Delusion – Episode 4

“میں پاکستان کی لڑکیوں کو منہ نہیں لگاتا دبئی کی بڑے بڑے ہونٹوں والی لڑکیوں کو کیوں منہ لگاؤں گا”
عیسیٰ نے اس جھگڑالو ماحول کو ہلکا کرنے کی کوشش کی۔
“میں تمہیں یقین دلانے کیلئے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اندر کی لڑکیاں ہوں یا باہر کی تمہارے علاؤہ مجھے کسی لڑکی میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے”
عیسیٰ نے تسلی دی لیکن عکس کو تسلی ہوئی نہیں۔
پچھلے ایک گھنٹے سے عکس اس سے لڑرہی تھی اس بات پر جس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
“دبئی کی الٹرا ماڈرن بولڈ لڑکیاں دیکھ کر تم مجھے بھول گئے تو؟”
عکس کے اندر ایک خوف پیدا ہو رہا تھا۔ اور محبت میں جب کسی قیمتی چیز کے چھن جانے کا خوف پیدا ہو جائے تو انسان کے اندر کا سکون غارت ہو جاتا ہے۔
“عکس مجھے پاکستان میں لڑکیوں کی کمی ہے؟ میں لڑکیوں کے پیچھے جانے والا بندا ہوں ہی نہیں یار۔ اور یہ اس بات کا یقین میں تمہیں مر کر بھی نہیں کروا سکتا”
اب عیسیٰ تھک گیا تھا اسے سمجھا سمجھا کر۔
یوں لڑتے جھگڑتے عیسیٰ دبئی پہنچا۔
آنلائن گیمز کے مقابلے شروع ہوئے۔ یہ مقابلے بیس دن جاری رہے۔ عیسیٰ بہترین پلیئر تھا اور اس نے ثابت کردیا تھا۔ عیسیٰ کا نام سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر لیا گیا تھا۔ ان مقابلوں میں گوکہ پاکستان نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی مگر عیسیٰ پلیئرز لسٹ میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرکے اپنا اور پاکستان کا نام منوا چکا تھا۔
بیس دن عکس سے کبھی بات ہوتی تھی کبھی نہیں۔ عیسیٰ اور عکس کے درمیان شہوں کا فرق تو شروع سے تھا ہی مگر ملک سے دور جانے پر عکس کے اندر عیسیٰ کو کھو دینے کا جو خوف پیدا ہوا وہ بہت جان لیوا ثابت ہوا۔
جب ہم گھر کی دنیا سے نکل کر باہر کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو بہت سے لوگوں سے ہماری ملاقات ہوتی ہیں۔ ایسے ہی ایک میٹ اینڈ گریٹ میں عیسیٰ کی دوستی ایک انڈین ان میرڈ کپل سے ہوگئی۔ لڑکی کا نام سارہ تھا اور لڑکے کا نام سیف تھا۔ اور یہ دوستی اتنی گہری ہونے لگی کہ عیسیٰ کا زیادہ وقت انہی لوگوں میں گزرنے لگا۔
عیسیٰ نے عکس سے پہلا جھوٹ یہ بولا کہ سارہ اور سیف میرڈ کپل ہیں۔ اور اس جھوٹ کی وجہ یہ تھی کہ عکس کبھی بھی عیسیٰ کو ایک ان میرڈ لڑکی سے دوستی کی اجازت نہیں دے سکتی تھی خواہ اسکا کوئی منگیتر کیوں نا ہو۔ یہ پہلا جھوٹ بولا گیا تھا۔
اس کی نیندیں ڈسٹرب رہنے لگیں۔ وہ دو منٹ سوتی اچانک آنکھ کھلتی اسے پہلا خیال عیسیٰ کا آتا وہ فوراً اس کے سوشل اکاؤنٹس کی طرف جاتی۔ عیسیٰ سے بات کرنے کے بعد بھی وہ بے چین رہتی تھی۔ محبت میں جب کچھ برا ہونے والا ہو تو عورت کے اندر خود بخود بے چینی اور اضطراب جنم لینے لگ جاتا ہے۔ وہ ایسے خیالات جھٹکتی تھی۔ نیگیٹو سوچوں سے دور رہنا چاہتی تھی۔ حتیٰ کہ وہ عیسیٰ کو زیادہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ مگر جو جو کام وہ نہیں کرنا چاہتی تھی وہی کام وہ کرتی چلی جارہی تھی۔
اس نے سوچا تھا وہ عیسیٰ سے محبت تو کرے گی مگر اسے اپنے دل تک اتنی زیادہ رسائی کبھی نہیں دے گی کہ عیسیٰ نام کا خوف اس کے اندر کنڈلی مار کر بیٹھ جائے۔ لیکن سب کچھ اب اس کی سوچوں کے برعکس ہونے لگا تھا۔
ان دنوں سارہ کے اصرار پر عیسیٰ نے عکس اور سارہ کی آپس میں بات کروائی۔ عکس ریزروڈ رہنے والی لڑکی تھی۔ اس نے سارہ سے عزت سے بات کی مگر زیادہ فرینکنس نہیں دکھائی۔ دوسری طرف سارہ عکس کو بھابھی, بھابھی کہہ کر چھیڑتی رہی۔
عکس کیلئے یہ بات بہت گہری تھی کہ عیسیٰ دور جاتے ہیں ایک لڑکی کو زندگی میں شامل کرچکا تھا۔ لیکن عیسیٰ کیلئے یہ بات بہت ہی عام تھی۔ وہ اس لڑکی کو بہن مان چکا تھا اور اس لڑکے کو اپنا بڑا بھائی۔ اور یہ بات عیسیٰ چاہتا تھا عکس بھی تسلیم کرلے۔
____________

