Delusion – Episode 1

ڈاکٹر فرحین”
” پیشنٹ سدرہ کی کنڈیشن بہت خراب ہے آپ جلدی چلیں”
وہ جو ابھی گھر کیلئے نکلنے لگی تھی ایمرجنسی کا سن کر وارڈ کی طرف بھاگی
اندر اس کی سوچ سے الگ ماحول تھا
وہ جسم کا علاج کرنے آئے تھی اس سے روح کا مرہم مانگا جارہا تھا
“ڈاکٹر وہ میری بیٹی کو مار دیں گے آپ کو اللہ کا واسطہ میری بیٹی کو بچالیں”
“وہ میری بیٹی کی زندگی عذاب بنادیں گے”
“اس کا باپ مر گیا اس کی ماں بھی مرنے والی ہے وہ ان لوگوں کے ہاتھوں چڑ جائے گی”
“یا اسے میرے ساتھ ہی مار دیں گے یا اسے اپنے ساتھ لے جائیں میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ڈاکٹر مجھ پر رحم کریں میری بچی پر رحم کریں”
“وہ اسے لے جائیں گے ظلم کریں گے جان سے نہیں ماریں گے ہر روز ماریں گے”
“اللہ”
وہ درد کی شدت سے بلبلاتے ہوئے زادو قطار رو رہی تھی
“ایک بچی کو ظالموں کے ہاتھ میں دے کر خود کو کیسے معاف کریں گی آپ ؟”
“ڈاکٹر زندگیاں بچاتے ہیں آپ سے تو دونوں زندگیاں نہیں بچائی جارہیں”
“کیسی مسیحا ہیں آپ؟”
اس کی روح کانپ گئی تھی
اتنی التجائیں
اتنے واسطے
کیا وہ اتنی بےرحم تھی کہ ایک مرتے ہوئے انسان کو سکون نہیں دے سکتی تھی۔
وہ ایک بچی کی کفالت کا زمہ تو لے سکتی تھی مگر وہ جس ماحول میں رہتی تھی وہاں اس بچی کا وجود اس کے کردار کو داغدار کرسکتا تھا۔
ایک طرف مرتی ہوئی ماں کے جڑے ہاتھ
ایک طرف دنیا کا ڈر
ایک طرف اللہ کا خوف
لیکن اسے فیصلہ لینا تھا
_______________

“اسکا گند کدھر ہے؟”
اس نے اپنے سامنے کھڑے لمبے سے قد والے سانولے شخص کو دیکھا جس کے چہرے سے فرعونیت ٹپک رہی تھی
“وہ بیٹی کو جنم دیتے ہوئے جان سے گئی ہے”
“یہاں ایک لاش ہے دوسری کدھر ہے؟”
اس شخص نے پوچھا
“وہ جنم نہیں دے سکی”
“چلو اچھا ہوا دونوں گند ایک ساتھ دفن ہوں گے جو عورتیں بھائی اور بیٹے چھین لیتی ہیں نا ان کا یہی انجام ہوتا ہے”
کچھ لوگوں کے دلوں کیساتھ زبان پر بھی زہر جمع ہوتا ہے جسے نکالنے میں وہ بلکل نہیں سوچتے
وہ شخص جو عورت کو گندا کہہ رہا تھا خود اپنی زبان سے گندا ثابت ہوچکا تھا
“مرحومہ کا کوئی اپنا موجود نہیں ہے تو کیا ہم تدفین کا کام خود کرسکتے ہیں؟”
“تدفین؟”
“ان جیسی بےحیا عورتوں کو کوئی ضرورت نہیں رسوم و رواج کے ساتھ دفنایا جائے, لاش کو بوری میں بند کرو اور دریا میں پھینک دو, اگر پیسے چاہئیں تو بولو اس کام کے پیسے دے دیتا ہوں”
اس شخص نے آخری بات آہستہ سے کہی تھی
ڈاکٹر فرحین کا چہرہ غضب سے سرخ ہوچکا تھا
“ضرورت نہیں, یہ سرکاری ہسپتال ہے یہاں بےشمار لاوارث لوگوں کی تدفین ہوچکی ہے, ان کی بھی ہو جائے گی آپ کا کام ختم آپ جاسکتے ہیں ہم نے اگلے مسائل بھی حل کرنے ہیں بہت سے اور لوگ بھی لگے ہیں اس لائن میں ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا”
اس بار وہ تھوڑی تلخ ہوئی تھی
ایک نظر نخوت بھری نظر وہ سدرہ کی لاش پر ڈال کر ہاسپٹل سے باہر نکل گیا
چوبیس سالہ ڈاکٹر فرحین گائنی اسپیشلسٹ پہلی بار کسی اس قسم کے کیس میں انوالو ہوئی تھی
دو بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے چھوٹی تھی
دقیانوسی خاندان کی پہلی ڈاکٹر تھی
