Delusion - Episode 6
“اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرو, عکس خوبصورت بھی ہے, نیک بھی ہے, پڑھی لکھی بھی ہے, تمہارے بیٹے کو سنبھالنا بھی جانتی ہے, میرے ہاتھوں میں پلی بڑھی ہے, اس سے بہتر بہو تمہیں کہیں نہیں مل سکتی”
ننا فرحین سے آج کھل کر اس معاملے میں بات کرنا چاہ رہے تھے۔ پچھلے تیس منٹ سے وہ دونوں کال پر یہی بحث کررہے تھے۔
“ابا وہ دونوں اچھے دوست ہیں”
فرحین ان کے رشتے کو دوستی سے بڑھ کر نہیں سمجھتی تھی۔ اگر ایسا کچھ معمولی سا تھا بھی تب بھی وہ اس سے نظریں چرا کر رکھنا چاہتی تھی۔ اسے اپنے بھائیوں سے الحاق چاہئیے تھا اس وقت۔”دوست وہ تمہاری نظر میں ہیں, ان کے دل کے اندر کیا پل رہا ہے, ان کے درمیان کیا کیا باتیں ہوتی ہیں اس سب سے تم لاعلم ہو, کبھی تم نے پوچھا عکس سے عیسیٰ کا اتنا خیال کیوں رکھتی ہے وہ؟ کبھی عیسیٰ سے پوچھا آخر عکس کی ہی ہر بات کیوں مان جاتا ہے؟”
ننا فون پر ہی آج سارے حساب نکالنا چاہ رہے تھے۔
“ابا بیسٹ فرینڈز ایسے ہی ہوتے ہیں, آجکل کی دوستیاں ایسی ہی ہوتی ہیں, اور پھر عکس نے مجھ سے کبھی بھی ایسی بات نہیں کہی جس سے مجھے لگا ہو وہ عیسیٰ سے شادی کرنا چاہتی ہے, محبت کرتی ہے وہ عیسیٰ سے بلاشبہ محبت کرتی ہے مگر دوستی والی محبت میں بڑا فرق ہوتا ابا, وہ عیسیٰ کو چھوٹے بچے جیسا سمجھتی ہے اسلئے اسے روکتی ٹوکتی رہتی ہے”
فرحین کی بات پر ابا تلخ ہوئے۔
“فون پر آنکھیں نہیں نظر آتیں, نا ان میں تیرنے والی سرخیاں دکھائی دیتیں ہیں”
“ابا وہ عیسیٰ سے پانچ سال بڑی ہے, سب کیا کہیں گے؟”
فرحین نے ایک اور مسئلہ سامنے رکھا۔
“شاباش ہے پتر! تمہاری سوچ کب سے اتنی چھوٹی ہونے لگ گئی ہے؟”
“ابا عیسیٰ اگر جذبات میں آکر شادی کرلیتا ہے اور بعد میں دنیا کی باتوں اور طعنوں نے اسے یہ محسوس کرایا کہ وہ عکس کے سامنے بچہ ہے, یا اسے اپنی عمر کی کوئی لڑکی شادی کے بعد نظر آگئی اپنے اور عکس کے درمیان عمروں کا فرق تب جاکر محسوس ہوا پھر عکس کا کیا ہوگا ابا؟”
یہ بات تو ٹھیک کہی تھی فرحین نے سب کچھ سوچنا پڑتا ہے جلد بازی سے رشتے نہیں جوڑے جاسکتے تھے
“صرف عکس ہی اس سے محبت نہیں کرتی تمہارا بیٹا بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتا ہے, پتا نہیں تم کس دنیا میں رہتی ہو جسے معلوم ہی نہیں اسکا بیٹا دن رات اپنے کمرے میں بند رہ کر کرتا کیا رہتا ہے”
عکس اور عیسیٰ کی گفتگو آتے جاتے کبھی کبھار ان کے کانوں سے گزر جایا کرتی تھی اسلئے وہ زیادہ نا سہی تھوڑے بہت واقف تھے عیسیٰ کی سوچ سے بھی۔
“ابا بچوں کی اپنی زندگی ہے میں ان کے معاملات میں زیادہ نہیں پڑتی، پھر وہ بولے گا میری ماں مجھ پر نظر رکھ کر بیٹھی ہوئی ہے, میں اسے آزادی دی ہے تاکہ وہ کوئی بغاوت نا کرسکے”
