Delusion - Episode 3
ننا پاک فوج کے ریٹائرڈ آفیسر تھے۔ وقت کے پابند تھے۔ شگفتہ مزاج کے مالک تھے۔ نرم دل, صاف گو انسان تھے۔ مری کے پہاڑی بچے انہوں نے اپنے دوست بنا رکھے تھے۔ وہ بچوں سے وعدہ کرتے تھے جو بچہ اسکول ریگولر جائے گا اسے ہولی ڈے پر چاکلیٹس ملیں گی۔ یہ سلسلہ کافی عرصے سے چلا آرہا تھا۔ آج بھی سنڈے تھا۔ اور گھر کے لان میں ننا بچوں کو کہانی سنارہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی عکس لان کے ایک سائیڈ پینٹنگ بناتے ہوئے ننا کی کہانی سن رہی تھی۔
“ایک پیاری سی شہزادی گھر کا راستہ بھول گئی۔ اور شام ہوگئی۔ اس کے پاس کوئی قندیل نہیں تھی ۔ اسے ڈر لگ رہا تھا کہ رات ہوگئی تو اندھیرا ہو جائے گا اور اسے گھر کا راستہ نظر نہیں آئے گا”
سب بچے پوری توجہ سے ننا کی کہانی سننے میں محو تھے۔
“چلتے چلتے اسے راستے میں ایک کالا خوفناک لمبے دانتوں والا گندے بالوں والا جن نظر آیا۔ شہزادی کو پہلے اس سے خوف آیا مگر جب اس جن نے شہزادی کو مسکرا کر دیکھا تو شہزادی کو حوصلہ ہوا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے جن سے کہا۔ اے پیارے جن کیا تم مجھے میرے گھر تک لے جاؤ گے؟”
عکس اپنی پینٹگ کو آخری ٹچ دے رہی تھی۔
“جن نے مسکرا کر سر ہلایا اور شہزادی اس کے پیچھے چلنے لگی۔ جن نے شہزادی سے سوال کیا۔ تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا؟ لوگ تو جنوں سے ڈرتے ہیں؟ شہزادی کہنے لگی۔ تم میری مدد کررہے ہو۔اور مدد کرنے والوں سے ڈرنا نہیں چاہئیے”
ننا سانس لینے کو رکے پھر کہنے لگے۔
“جن نے شہزادی سے کہا! سنو شہزادی! ہر مدد کرنے والے پر بھروسہ نہیں کرلینا چاہئیے, میں مسکرایا اس لئے کیونکہ میں تمہارا اعتماد حاصل کرنا چاہتا تھا, اب تم میرے ساتھ بغیر کسی خوف کے چل رہی ہو, اب میں کسی بھی وقت تم پر حملہ کرسکتا ہوں”
اب عکس کی ساری توجہ ننا کی کہانی کی طرف جانے لگی
“شہزادی کو اب بھی جن سے ڈر نہیں لگا, کہنے لگی تم اچھے جن ہو تم میرے ساتھ برا نہیں کرو گے۔ جن ہنسنے لگا ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ پھر اس نے شہزادی سے کہا۔ تم جیسی کتنی شہزادیاں ہنستے ہنستے ہم نے کھالی ہیں”
عکس کا دل رک گیا تھا
“تم مجھے کیوں کھاؤ گے میں نے تمہارے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا. شہزادی کی بات سن کر جن پھر سے ہنسنے لگا۔ میں تمہیں یہاں چھوڑ کر جانے سے پہلے دو نصیحتیں کروں گا۔ پہلی یہ کہ گھر واپس جانے کیلئے کبھی شام کا انتظار مت کرنا۔ کیونکہ اندھیرے میں واپسی ناممکن ہوتی ہے۔ اور دوسری نصیحت یہ کہ انسان ہو یا جن کبھی کسی اجنبی پر بھروسہ مت کرنا۔ کوئی مسکرا کر دیکھے یا پیار سے دیکھے اسے اپنا شہزادہ مت سمجھ لینا۔ کیونکہ اب دنیا میں شہزادیوں کیلئے شہزادے نہیں اترتے”