حال ہی میں اس کی منگنی کی رسم ادا ہوئی تھی اور شادی میں ابھی دو تین سال باقی تھے

_____________
“عکس”
اس نے دھیرے سے گود میں پکڑی بچی کو پکارا
ڈوبی ہوئی آنکھیں گول مٹول بھرا بھرا جسم سفید گلابی رنگت,
عکس نے آنکھیں کھولیں
گول مٹول، بڑی بڑی، چمکتی ہوئی آنکھیں
“عکس, ہوبہو اپنی ماں جیسا عکس”
ڈاکٹر فرحین نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا
یوں اس لاوارث بچی کو عکس نام ملا
اس کے ڈیوٹی آرز ختم ہوچکے تھے
اب وہ اس بچی کو اٹھائے ہاسپٹل سے باہر نکلی
دس منٹ کا جو راستہ وہ پیدل چل کر عبور کرتی تھی آج اسے رکشہ میں گھر تک جانا پڑا۔
وہ گائنی اسپیشلسٹ تھی, اس کیلئے ایک لاوارث بچی کو گود لینا کوئی بڑا ایشو نہیں ہونا چاہئیے تھا مگر وہ اس ماحول سے تعلق رکھتی تھی جہاں کی سوچ حد سے زیادہ چھوٹی تھی,
ایک ہلکا سا خوف تھا,
ایک کنواری لڑکی کی گود میں ایک دن کا بچہ دیکھ کر دنیا سوال کرے گی وہ دنیا جس کے بیچ میں وہ رہتی تھی, جب خاندان کی پہلی لڑکی پڑھنے نکلی تھی, جب اس نے دقیانوسی اصولوں کو توڑا تھا, تب سب نے ابا سے کہا تھا, خاندان کی پہلی ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ فرحین خاندان کی پہلی لڑکی ہوگی جو اپنے باپ, بھائیوں کا منہ کالا کرکے آئے گی۔
فرحین کے پاس سارے سوالوں کے جواب تھے, لیکن کوئی جگہ ایسی ہوتی ہے جہاں کسی کے دل سے اپنے لئے ناپسندیدگی, حسد, بغض, نفرت جیسے جذبات ختم کرکے ان کی نظروں میں سرخرو ہو جانا ایک ناممکن عمل ہوتا ہے۔
اسکا یہ ہلکا سا ڈر بھی ختم ہو جاتا اگر ابا اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے سارا راستہ وہ یہی سوچتی آئی تھی کہ ابا اس بار اس کا ساتھ دیں گے یا نہیں؟

____________

چار بجے اس کا ڈیوٹی ٹائم ختم ہو جاتا تھا آج اسے نکلنے میں تین گھنٹے مزید لگ گئے
اس وقت سات بجکر چھ منٹ ہورہے تھے
یہاں اس نے گھر کے اندر پہلا قدم رکھا وہاں عکس نے رونا شروع کیا
لان میں بیٹھے چار پانچ لوگوں نے دروازے کی سمت دیکھا
کسی نے کچن کی کھڑکی سے جھانکا
کسی کا پیالیوں میں چائے ڈالتا ہاتھ رک گیا
اور وہاں ڈاکٹر فرحین کا دل اس زور سے دھڑکا جیسے باہر آجائے گا, وہ مجرم نہیں تھی مگر اسے لگ رہا تھا جیسے سچ میں کوئی جرم کرکے آئی ہو۔ اس نے عکس کو سینے سے لگا کر بھینچا تو اس کا رونا بند ہوگیا۔
کالی چادر کے اندر چھوٹا سا حرکت کرتا وجود سب کی نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا
“آ پتر رک کیوں گئی “
ابا نے اس کے ڈرے سہمے قدموں پر تشویش کا اظہار کیا
اس نے ایک ہاتھ سے بچی کے اوپر سے چادر ہٹائی
“یہ؟ یہ کون؟”
بڑے بھائی نے پوچھا
سب کی نظریں سوالیہ, اس نے باری باری سب کو دیکھا پھر بتانا شروع کیا
“تین دن پہلے ایک مرد اپنی بیوی کو ہاسپٹل لایا تھا میرے ڈیوٹی آرز میں, اس عورت کی کنڈیشن ایسی تھی کہ اسے ایڈمٹ ہونا پڑا تھا, اسے خون لگنا تھا, بلڈ ارینج کرنے کیلئے وہ شخص ہاسپٹل سے نکلا تھوڑا آگے جاکر اس کی بائیک کار سے ٹکرائی اور وہ موقعے پر جان بحق ہوگیا,