فرحین کی دی ہوئی یہی آزادی کے خلاف تھے ابا۔
“تمہاری اسی آزادی نے اسے بگاڑ دیا ہے ضرورت سے زیادہ وہ خود کو قابل سمجھنے لگا ہے, آزادی اتنی دینی چاہئے جس میں رشتوں کا فرق سمجھ آسکے, باپ کو اپنی عمر کا دوست سمجھ کر بات کرتا ہے, ماں کو اتنا ڈرا کے رکھا ہے صبح کا سویا رات تک نا اٹھے, اسے جگانے نہیں جاتی کہ غصہ کرے گا, خاندان کے کسی فرد سے نیچے ہوکر بات نہیں کرتا”
“ابا میرے پتر کی وجہ سے ہی یہ لوگ میری عزت کرتے ہیں ورنہ میرے سسرالی خاندان نے مجھے کچا کھا جانا تھا”
فرحین کو فخر تھا اپنے بیٹے پر وہ خاندان کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکتا تھا۔
“یہ عزت ہے؟ تم اسے عزت سمجھتی ہو؟ ایک انیس سال کے لڑکے سے بڑے بڑے بزرگ نیچے ہوکر بات کرتے ہیں کیوں؟ اسکی بداخلاقی کی وجہ سے, جھاڑ کے رکھ دیتا ہے لوگوں کو, عزت نہیں کرتے وہ اپنے بےعزت ہونے کے ڈر کی وجہ سے عیسیٰ کا احترام کرتے ہیں, ایک قابل ڈاکٹر کا میٹرک فیل بداخلاق بیٹا”
فرحین نے آج اچھی خاصی اپنے ابا سے ڈانٹ سن لی تھی۔ اسلئے مزید کوئی بحث جاری رکھنے کی بجائے بات کو ختم کرنے لگیں۔
“میں بات کرتی ہوں عکس سے”
“میں نے کہا تھا عکس سے تم سے بات کرے۔ مگر وہ اپنا رشتہ تم سے خود کیسے مانگے, اندر ہی اندر گھل رہی ہے میری بچی, محبت کر بیٹھی ہے شادی کرنا چاہتی ہے اسلام نے اجازت دی ہے اسے جو اچھا لگے اس سے شادی کا خیال آنا گناہ بلکل نہیں ہے, جب بچے دونوں راضی ہیں تم بیچ میں اپنا بھائی نامہ لیکر بیٹھ گئی ہو۔ بھول گئی ہو وہی بھائی ہیں جو تمہیں بیچ راستے میں چھوڑ کر گئے تھے”
ننا کی سخت ناراضگی کے بعد بلاآخر فرحین نے عکس سے بات کرنے کا وعدہ کیا اور فون بند کردیا
__________________
افراح اور عیسیٰ ایک خوبصورت سے ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ پاکستان میں یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ عیسیٰ کسی لڑکی سے پہلی بار یوں اکیلے مل رہا تھا۔ تھوڑا سا کنفیوزڈ سا تھا۔ مگر افراح بلکل نارمل اور پر اعتماد نظر آرہی تھی۔
“یہ میرا پاکستان میں فیورٹ ریسٹورنٹ ہے, یہاں لینڈ کرتے ہی سب سے پہلا کھانا میں یہاں آکر کھاتی ہوں”
افراح نے ہنستے ہوئے اجنبیت کو توڑنے کی کوشش کی عیسیٰ بھی مسکرایا۔
“ہاں یہاں کا فاسٹ فوڈ نیکسٹ لیول ہے”
عیسیٰ اکیلا نہیں آیا تھا تین دوست اس کیساتھ تھے۔ اسی طرح افراح بھی اپنی ایک دوست کے ہمراہ آئی تھی۔ لیکن وہ انہیں اکیلا چھوڑ کر خود آگے پیچھے ہوگئے تھے۔