“کانگریجولیشنز عیسیٰ”
ایک نازک سی نسوانی آواز اسے اپنے پیچھے سنائی دی اس نے پلٹ کر دیکھا۔ بائیس تئیس سال کی گوری سی لڑکی, کندھوں تک آتے خوبصورت سیاہ بال۔ہرے رنگ کا پاکستانی ڈریس, چھوٹی چھوٹی آنکھیں, لمبے سرخ ناخن, گلے میں دوپٹہ۔ وہ عیسیٰ کو دیکھ کر مسکرائی۔ عیسیٰ نے مصروف سے انداز میں جواب دیا۔ وہ دونوں اس وقت ایک میڈیکل اسٹور پر موجود تھے۔ عیسیٰ اپنے سر درد کی گولیاں لینے ایک فرینڈز کے ساتھ آیا تھا اور وہ لڑکی بھی شاید کوئی میڈیسن لینے ہی یہاں تک آئی ہوگی۔ اور وہ عیسیٰ کو اچھی طرح جانتی تھی۔ جس طرح اس نے پر اعتماد ہوکر عیسیٰ سے بات چیت شروع کی تھی۔ وہ لڑکی مزید بات کرنے کی خواہشمند تھی مگر عیسیٰ تیزی سے وہاں سے نکل گیا۔
لڑکی کی نظروں نے دیر تک اس کا پیچھا کیا۔ مگر عیسیٰ نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی غلطی نہیں کی۔ کسی کی نظروں کی تپش عیسیٰ محسوس کرچکا تھا مگر اس نے مڑ کر دیکھنا ضروری نہیں تھا۔
____________

