کررہے ہو؟”
ننا کی بات پر اسکا چلتا ہاتھ رکا۔ نظریں رکیں اور ننا کی آنکھوں پر آکر ٹھہر گئیں۔
“آپ کی اس بات کی وجہ؟”
سرد لہجہ۔
“جو سلسلہ تم نے شرارتا شروع کیا تھا ناں, وہ اس دوسرے شخص کیلئے جان کا روگ بن گیا ہے”
“تو اس میں میرا تو قصور نہیں ہے, وہ بھی موو آن کرسکتی ہے دنیا میں ہزاروں بریک اپس ہوتے ہیں کوئی نئی بات تو نہیں ہوگئی”
معصوم چہرے کے اندر کتنا سخت دل موجود تھا۔ پتھروں کو شکست دیتی سختی۔
“دنیا کا ہر بندہ گھٹیا تو نہیں ہوتا نا پتر”
ننا کی بات کسی خنجر کی طرح عیسیٰ کے سینے میں پیوست ہوئی۔ اس کی آنکھیں لال انگارہ بن گئیں۔
“ہر بندے کے سامنے رو کر ہمدردی سمیٹ کر, مجھے برا ثابت کرکے وہ لوگوں کی سمپتھی تو گین کرسکتی ہے مگر مجھے نہیں حاصل کرسکتی”
اس نے تکبر سے کہا۔
“محبت اگر انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب نا کرتی تو یہ ایک لڑکی کافی تھی تمہیں تمہاری اوقات یاد کرانے کیلئے۔ تم جیسے دوسری نظر ڈالنے کے لئے بھی نہیں ہوتے”
نانا اور نواسے کے درمیان شاید زندگی میں پہلی جنگ لڑی گئی تھی۔
“یہ بات اسے سمجھائیں ناں جاکر جو ہر روز ہر دوسرے بندے کے پاس جاکر کہتی ہے عیسیٰ سے کہو واپس آ جائے, آپ کے تو شاید علم میں بھی نا ہو میرے دوستوں کو کال کرکے اس نے کہا کہ عیسیٰ کو بولو واپس آئے, یہ تربیت کی آپ نے اس کی؟ ذرا صبر نا سکھا سکے اسے”
“عیسیٰ بکواس بند کرو”
فرحین کا زناٹے دار تھپڑ عیسیٰ کے گال پر پڑا۔
عیسیٰ نے حیرت اور صدمے سے ماں کی طرف دیکھا پھر نانا کی طرف خون خوار نظروں سے دیکھ کر کہنے لگا۔
“پہلی بار مجھے میری ماں نے تھپڑ مارا ہے, عکس کی وجہ سے, اب آپ دیکھنا میں اس کیساتھ کرتا کیا ہوں”
عیسیٰ نے دھمکی دی اور گھر سے باہر نکل گیا۔ دونوں باپ بیٹی الگ الگ صوفوں پر نم سرخ آنکھوں سے خاموش بیٹھے رہ گئے۔