بےبی پنک کلر کا پاکستانی ڈریس دوپٹے کے ہمراہ کندھوں تک آتے سیاہ بال کانوں میں چھوٹی چھوٹی سلور جھمکیاں ہلکا سا نیچرل میک اپ۔ وہ بلکل عیسیٰ کی پسند کی مناسبت سے سج سنور کر آئی تھی۔ دونوں میں اتنی دوستی تو ہوگئی تھی ایک دوسرے کی پسند نا پسند سے آگاہ ہوچکے تھے۔
“تم فون پر زیادہ ایزی رہتے ہو ہے ناں؟”
افراح عیسیٰ کے اس گریز کو سمجھ چکی تھی۔ جتنی جلدی وہ فون پر گھل مل جاتا تھا اتنا ہی وہ سامنے بیٹھ کر کچھ کھچا کھچا سا لگ رہا تھا۔
“کبھی کسی لڑکی سے ملا نہیں ہوں, مجھے آئیڈیا نہیں ہے لڑکیوں سے کیسے ملا جاتا ہے”
وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتا تھا۔ بار بار بالوں میں بلا وجہ ہاتھ پھیر کر خود کو نارمل ظاہر کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ افراح اس کی مشکل سمجھ سکتی تھی اسلئے بار بار ہنس رہی تھی۔
“تم ہنس رہی ہو مجھ پر؟”
عیسیٰ نے اب اسکی آنکھوں میں اپنی گہری سخت آنکھیں ڈالیں۔ افراح ان نظروں میں خود کو ڈوبتا ہوا محسوس کرنے لگی۔ اس کی ہنسی کو بریک لگ گئے۔ وہ منجمد ہوگئی تھی۔ عیسیٰ نے ایک دو سیکنڈ اسے اسی طرح دیکھا پھر نظریں ادھر ادھر پھیر لیں۔
“تمہارے چہرے پر تمہاری آنکھیں سب سے زیادہ پیاری ہیں”
افراح کے منہ سے اپنے لئے تعریف سن کر اس نے بہت اچھا محسوس کیا۔ حالانکہ اسے سب یہی کہتے تھے سوائے عکس کے۔
“مجھے پتا ہے سب یہی کہتے ہیں”
عیسیٰ مغرور سا ہوا۔ افراح پھر ہنس پڑی۔
“یہ میں تمہارے لئے لائی تھی”
افراح نے اس کے سامنے ایک گفٹ باکس رکھا۔
“شیر مار تو دیتی ہو, اب اس کی کیا ضرورت تھی”
عیسیٰ نے اس شیر کا حوالہ دیا۔ جو لائیو میں افراح نے اسے سینڈ کیا تھا۔
“گفٹس ضرورت پوری کرنے کیلئے نہیں دئیے جاتے۔ ہم گفٹس اس لئے دیتے ہیں کیونکہ ہمیں اچھا لگتا ہے، اور تم میرے دوست ہو, تم بھی مجھے گفٹ دے سکتے ہو کنجوس آدمی”
افراح پھر ہنسنے لگی عیسیٰ اس کی ہنسی میں کھو گیا تھا۔ ایک تو باریک آواز اوپر سے کھلکھلاتا نسوانی قہقہہ کسی بھی مرد کے ایمان کو ڈگمگا سکتا تھا۔ عیسیٰ دل ہارنے لگا تھا۔ وہ بھول بیٹھا تھا اس کے دل میں ایک عکس پہلے سے موجود تھا۔
دنوں نے دو گھنٹے ساتھ گزارے۔ ایک ساتھ تصاویر لی گئیں۔ پھر باقی دوستوں کے ساتھ گراؤنڈ میں جاکر کرکٹ کھیلی گئی۔ اور پھر دونوں اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ آئے۔
__________________
عیسیٰ کو اسٹالک کرنے بہت گندی عادت عکس کو پڑی ہوئی تھی۔ کبھی وہ اس عادت سے خود کو روکنے کیلئے مصروف ہو جاتی اور پھر دوبارہ سے وہ یہی سب کرنے لگتی تھی۔ آج بھی کافی خود کو معروف رکھنے کے بعد عکس اس کی پروفائل پر چلی گئی۔ جوں ہی عیسیٰ کے فالورز کو اس نے اسکول ڈاؤن کیا وہاں ایک نیا نام اسے اپنی طرف کھینچ کر لے گیا۔
“افراح”