گرمیوں کی چھٹیوں میں عکس بچوں کو آرٹ سکھانے ایک مقامی اسکول جایا کرتی تھی۔ وہ صبح نو بجے جاتی اور ایک بجے تک واپس آجاتی۔ وقت کی پابندی میں, ریگولر کلاسز لینے میں کوئی عکس کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ بہت ساری ٹرافیز عکس کو صرف وقت کے پابند طالب علم کی حیثیت سے ملی تھیں۔ آج معمول کے برعکس گیارہ بجے ہی وہ گھر لوٹ آئی۔
“ہاف ڈے تھا آج؟”
ننا نے پوچھا
“نہیں ننا! سر میں درد تھا, دل نہیں لگ رہا تھا, آپ جانتے ہیں آرٹ تو دل سے ہوتا ہے, بس واپس آگئی میں”
وہ کرسی پر بیٹھی اپنا سر ہلکا ہلکا دبا رہی تھی۔
“کتنا کہا ہے تمہیں چیزوں کو یا انسانوں کو اپنے اوپر حاوی کرو گی تو ذرا سا بھی چل نہیں پاؤ گی”
ننا اسے دیکھ کر پریشان ہونے لگے۔ کیسے بچاتے وہ عکس کو, وہ خود سمجھ نہیں پارہے تھے
“کچھ چیزیں خودبخود ہمارے پیروں سے لپٹ جاتی ہیں ننا”
عکس نے بےبسی سے کہا پھر گلاس پانی سے بھرا اور گھونٹ بھرنے لگی۔
“ننگے پاؤں چلو گی اور چاہو گی کہ پیروں پر میل بھی نا آئے تو تمہاری کم عقلی ہے نا پتر”
“آپ تو میرے ساتھ گھر آتے ہیں آپ کیوں گھر پر ہیں آج”
عکس نے باتوں کا رخ دوسری طرف کرنا چاہا
“میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں, زندگی گزار چکا ہوں, گھر جلدی آؤں گا تب بھی کچھ نہیں بدلے گا اور دیر سے گھر پہنچا تب بھی کچھ نقصان نہیں ہوگا”
عکس ان باتوں سے بچنا چاہتی تھی اسے اکیلے رہنا تھا وہ جواب نہیں دینا چاہتی تھی اس لئے کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے اٹھی اور کمرے میں چلی گئی۔
“ہم بوڑھے اپنے بچوں کو ان چیزوں کی خواہش سے کیسے بچائیں جو ان کی روح زخمی کردینے والی ہیں”
ننا نے مایوسی سے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا۔ وہ جانتے تھے وہ فرحین کے باپ ضرور تھے مگر فرحین کو زبردستی عیسیٰ اور عکس کی شادی پر راضی نہیں کرسکتے تھے۔ کیونکہ فرحین نے بہو کی نظر سے ہمیشہ اپنے بھائی کی بیٹی کو دیکھا تھا۔ عکس اور عیسیٰ کی دوستی تو بس اس لئے فرحین نے کروائی تھی تاکہ دونوں بچے باہر کے خراب دوستوں اور بری صحبت سے بچ کر آنکھوں کے سامنے رہ سکیں۔ لیکن جب بچے بڑے ہوکر خود والدین کے رتبے پر آجائیں تو وہ خود کو زیادہ صحیح راہ پر سمجھنے لگتے ہیں۔ اور ننا نہیں چاہتے تھے کہ عکس کسی کی ان چاہی بن کر رہے۔صرف عیسیٰ کے چاہنے سے عکس کو عزت نہیں مل سکتی تھی۔ ان کی اپنی سوچ تھی ایک۔

____________
جیساکہ عیسیٰ ہر رات ایک سوشل پلیٹ فارم پر لائیو آیا کرتا تھا ۔ اور وہیں عیسیٰ کا ایک دوست ولاگر تھا۔ وہ دوست اپنے ولاگز میں اگلے دن کہاں جانا تھا اور کیا کرنا تھا سب بتایا کرتاتھا۔ وہ لڑکی جو عیسیٰ کو ملی تھی اس کا نام افراح تھا۔ وہ ہر اس جگہ پہنچ جاتی جہاں عیسیٰ کی ٹیم نے اپنا دن اسپینڈ کرنا ہوتا تھا۔ وہ کافی امیر گھرانے سے تھی۔ اسے لڑکوں سے بات کرنے کا ہنر آتا تھا۔ بہت پر اعتماد تھی۔ ہر کسی کی توجہ حاصل کرلینا اسکی فیورٹ ہابی تھی۔ آہستہ آہستہ اس نے سب سے دوستی شروع کی۔ عیسیٰ بھی نا چاہتے ہوئے اس دوستی کا حصہ بنتا گیا۔
جانے سے پہلے دونوں میں اتنی دوستی ہوچکی تھی کہ دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر الوداع کہا تھا۔
_____________