اس شخص نے اپنی فیملی کے خلاف جاکر ذات سے باہر پسند کی شادی کی تھی, کچھ ماہ دوسرے شہر رہنے کے بعد وہ پھر اسی شہر چلا آیا جہاں اس کی فیملی رہتی تھی, فیملی نے اسے طلاق دینے کو کہا وہ طلاق نہیں دے سکتا تھا کیونکہ وہ سدرہ سے محبت کرتا تھا, اس نے گھر والوں کے روئیے سے دل برداشتہ ہوکر کرائے کے گھر میں بیوی کو رکھا۔
اس شخص کی غیر موجودگی میں اس کے بھائی ان کے گھر میں آتے اور سدرہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے کر جاتے”
وہ سانس لینے کو رکی پھر بولنا شروع ہوئی
“ابا! ہم ماں اور بچی میں سے ایک کو بچا سکتے تھے, وہ میرے آگے روئی اس نے کہا یا ہم دونوں کو مار دو یا دونوں کو بچا لو,
ابا اس نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور کہا میری بچی کو ان ظالموں سے دور لے جاؤ
اس نے اللہ اور رسول کے واسطے دئیے ابا”
اس کی سانس پھول گئی تھی اس نے نم آنکھوں سے اپنے باپ کو دیکھا
“ان ہسپتالوں میں کتنے کیسز ایسے آتے ہیں سارے بچے گھر لے آؤ گی؟”
بڑے بھیا نے چلا کر کہا
“واپس چھوڑ کر آؤ, ابھی کسی کو نہیں پتا مجھے دو میں واپس چھوڑ آتا ہوں”
“لیکن کہاں بھیا؟”
“کچرے کے ڈھیر پر رکھ آؤں گا کوئی بھی آکر لے جائے گا”
چھوٹے بھائی نے بچی کو اس سے چھیننا چاہا, اس نے عکس کو اور بھی زور سے بھینچ لیا
“بھائی مسلمان کی بچی ہے”
اسے اپنی آواز کھائی سے آتی سنائی دی
“اس مسلمان بچی کی وجہ سے جو تہمت تمہارے کردار پر لگے گی نا اسے نا تمہارے بھائی دھو پائیں گے اور نا ہی تمہارے ابا”
“بھائی سب جانتے ہیں میں گائنی اسپیشلسٹ ہوں, اگر آپ میرے ساتھ کھڑے ہوں گے تو کوئی الزام نہیں لگا سکے گا”
اس نے سمجھانا چاہا اتنی سی تو بات تھی تھوڑا سا ساتھ چاہئیے تھا
“ماڈرن سوسائٹی میں نہیں رہتے ہم , جہاں لوگوں کو پرواہ نا ہو کس کے گھر میں کیا چل رہا ہے, خاندان میں رہتے ہیں ہم رشتے داروں میں رہتے ہیں, جو دروازوں کے آگے کرسیاں رکھ کر اس لئے بیٹھتے ہیں تاکہ خاندان کی عورتوں پر نظر رکھ سکیں, انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس کی بہن نے آج کس رنگ کا جوتا پہنا تھا, ڈاکٹر بننے کی اجازت کیا مل گئی تم نے خود کو آزاد سمجھ لیا ہے جو دل میں آئے گا کرکے آجاؤ گی؟”
ابا جو پورے ماحول میں خاموش سر جھکائے بیٹھے تھے اپنے بیٹوں کو دیکھنے لگے پھر بولے
“تم لوگوں کو ویسی بھی بیٹی چاہئیے تھی نا تو سمجھو اللہ نے اس گھر کو بیٹی دے دی ہے”
ابا نے اتنے ہی آرام سے یی بات کہی تھی جتنا عام وہ اس بات کو سمجھتی تھی کہ ہونا چاہئے تھا۔
ابا کی بہوؤں نے اپنے شوہروں کو خونخوار نگاہوں سے گھورا
ابا کے دو بیٹے شادی شدہ تھے دونوں کے تین تین بیٹے تھے دونوں کی خواہش تھی بیٹی کی بیٹی کیلئے منتیں مانی جاتی تھیں اس گھر میں۔
“ابا یہ پتا نہیں کس کا گند ہے”
بڑے بھیا نے آواز اونچی رکھی تاکہ رعب پیدا ہوسکے
“بس”
ابا کی زور دار آواز نے پورے گھر کو ہلایا
“کسی پر بہتان لگانا, جو بات اس میں ہو ہی نا اللہ کو سخت برا لگتا ہے, اللہ کی پکڑ سے ڈرو اور لوگوں پر رحم کرنا سیکھو”
ابا نے اپنے سخت دل بیٹوں کو سمجھایا
“یہ جو کام کرنا چاہے گی چاہے صحیح ہو چاہے غلط ہو آپ اسے سپورٹ کرتے جائیں گے؟”
چھوٹے بھائی نے حصہ لیا