اس نے زیر لب نام دہرایا۔ پروفائل اوپن کی۔ اسکرول ڈاؤن کی۔ عیسیٰ کی گیمنگ پروفائل, عیسیٰ کا گیمنگ کیریکٹر, عیسیٰ کی ہینڈ رائٹنگ, عیسیٰ کا آٹو گراف, پاکستانی معروف ریسٹورنٹ, ڈنر ٹیبل, عیسیٰ کے شوز, لڑکی کے ایکریلکس لگے ہاتھ, پلے گراؤنڈ, لڑکی کے فالوورز میں عیسیٰ کا نام, عکس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ دل پوری شدت سے دھڑکنے لگا۔ سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔
کانپتے ہاتھوں سے اس نے عیسیٰ کو فون ملایا۔ کاٹ دیا گیا۔ اس نے پھر ملایا۔ پھر کاٹ دیا گیا۔ اس نے ایک بار پھر نمبر ڈائل کیا۔ ایک بار پھر کاٹ دیا گیا۔
عکس کا سانس پھولنے لگا۔ وہ دیوار کے سہارے سے کارپٹ پر بیٹھی اس کے ہاتھ ابھی بھی کانپ رہے تھے۔ پورے تیس منٹ وہ مسلسل کالز ملاتی رہی پہلے اس کی کال ریجکٹ ہوئی اس کے بعد اس کی کال کو اگنور کیا جاتا رہا۔
عکس نے ساتھ ساتھ میسجز بھیجنے شروع کئے۔ جو سین ہی نہیں کئے گئے۔
“عیسیٰ”
“عیسیٰ افراح کون ہے؟”
“عیسیٰ تمہاری فالونگ لسٹ میں ایک لڑکی ہے”
” تم دونوں نے ایک دوسرےکو فالو کیا ہوا ہے”
“عیسیٰ وہ لڑکی کون ہے؟”
“تم اس سے ملنے گئے عیسی؟”
“عیسیٰ تم نے پرامس کیا تھا ہمارے بیچ کوئی لڑکی نہیں آئے گی”
“عیسیٰ تم میرا فون اٹھاؤ”
“عیسیٰ مجھ سے سانس نہیں لی جارہی”
“عیسیٰ میں رو رہی ہوں”
“فون اٹھاؤ عیسیٰ”
“میرا دل بند ہو جائے گا عیسیٰ”
اس کے دل میں جو آتا وہ لکھتی اور بھیجتی گئی۔ میسجز کے انبار لگا دئیے تھے اس نے۔ واٹس ایپ کالز, انسٹا کالز, عیسیٰ کے نمبر پر کال, سب کچھ وہ ٹرائی کر چکی تھی مگر عیسیٰ خاموش بیٹھا تھا۔ کسی قسم کا کوئی رسپانس نہیں دیا تھا اس نے۔
وہ دیکھ رہا تھا نوٹیفیکیشنز۔ عکس کی تڑپ۔ وہ جانتا تھا عکس رو رہی ہوگی مگر وہ عکس کیلئے بےحس بن گیا تھا۔ کیونکہ زندگی میں ایک نیا شخص آنے لگا تھا۔ نا صرف زندگی میں بلکہ دل میں بھی۔ وہ اس پرانے شخص سے اب بیزار ہورہا تھا۔
عیسیٰ نے فون پاور آف کیا۔ اور سو گیا۔ عکس ساری رات روتی رہی۔ ہچکیاں لے کر روتی رہی۔ عیسیٰ کے سارے نمبرز بند تھے۔ فجر کی اذانیں ہونے لگیں۔ روتے روتے اس کی آنکھوں کے پپوٹے سوجھ گئے۔ اس کے جسم میں رونے سے جان نہیں رہی تھی۔ مرے ہوئے قدموں سے اس نے وضو کیا جائے نماز بچھائی۔ رکوع و سجود میں عکس کے آنسو جائے نماز پر گرتے رہے۔ وہ خود کو رونے سے نہیں روک سکتی تھی, عیسیٰ اس کی واحد قیمتی چیز تھا عکس کیلئے کبھی کوئی چیز یا کوئی انسان اہم نہیں رہا تھا۔ وہ کسی چیز کے غم میں نہیں پڑتی تھی۔ جو نہیں ملا سو نہیں ملا۔ کوئی خواہش عیسیٰ سے بڑھ کر نہیں تھی۔ زندگی کی فہرست میں ایک نام ہی تھا عیسیٰ کا نام اس سے آگے کوئی نا اس کے پیچھے کوئی۔