عکس کو آج پہلی بار ننا کی سنائی کوئی کہانی بری لگی تھی
“شہزادی ڈرنے لگی تو جن نے کہا میں تمہاری مدد نہیں کروں گا۔ میں تمہیں اس اندھیرے راستے میں چھوڑ کر جاؤں گا۔ اور مجھے بلکل پرواہ نہیں تمہیں جانور کھا جائیں یا انسان۔ کیونکہ جس کو اپنا خیال خود نہیں رکھنے آتا اس کا خیال کوئی جن کیوں رکھے؟ شہزادی روتی رہی, چیختی رہی, پکارتی رہی, لیکن جن نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا”
ننا کی کہانی ختم ہوئی تو ایک بچے نے پوچھا
“ننا جی! پھر شہزادی اپنے گھر کیسے پہنچی؟”
“بچو شہزادی گھر نہیں پہنچ سکی۔ اسے راستے میں جانوروں نے کھا لیا تھا”
سب بچے ڈر سے گئے تھے۔
“بچو جب بھی گھر سے کھیلنے نکلو تو گھر بتاکر جاؤ یا کسی بڑے کو ساتھ لیکر جاؤ یا زیادہ دور مت جاؤ اور شام سے پہلے گھر واپس آجایا کرو۔ ورنہ آپ کو بھی جانور کھا جائیں گے”
سب بچو نے سر ہلایا ۔ ننا نے سب میں چاکلیٹس بانٹیں۔ بچے اپنے اپنے گھر جانے لگے۔ ننا عکس کے پاس آکر رکے عکس بت بنی کھڑی تھی۔
“عکس پتر اندھیرا پھیل رہا ہے۔ تو وی واپس آجا”
ننا نے عکس کے سر پر اپنا بھاری ہاتھ رکھا عکس کو اپنا وجود بھاری محسوس ہوا۔ وہ سوچنے لگی۔ کیا محبت کرنا اتنا ہی بھاری پڑتا ہے؟ ابھی تو اس نے محبت میں پہلا قدم رکھا تھا ابھی سے اسے الو ڈرانے آرہا تھا۔
________
کوئی یقین کرے گا یہ میٹرک فیل ایک ڈاکٹر کا بیٹا ہے”
ڈاکٹر فرحین نے عیسیٰ کے اوپر سے کمبل کھینچا عیسیٰ نے کروٹ بدلی
شام کے ساڑھے پانچ ہورہے تھے اور جناب نے اٹھنے کی زحمت نہیں کی تھی
سانولی رنگت, بھورے سلکی بال, بھرے ہوئے ابرو, موٹے ہونٹ, آنکھوں اور ابروز کے درمیان بہت تھوڑا فاصلہ, گالوں پر نمایاں کھڈے, جنہیں ڈمپل کہا جاتا ہے, چہرے کے اطراف اسٹائلش سی داڑھی , ہونٹوں کے کناروں کو چھوتی ہوئی مونچھیں, آنکھیں کھول کر گھور کر دیکھے یا پیار سے غصے سے دیکھے یا شرارت سے دیوانہ بنا جاتا تھا, وللہ اسکی آنکھیں, وللہ اسکا دیکھنا, آنکھوں سے نظر ہٹتی تو اسکی مسکراہٹ سے محبت ہونے لگتی, اتنا پیارا کون مسکرا سکتا تھا؟ جب وہ ہنستا تو سننے والا بےاختیار سبحان اللہ کہہ اٹھتا, بھاری آواز اسے اپنی عمر سے زیادہ بنادیتی تھی, انیس سال کا یہ پنجابی لڑکا, ہر ایک کے دل میں گھر کر جانے والا, اپنی بری خصلتوں اور اپنی بدمعاش حرکتوں کے باوجود ہر دل عزیز تھا۔
“عیسیٰ پتر اٹھ جا ناں ہور کنناں سونا ای؟”
انہوں نے عیسیٰ کو جھنجھوڑا جس نے مصنوعی ہنکارہ بھر کر گویا ماما کو تنگ کرنے کی کوشش کی, عیسیٰ کی یہی بچگانہ حرکتیں سب کو مجبور کرتی تھیں کہ اس سے پیار کیا جائے۔