______________

ہاسپٹل کے ایک بستر پر عکس نقاہت زدہ حالت میں لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے بازو پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ زردی مائل رنگت, پیلی آنکھیں, کمزور لاغر جسم۔ عکس کے ڈاکٹر نے اسے دیکھ کر بڑی تشویش ظاہر کی اور پہلی ملاقات میں ہی اس سے کہنے لگے
“جو بات دل میں ہے اسے نکال دو”
یعنی اس کی ظاہری حالت چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ یہ حال دل کے لٹنے کے سبب ہوا ہے
عکس کے کے بالوں میں ننا کا ہاتھ چل رہا تھا۔ وہ عکس کی بند آنکھوں سے چمکنے والی آنسوؤں کی لکیر کو دیکھ رہے تھے۔
“میرے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کے چہرے کا رنگ کیسا تھا ننا؟”
وہ بہت آہستہ بول رہی تھی۔ بات کرتے ہوئے بیچ میں اکثر اسکا لہجہ بھرا جاتا تھا۔
“عکس اس کے چہرے پر, اس کی آنکھوں میں, اس کی زبان پر میں نے تمہارے لئے نا عزت دیکھی ہے نا احترام, محبت تو بہت بڑی چیز ہے پتر, چھوٹے لوگوں سے اس کی توقع نہیں رکھتے”
ننا کا جواب سن کر عکس نے آنکھیں کھولیں آنسوؤں سے بھری ہوئی انکھیں۔
“میں اس سے محبت نہیں کرنا چاہتی ننا……., نفرت کرنا چاہتی ہوں اس سے……… پر میرے سے نہیں ہوتا…….., مجھے خود سے نفرت محسوس ہورہی ہے……., مگر عیسیٰ سے نہیں ہورہی”
وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی
ننا رونے لگے تھے۔
“ایک انیس سال کا لڑکا مجھے ہرا گیا ننا”
وہ سسک اٹھی۔
“میں اسے unlove نہیں کرپارہی ہوں, دنیا میں اور لوگ بھی ہیں لیکن مجھے دکھائی کیوں نہیں دے رہے ننا؟”
آج پہلی بار وہ اتنے سالوں کی خاموشی توڑ رہی تھی۔
“اس نے مجھے انبلاک کرکے کہا ہے, دوست بن کر رہنا ہے تو رہو اس سے آگے کچھ سوچنا بھی نہیں, ماما نے کہا عکس دوست بن کر رہ لو اس پر زبردستی نہیں کرسکتی میں…., ننا چار سال محبت کرنے کے بعد, دوست بن کر کیسے رہوں؟ دوست بھی وہ جو سب سے آخر میں آتا ہے……, اپنی جگہ افراح کو دیکھتی ہوں تو میرا سانس بند ہوتا ہے”
وہ سسک رہی تھی تڑپ رہی تھی اس کی آواز کانپ رہی تھی اسکا جسم کانپ رہا تھا۔ ننا نے گرنے سے بچنے کیلئے قریب رکھی کرسی پر خود کو گرایا۔
“اللہ کہتا ہے رو کر مانگو بار بار مانگو, ننا میں پچھلے تین مہینے سے رو رہی ہوں, آپ کہتے ہیں میرا رونا سن کر جانور چرند, پرند, جاندار بےجان ہر چیز رو پڑے, رونے کی ہر آخری حد پار کر چکی ہوں میں, مگر وہ میرا دل نہیں بدل رہا, میرے دل کو عیسیٰ سے خالی نہیں کررہا”
ننا کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔
“نا مجھے صبر آتا ہے نا میں خاموش ہوتی ہوں نا اس سے نفرت ہوتی ہے, اس کے پیچھے خود کو ذلیل و خوار کردیا ہے میں نے, وہ مجھ سے نفرت کرنے لگا ہے, جس شخص کے سامنے اس کا نام لیتی ہوں وہ میری اس رٹ کی وجہ سے مجھ سے نفرت کرنے لگا ہے مگر مجھے,…. مجھے اس سے نفرت نہیں ہوتی, اس کے پیچھے جانا نہیں چھوڑتی میں, میں کہتی ہوں میں تھک گئی ہوں مگر یہ کیسی تھکن ہے ننا میں تھک کر بھی اسی کو مانگنے اندھیرے راستوں کی طرف نکل پڑتی ہوں”
کتنی بےبسی تھی اسکے لہجے میں۔ محبت انسان کو کتنا یتیم کر دیتی ہے۔ ماں باپ نا ہوتے ہوئے بھی اس نے خود کو یتیم نہیں سمجھا تھا۔ صرف عیسیٰ کا جانا اسے یتیم فقیر مسکین سب بنا گیا تھا۔ ہاسپٹل کے اس کمرے میں دونوں رو رہے تھے۔
جاری ہے…….

جاری ہے …

(اشنال)

6 thoughts on “Delusion – Episode 7”

Your thoughts matter – share them below!

Scroll to Top