عیسیٰ نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا۔ ائیر پورٹ کے باہر لوگ پھول لئے کھڑے تھے۔ پہلی بار اس قسم کا کوئی ٹورنامنٹ ہوا تھا اور پاکستان نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی, عیسیٰ کیلئے تو یہ کمیونٹی دیوانی تھی۔ دنیا کے ٹاپ ٹینز خوش قسمت لوگوں میں اگر شمار کیا جاتا تو عیسیٰ انہی دس لوگوں میں پایا جاتا۔
وہ گھر پہنچا ماما سے پاپا سے ملا اور سو گیا۔ اب عیسیٰ نے چوبیس گھنٹے سو کر گزارنے تھے
عکس کو ایک میسج ملا۔ “گھر پہنچ گیا ہوں اب سورہا ہوں اٹھ کر بات کرتا ہوں, تھک گیا ہوں”
عکس دیر تک فون کو دیکھتی رہی۔ وہ عیسیٰ کے قریب ہوتی جارہی تھی اور عیسیٰ اس سے دور ہوتا جارہا تھا۔ یہ اس کا وہم تھا یا پھر حقیقت تھی۔ جسے صرف عکس محسوس کررہی تھی۔ مقابل کیلئے یہ عام حالت تھی۔ وہ جیسے گیا تھا ویسا ہی لوٹا تھا۔ عکس کی منفی سوچیں تھیں۔ یہ عیسیٰ کا کہنا تھا۔
وہ اپنی ماں کو یاد کرکے روئی تھی۔ اپنے بابا کو یاد کرکے روئی تھی جن کو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ نا ہی ان کی تصویریں تھیں عکس کے پاس۔ بس دو وجود تھے جنہیں وہ یاد کرکے کبھی کبھار رو لیا کرتی تھی۔ وہ عیسیٰ کے لئے اور عیسیٰ کی وجہ سے پریشان ہوا کرتی تھی مگر روتی نہیں تھی۔ آج کچھ مختلف ہونے والا تھا۔ عکس کا دل بھرا ہوا تھا۔ اس سے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا گیا۔ عشاء کی نماز اس نے بےدلی سے پڑھی۔ جب ذہن میں بہت سارے منفی خیالات جمع ہونے لگ جائیں تو عبادتوں میں بس رکوع و سجود ہی رہ جاتے ہیں انسان اوپر نیچے ہوکر اٹھ جاتا ہے کچھ سمجھ نہیں آتی اس نے کیا پڑھا اور کیا نہیں۔
جائے نماز اٹھا کر اپنی جگہ رکھ کر وہ کمرے سے ملحق اپنی آرٹسٹک گیلری کی طرف بڑھی۔ جہاں اس نے اپنے شاہکار رکھے ہوئے تھے۔ اس ایک مہینے میں اس نے اتنی زیادہ ادھوری پینٹگز بنائی تھیں جتنی وہ ایک سال کے عرصے میں بنایا کرتی تھی۔ اور کسی ایک کو بھی مکمل نہیں کرسکی تھی۔ وہ سارے ادھورے ڈیزائنر کارپٹ پر پھیلا کر ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ ایک کاغذ پر ادھورا شیر۔ ایک پر بوڑھا پیڑ جس کی ٹہنیاں اور پتے سب غائب تھے۔ ایک اور کاغذ پر ایک پھیلایا ہوا ہاتھ تھا جس کی لکیریں الجھی ہوئی تھیں۔ اور آخری کاغذ پر عقاب کی دو خوفناک آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں۔ عکس کے لب ہلے
سوتے سوتے آنکھ اچانک کھل جاتی ہے
ایک ہی خدشہ نیند اڑا کر لے جاتا ہے
خواب میں اڑتا آتا ہے اک مبہم سایہ
مجھ سے تیرا ہاتھ چھڑا کر لے جاتا ہے
عکس کی آنکھوں میں جنبش ہوئی۔ دونوں آنکھیں آنسوؤں سے لبالب بھریں اور پھر اس کے گال بھیگنے لگے۔ وہ رو رہی تھی۔ وہ کیوں رو رہی تھی؟ عیسیٰ کو کھو دینے کا خوف اس پر طاری ہوچکا تھا۔
نیند میں عیسیٰ بے چین ہوا اس نے کروٹ بدلی آنکھیں کھولیں, پھر اندھیرے میں فون کو ڈھونڈا, فون ان لاک کیا, عکس کا کوئی میسج نہیں تھا, کوئی کال نہیں تھی, کوئی ریپلائے نہیں تھا, خاموشی تھی, اس نے برا فیل کیا, فون کو ہاتھ سے دور پھینکا تکیے کو منہ پر رکھا اور نیند میں چلا گیا۔

جاری ہے……..

(اشنال)

 

4 thoughts on “Delusion – Episode 4”

  1. getting interesting wth evry episode..
    eesa jesa tha wesa aya but aks ki manfi sochen sath nae chor rahin.. aur aurat ki gut feeling pe bi yaqeen hai mujy wo sach kehti hai us mard k liay jo apky liy bht khas ho.. tu kia muhabbat main tabah bas aks hogi????? 🤔 lets see agay kia hota hai…

  2. Amazing…. Apki observation kamal ki … ilfaaz… Sb kuch aam sa aik love story mgr baatian wo jo hum ksi relation me hota hwa feel krta jo kehna chahta keh na pata … Kmaal Syeda..

Your thoughts matter – share them below!

Scroll to Top