لیکن زیادہ پیار اکثر بچوں کو بگاڑ دیتا ہے
“آپ کا میٹرک فیل بیٹا ایک دن میں اتنے پیسے کما سکتا ہے جتنے آپ اپنی پوری ڈاکٹری لائف میں نہیں کما سکیں”
وہی اپنے اوپر غرور۔
“جس دن کمائے گا نا اس دن دیکھوں گی”
دونوں ماں بیٹے میں نوک جھونک روز کا معمول
“آپ میرے گیمنگ روم کو ہلکے میں لے رہی ہیں ابھی اسٹارٹ لیا ہے اور ابھی سے میری فین فالونگ چیک کریں آپ “
“بیٹاجی اسکلز ہونی چاہئیں یہ گیمز ساری زندگی تو نہیں چلیں گی”
“آپ میری اسکلز سے واقف نہیں ہیں آپ رہنے ہی دیں , جس دن میں دنیا کے ٹاپ پلیئرز میں نام لیکر آؤں گا ٹرافی لیکر آؤں گا پھر میں بھی آپ کو اپنی ماما نہیں مانوں گا”
اس نے عجیب ہی کھچچ چھوڑی تھی
ڈاکٹر فرحین نے اس کے سر پر ایک چپت رسید کی اور ہنسنے لگیں
“اسی لئے ڈنگر بولتی ہوں”
“پاپا کی اتنی ساری کالز, خیر اے اینیاں کالاں تے میری جی ایف مینوں نہیں کیتیاں کدی”
اس نے اٹھتے ہی فون پکڑا
“ہنجی صبح سے دس ہزار بار وہ پوچھ چکے ہیں, پاسپورٹ بنانے جانا تھا آپ نے مگر جو گدھا سوئے ہی صبح وہ پھر شام میں ہی اٹھے گا ناں”
ڈاکٹر فرحین نے اسے یاد دلایا تو عیسیٰ نے اپنے سلکی بال ہاتھوں سے نوچ لئے
“ایسا نہیں ہے ماما میں جاگنے پر آؤں ناں تو اڑتالیس گھنٹے سے زیادہ جاگ سکتا ہوں بڑا سخت لونڈا ہوں میں”
عیسیٰ نے فون چارج پر لگایا اور واش روم گھس گیا
“تمہارے ماموں لوگ آرہے ہیں آج, پوری فیملی, بس پہنچنے والے ہیں تھوڑی دیر تک”
جن قدموں سے وہ گیا تھا انہی قدموں سے واپس پلٹا اور گھور کر پوچھا
“وجہ؟”
عیسیٰ کی جوانی میں پہلی بار آرہے تھے وہ لوگ حیرت تو بنتی تھی
“مستبشرہ یاد ہے تمہیں ؟”
ڈاکٹر فرحین بتانے کیلئے ایکسائٹڈ ہوئیں
“شکل یاد نہیں ہے نام یاد ہے”
عیسیٰ نے یاد کرنا ضروری بھی نہیں سمجھا
“تمہارے ماموں نے تمہیں مستبشرہ کیلئے پسند کیا ہے”
اسکی آنکھیں سرد ہوئیں چہرے کے تاثرات بھی سخت ہوگئے وہ پہلے والا نرم و ملائم عیسیٰ سے تبدیل ہوکر کچھ اور عیسیٰ بن گیا تھا۔ ڈاکٹر فرحین اس کے اس روپ سے ڈرتی تھیں۔ بلکہ سبھی ڈرتے تھے۔
“میں کوئی لڑکی ہوں؟ جو مجھے پسند کرلیا؟”
عیسیٰ نے ناک بھوں چڑھائے
“شکر کرو کسی نے تمہیں پسند کرلیا ہے ورنہ پتا نہیں میرے کتنے جوتے گھسنے تھے تمہارے لئے”
فرحین کی بات پر عیسیٰ نے بھنوئیں سکیڑے
“میں کسی کو منہ نہیں لگاتا۔ انباکس چیک کرلیں میرا۔ کبھی میری لائیو پر آکر دیکھا کریں, جوتے لوگوں کے گھسے ہوئے ہیں میرے ایک ریپلائے کیلئے”
یہ سچ بھی تھا جب آپ تھوڑا سا کامیاب ہوتے ہیں تو آپ کی فین فالونگ بھی بڑھ جاتی ہے۔
“جو بھی ہے تم دیکھ لینا اسے وہ بھی ساتھ آئے گی, پسند آجائے گی تمہیں”
” آپ کیا چاہتی ہیں؟ آپ کے بھائیوں نے مجھے پسند کرلیا اور اب میں آپ کی بھانجی کو پسند کرلوں؟”