_________________
صبح عیسیٰ معمول کے برعکس جلدی بیدار ہوا۔ جب کوئی نیا شخص زندگی میں آئے تو اس کے ساتھ رہنے کی چاہ بھی بڑی مسحور کن ہوتی ہے۔ اس نے اٹھ کر فون آن کیا۔ اور عکس کو رپلائے دیا۔
“خیریت اتنے میسجز؟ اتنی کالز؟”
عکس فون ہاتھ میں لیکر بیٹھی تھی۔ اس کے ہاتھ پھر سے کانپنے لگے۔ اس نے فون کیا عیسیٰ کو۔
“وہ لڑکی کون ہے عیسیٰ؟”
“دوست ہے”
مختصر جواب
“تم نے کب سے دوستیاں کرنی شروع کردیں ہیں؟”
“صرف میری ہی دوست نہیں ہے سب کی دوست ہے, ہم دبئی گئے تھے وہاں ملی تھی”
“عیسیٰ تم نے وعدہ کیا تھا کبھی کوئی لڑکی نہیں آئے گی”
عیسیٰ کی آواز میں آنسوؤں کی نمی تھی
“ہاں تو دوست ہے, دوستی نہیں کرسکتا کیا؟”
بدلا ہوا لہجہ۔ بدلی ہوئی آنکھیں۔ بدلا ہوا دل۔
“عیسیٰ لڑکے دوست ہیں ناں؟ اور تمہارے پاس میں ہوں۔ تمہاری دوست سارا ہے۔ عیسیٰ ہر لڑکی سے دوستی کرلینا تمہارا لیول نہیں ہے”
اس نے سمجھانے کی کوشش کی۔
“ہر لڑکی سے دوستی کہاں کی ہے؟ اب ایک دو دوستیں نہیں بناسکتا؟ تم بھی بنا لو دوست تمہیں منع کیا میں نے؟”
دھماکے کے اوپر دھماکے ہورہے تھے۔ اپنی دوستی رکھنے کی خاطر وہ عکس کو لڑکوں سے دوستی کرنے کا کہہ رہا تھا۔ وہ عیسیٰ جس نے عکس کے میل آرٹ ٹیچر کی وجہ سے عکس سے تین دن بات نہیں کی تھی۔ وہ اب اسے اپنے جیسا کرنے کو کہہ رہا تھا تاکہ عکس اس پر بات نا کرسکے۔
“میرے لئے تم کافی ہو مجھے نہیں ضرورت کسی دوست کی”
“عکس میری اور تمہاری شادی نہیں ہوسکتی۔ ماما نہیں چاہتیں ایسا, تم شادی کرلو۔ میرے پیچھے اپنی زندگی خراب مت کرو, میں تمہیں جھوٹے وعدے نہیں دلاسکتا”
کیا کہہ رہا تھا یہ شخص چار سال اپنی محبت میں گھسیٹنے کے بعد اسے عکس کے فیوچر کا خیال آرہا تھا۔
“تم افراح کی وجہ سے یہ سب کہہ رہے ہو؟”
“عکس وہ میری دوست ہے, میں کسی کی وجہ سے نہیں کہہ رہا۔ میری شادی کو ابھی بہت سال پڑے ہیں۔ میں تمہیں انتظار میں نہیں بٹھا سکتا, اور ماما راضی ہوں تب بھی انتظار میں بٹھاؤں, ماما تو صاف انکار کر چکی ہیں”
اپنی خاطر وہ شخص جس قدر بےحس بن چکا تھا۔ سب کچھ بھول گیا تھا۔
“عیسیٰ میں تمہارا انتظار کرسکتی ہوں”
اس نے عکس کو روتے ہوئے سنا۔
“عکس میں تمہیں کوئی جھوٹا وعدہ نہیں دوں گا, آگے تمہاری مرضی”
“عیسیٰ اس لڑکی کو چھوڑ دو, مجھے یہ تکلیف نہ دو”
عکس نے رو کر فریاد کی اسے وہم تھا وہ روئے گی اور عیسیٰ ہر چیز چھوڑتا جائے گا۔
“عکس وہ میری دوست ہے اور میں کسی کے کہنے پہ کسی کو نہیں چھوڑتا”
سخت دل کرخت آواز۔
تم میرے کہنے پہ سب کچھ چھوڑ دیتے تھے”
عکس کی سسکیاں عیسیٰ کا دماغ خراب کرنے لگی تھیں۔ جس کا رونا اس کا دل غمگیں کردیا کرتا تھا آج اس لڑکی کا رونا عیسیٰ کو کسی ڈرامے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔
کبھی کبھی ہم حد سے زیادہ رو کر اپنے آنسوؤں کو بےحسوں کے سامنے بےآبرو کرلیتے ہیں۔ نا آنسوؤں کی عزت رہتی ہے نا آنسو بہانے والے کی۔
“چھوڑ دیتا تھا, مگر تم پھر بھی خوش نہیں ہوتی تھی, اب میں تمہارے کہنے پہ یا کسی کے کہنے پہ اپنے دوستوں کو نہیں چھوڑ سکتا, میرے ساتھ رہنا ہے تو ایسے ہی رہو”
عیسیٰ پتھر کا بت بنی چکا تھا۔
“عیسیٰ تم غلط کررہے ہو”
“عکس مجھے زیادہ تنگ کیا تو میں بلاک کردوں گا”
دھمکی دی گئی۔
“عیسیٰ تمہیں میرے آنسو سنائی دے رہے ہیں؟”
“عکس تم میرے ساتھ بھی روتی ہی ہو کیا فائدہ میرے ہونے کا”
“تو عیسیٰ تم مجھے رلاتے ہو ہو تو میں روتی ہوں, تم بدل گئے ہو پہلے تم میری ساری باتیں مانتے تھے”
“عکس میں بچہ نہیں رہا, پلیز مجھے زیادہ تنگ مت کرو میں وللہ تمہیں ہر جگہ سے بلاک کردوں گا”
اس کے لہجے کی بیزاریت سے لگ رہا تھا وہ عکس سے تنگ پڑ چکا ہے۔
“پلیز عیسیٰ اس لڑکی سے دور ہو جاؤ”
عکس نے پھر منت کی۔
“تمہارے کہنے پہ کیا کیا چھوڑوں؟ اپنی مرضی سے سانس نہیں لے سکتا میں؟ میں اپنی مرضی سے خوش نہیں ہوسکتا؟”
وہ پھٹ پڑا۔ محبت میں کچھ باقی رہے نا رہے احترام باقی رہنا چاہئے۔ عکس نے اپنی ذات کو ہلکا کردیا تھا۔ جس جگہ آپ کو رکھا نا جاسکتا ہو اس جگہ خود کو مجبوراً فٹ کرنے کی خواہش ذلالت ہی بنتی ہے۔
“تمہاری خوشی افراح کے ساتھ ہے؟”
“وہ میری دوست ہے”
“اتنی گہری دوستی کے وہ تمہاری تصویریں لگاتی پھر رہی ہے؟”
“دوست تصویریں نہیں لگاسکتے؟”
“عیسیٰ تم میرے ساتھ غلط کررہے ہو”
وہ روئی۔ اسکی آواز بیٹھ گئی تھی۔
سوال پہ سوال۔ عیسیٰ اپنی غلطی مانتا ہی نہیں تھا کیونکہ اسے لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ غلط ہے۔ اسے ابھی بھی نہیں لگا رہا تھا کہ وہ عکس کیساتھ غلط کررہا ہے۔ لڑکے تو دوستیاں رکھتے ہی ہیں۔ اور غلط تو وہ تب تھا جب وہ صرف عکس کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ تو اسکا حق تھا وہ مرد تھا چار شادیاں کرسکتا تھا تو دوستیاں بھی کرسکتا تھا۔ پھر خود کو غلط کیسے مانتا۔
“میں تمہارے ساتھ اچھا بھی کروں نا تب بھی میں ہی غلط ہوتا ہوں۔ مجھے اب ایک بھی کال آئی تو میں بلاک کردوں گا”
عکس سسکیاں لے کر رو رہی تھی۔ عیسیٰ سے زیادہ دیر سنا نہیں گیا۔
اس نے فون بند کیا۔ عکس نے پھر فون ملایا۔ عیسیٰ نے فون کاٹ دیا۔ اور ساتھ ہی عکس کو بلاک کردیا۔ عکس نے انسٹا پہ کال کی عیسیٰ نے انسٹا سے بلاک کردیا۔ عکس نے نمبر پر کال کی عیسیٰ نے نمبر بلاکڈ کردیا۔ عکس نے دوسرے نمبر سے کال ملائی اس نے عکس کی آواز سنی اور اس نمبر کو بھی بلاک لسٹ میں ڈال دیا۔
جاری ہے …
(اشنال)