وہی سرد نظریں سخت تاثرات کڑک آواز
“کافی سالوں بعد مجھے یہ موقع مل رہا ہے کہ میں اپنے بھائیوں اور اپنے درمیان جو دوریاں ہیں انہیں ختم کرسکوں”
انہوں نے ڈرتے ڈرتے بات مکمل کی
“استعمال کرنا چاہتی ہیں مجھے؟”
“تم کسی کو پسند کرتے ہو؟”
“مجھے عکس چاہئیے ماما, اس دن بتایا تھا آپ کو”
اس نے سوچے سمجھے بغیر بول دیا
ڈاکٹر فرحین کو یہ بات زیادہ بھاری نہیں لگی
“عکس تم سے پانچ سال بڑی ہے”
“ایج ڈزنٹ میٹر ماما”
عیسیٰ نے اپنے سلکی براؤن بالوں میں ہاتھ پھیرا
“کیا عکس نے تم سے کہا ہے کہ وہ تم سے شادی کرے گی؟”
انہوں نے پوچھا
“میں نے اس سے کہا ہے کہ میں ماما سے بات کروں گا”
ڈاکٹر فرحین کو یہ عیسیٰ کا بچپنا لگا تھا۔
“عیسیٰ تم نے ساری زندگی اپنی مرضی کی ہے ہر چیز میں اور میں نے تمہاری ہر خواہش ہر ضد اور ہر خوشی پوری کی ہے, تمہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ تم بھی اپنی ماں کو کوئی خوشی دے دو؟”
“بلیک میل کررہی ہیں؟”
“میں تم سے پوچھ رہی ہوں عیسیٰ”
وہ سوچ میں پڑ گیا, عیسیٰ سوچنے لگا تھا یعنی عیسیٰ نے کچھ دیر کیلئے عکس کو فراموش کردیا تھا
بہت سارے خیالات پھر اچانک وہ بول پڑا
“ماما عکس مجھ سے دور ہو جائے گی”
“عکس تم سے بڑی ہے عیسیٰ, وہ میچیور لڑکی ہے ایسا کچھ نہیں سوچتی وہ, تم اس کے واحد دوست ہو اس لئے وہ تم سے اتنی محبت کرتی ہے اور تمہارا خیال رکھنے کو میں اس سے کہتی ہوں, کیونکہ تم اس کے علاؤہ کسی کی بات مانتے ہی نہیں ہو”
وہ تذبذب کا شکار تھا
“تو ماما دوست سے شادی نہیں ہوسکتی؟ میں عکس کے علاؤہ کبھی کسی لڑکی کو اہمیت دی ہی نہیں, اور مجھے نہیں لگتا کہ آگے کبھی دے سکوں گا”
اس نے مزید بحث کی
“عیسیٰ جو محبت تم دونوں ایک دوسرے سے کرتے ہو وہ ایسی نہیں ہے کہ تم دونوں کی شادی کرادی جائے, اور شادی کرکے تو محبت ختم ہو جاتی ہے”
انہوں نے عیسیٰ کو سمجھایا۔
“میں عکس کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، اگر اس بات سے وہ روئی تو میں آپ کی یہ بات نہیں مانوں گا اوکے؟”
اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کچھ بھی
یہ محبت تھی یا بچپنا تھا؟
اسے سمجھ بھی آرہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہا تھا؟
وہ کسی اور سے شادی کرنے پر غور کررہا تھا
اتنی جلدی؟
چار سال سے جس لڑکی کو کہتا آرہا تھا کہ مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا, پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ اسے خود سے جدا کرنے کا سوچ بیٹھا تھا۔
شاید دونوں کی محبت ابھی نئی نئی تھی اس لئے زیادہ مضبوط نہیں تھی۔
“تمہارے دماغ کا خلل ہے یہ عکس ایسا کچھ نہیں سوچتی”
فرحین نے اس کی سوچ پر تف بھیجی۔ کیونکہ ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ فرینڈشپ محبت بھی ہوسکتی تھی
“ہممم شاید اس لئے اس نے مجھے کبھی اللہ سے مانگا بھی نہیں”
عیسیٰ نے اتنی آہستگی سے کہا کہ ماما بھی نہیں سن سکیں
یہ کس سے محبت کر بیٹھی تھی عکس؟
انیس سال کے لڑکے کا ذہن اور سوچ بچوں جیسی ہوتی ہے؟
محبت کو اتنا لائٹ کون لیتا ہے؟
کہ آئی اور گئی
لیکن وہ تو میچیور تھی وہ تو بچی نہیں تھی
اسکا ری ایکشن کیسا ہوگا؟
یا پھر وہ بھی عیسیٰ سے عیسیٰ کے جیسی ہی محبت کرتی ہوگی؟
“شام آٹھ نو بجے تک آجائیں گے وہ لوگ اپنے اس گیمنگ روم کو آج تالا لگا لینا”
“ہممممم, آج ویسے بھی میرا آف ہے نیو سیزن آنے تک ریسٹ کرنا ہے”
عیسیٰ ابھی سے ڈاؤن فیل کررہا تھا۔ اسکا موڈ خراب ہوچکا تھا۔ اسے لڑکیاں پسند نہیں تھیں۔ نا لڑکیوں کی صحبت میں رہنا پسند تھا۔ وہ چاہتا ضرور تھا کہ اسے ہر کوئی چاہے لیکن وہ خود ہر کسی کو دل نہیں دے بیٹھتا تھا اس نے اپنا ایک لیول بنا رکھا تھا۔ بےباک, کریکٹر لیا فرینڈز کی صحبت میں رہ کر بھی وہ لڑکیوں سے گھلنا ملنا پسند نہیں کرتا تھا۔ یا شاید اسے کرئیر کے اسٹارٹ میں ہی عکس مل گئی تھی۔ اور اس عکس پر اس کی دنیا رک گئی تھی۔ وہ عکس سے محبت کرتا تھا۔ اسے روتا ہوا یا ناراض بلکل نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مگر عیسیٰ کی یہ محبت بچپنا تھی۔ انیس سال کے لڑکے کی پہلی محبت آخری کیسے ہوسکتی تھی؟
_________________
رات ہوئی مہمان آ پہنچے۔ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن مستبشرہ۔ عیسیٰ نے سرسری نگاہوں سے دیکھا۔ دل کو بھائی نہیں۔ اس نے عکس سے کمپیریزن کیا۔ اور پہلی فرصت میں مستبشرہ کو ریجکٹ کردیا۔ اسے عکس کے علاؤہ کوئی لڑکی پسند نہیں آتی تھی۔ خواہ وہ کتنی ہی حسین کیوں نا ہو۔ فیملی گیدرنگ میں اس کا دل گھبرایا تو وہ اپنے فرینڈز کے ساتھ نکل گیا۔
رات کے دو بجے کھانا کھائے بغیر وہ پان شاپ پہ بیٹھا تھا۔ اس نے فون دیکھا عکس کا کوئی میسج نہیں تھا۔ عیسیٰ نے کال ملائی فون اٹھایا گیا۔
“میں تمہاری ساری باتیں مانتا ہوں اور تم سے اتنا نہیں ہوتا کہ تم مجھے ایک دو میسج ہی چھوڑ دیا کرو”
اس کا دل بھرا ہوا تھا۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا عکس اس سے محبت نہیں کرتی۔ کیونکہ میسج یا کال میں پہل ہمیشہ عیسیٰ کی کرتا تھا۔
“مجھے اچھا لگتا ہے جب تمہارے نام کا نوٹیفکیشن ملتا ہے”
عکس ایک ہاتھ سے قرآن شریف پر غلاف چڑھا رہی تھی۔ جو کچھ دیر پہلے وہ تلاوت کررہی تھی اب اس نے روک دی تھی۔
“اور میں؟ میری خوشی؟ میرا بھی تو دل کرتا ہے جب سو کر آٹھوں تو تمہارا میسج آیا ہو۔ سارا دن گزر جاتا ہے جب تک میں کال نا کروں تم کبھی کال نہیں کرتی۔ بس اس وقت کالز کے انبار لگا دیتی ہو جب کسی کام سے روکنا ہو۔ کیا بس اتنا ہی اہم ہوں میں؟”
عیسیٰ نے شکوہ کیا
“کس کا غصہ مجھ پر اتار رہے ہو؟”
عکس نے پوچھا
“جس کا غصہ ہو اسی پر اتارتا ہوں”
عکس ہنسنے لگی
اس کی ہنسی کی آواز سن کر عیسیٰ کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ پھر کہنے لگا
“مجھے تمہاری سب سے اچھی عادت پتا کونسی لگتی ہے؟”
“کونسی؟”
“کہ تم پانچ وقت نماز پڑھتی ہو, میں خود نماز نہیں پڑھتا مگر مجھے تمہارا نماز پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے”
عکس مسکرائی۔
“تم بتاؤ تمہیں میری کونسی عادت سب سے زیادہ اچھی لگتی ہے؟”
عیسیٰ نے پوچھا
“تمہارا اپنے دوستوں کیلئے جی جان سے لڑنا, ان کی ایک آواز پر تمہارا بھاگے ہوئے جانا, ان کے دشمن اپنے سر لے لینا”
“طنز کررہی ہو؟”
وہ جانتا تھا عکس کو برا لگتا تھا عیسیٰ کا پرائے پھڈوں میں پڑنا۔ کیونکہ اس کے دوست ہر لڑائی میں عیسیٰ کو آگے کرکے عیسیٰ کے منہ سے گالم گلوچ نکلوا کر خود سائیڈ پر ہوجایا کرتے تھے۔ اور عیسیٰ اپنی کمیونٹی میں بدمعاشوں کی فہرست میں نام بناتا جارہا تھا۔
“نہیں اچھا لگتا مجھے تمہارا گالیاں دینا”
“اب کوئی مجھے یا میرے دوست کو گالی دے تو میں سن لوں؟”
دونوں کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ عکس نے چہرے کے گرد لپٹا سفید دوپٹہ ڈھیلا کیا۔ عیسیٰ نے برگر کا آرڈر لگایا
“تمہارے منہ سے گالیاں سننا بلکل اچھا نہیں لگتا عیسیٰ”
عیسیٰ نے اسکی آواز سے اندازہ لگایا تھا کہ وہ کتنا ہرٹ ہوتی ہے اس بات سے
“لیکن یہ بھی تو دیکھو ناں جب مجھے پتا لگ جاتا ہے کہ میری لائیو میں تم بھی بیٹھی ہو تب تو میں گالی نہیں دیتا ناں”
“میرے سامنے ہی نہیں میرے بعد بھی تم میری بات کو اہمیت دو۔ نا دیا کرو گالیاں عیسیٰ”
اس نے پیار سے کہا اور اتنے پیار سے عکس کہے گی اور عیسیٰ مانے گا نہیں؟
اس بات کے بعد پورے تین ہفتے عیسیٰ نے گالیاں نہیں نکالیں۔ نا کسی پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑائی, جس نے میٹر کیلئے بلایا اسے انکار کردیا۔ سب کو معلوم ہوگیا تھا۔ کہ عکس کی وجہ سے عیسیٰ گالیاں دینا چھوڑ رہا ہے۔ سب دوست جانتے تھے عیسیٰ اور عکس ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
گیمنگ چیمپئن شپ کا آغاز ہوا عیسیٰ کو دبئی جانا پڑا پہلی بار نا صرف گھر سے بلکہ ملک سے دور جانا تھا۔
عیسیٰ کے علاؤہ سب ہی کو فکر تھی کہ وہ کیسے سب مینیج کرے گا۔ مگر عیسیٰ کا خواب تھا۔ کوئی اسے روک نہیں سکتا تھا۔
جانے سے پہلے اس نے عکس سے آخری بار بات کی۔
جاری ہے……..
(اشنال)
Bahoot dilchasp.. Intazar rha ga next part
بہت شکریہ 🌸