“فرحین نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا اگر وہ خاندان کی پہلی ڈاکٹر ہے تو یہ اس کی غلطی نہیں ہے تم لوگوں کی سوچ بہت چھوٹی ہے, اور تم دونوں میں ایک بھی ایسا نہیں جس کی سوچ اس خاندان سے ذرا مختلف ہو”
ابا ٹھہرے ہوئے انداز میں فرحین کے ساتھ کھڑے تھے
“ہمیشہ کی طرح آج بھی وہی ہوگا جو فرحین چاہے گی لیکن میں اس خاندان کو فیس نہیں کرسکتا اس بچی کو رکھنا ہے نا رکھیں ہمیں ہمارا حصہ الگ الگ کرکے دیں پھر آپ جانیں اور آپ کی بیٹی”
دونوں بھائی ایک بات پر ڈٹ گئے
“بھیا میں نے کوئی گناہ تو نہیں کیا؟”
فرحین اب رونے لگی تھی
“گناہ؟ تمہیں محلے والوں کا نہیں پتا؟ رشتے داروں کا نہیں پتا ؟ اور جو منگنی ابا کروا کر بیٹھ گئے ہیں تمہاری ان لوگوں کو کیا جواب دو گی یہ بچی کہاں سے آئی ہے کیا وہ لوگ تمہاری اس کہانی پر یقین کریں گے؟ وہ تو اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ تم کوئی غلطی کرو اور وہ ابا اور ہم بھائیوں کی گردنیں جھکا سکیں”
بڑے بھیا کا بس نہیں چل رہا تھا وہ بچی کو اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیں
“میں ہوں جواب دینے والا سب کو تم لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں, اور ویسے بھی جائیداد کا حصہ تو میں نے تم دونوں کو دینا ہی تھا تو چلو آج ہی کرلیتے ہیں یہ بھی”
ابا نے اماں کی طرف دیکھا اور اماں نے سر ہلا کر رضامندی دی
“ابا”
فرحین نے بولنے کی کوشش کی
ابا نے اسے بیٹھنے کا اشارہ دیا
عکس اب تک سو چکی تھی اماں نے عکس کو فرحین کی گود سے لیا اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگیں
اور یوں فیصلہ ہوا
پرانا گھر جو مری میں تھا, ابا اماں فرحین اور عکس کا ہوگیا
اور یہ جو نئی حویلی بنائی گئی تھی یہ دونوں بھائیوں کو مل گئی۔
عکس کو گھر بھی مل گیا تھا اور کچھ انمول رشتے بھی
اب اگلا مرحلہ تھا فرحین کے سسرال والوں اور اس کے منگیتر کے ردعمل کا تھا
زندگی امتحانوں سے گزررہی تھی
لیکن وہ اپنے رب سے مایوس نہیں ہوتی تھی۔ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا, جسے جان کو اللہ نے اس دنیا میں بھیجا وہ اس ننھی سی جان کا ذمہ اٹھانا چاہ رہی تھی۔ اسے اللہ سے محبت تھی بس اسی محبت میں وہ پہلے مسیحا بنی اور اب ایک ماں بننا چاہ رہی تھی۔
ڈاکٹر فرحین کا رشتہ ایک پچیس سالہ لڑکے محمد اصغر سے طے ہوا تھا۔ یہ لوگ زمینوں کی لین دین کا کام کرتے تھے اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ تھے۔ لیکن مسئلہ یہاں بھی وہی تھا پرانی سوچ, پرانے رواج,
ہمارے بزرگوں نے اسلام کو بس وہاں تک نافذ کیا ہوا ہے جہاں تک ان کا دل کرتا تھا۔ بہت سی باتیں ایسی تھی جن کو اسلام حلال جانتا تھا مگر یہ پرانی سوچ کے بزرگوں نے انہیں حرام قرار دے دیا تھا۔ اگر انہیں آج کل کا بچہ اسلام کا صحیح غلط بتانے کی کوشش کرکے تو ان کی عزت پر حرف آ جاتا تھا۔ اور یہ کہہ کر منہ بند کروادیا جاتا تھا کہ تم آج کے بچے ہمیں اسلام سکھاؤ گے؟
اصغر تھوڑا بہت پڑھا لکھا تھا اس لحاظ سے اس کی سوچ بھی ذرا مختلف تھی۔ ان لوگوں نے عکس کا معاملہ تحمل سے سنا نے بھڑکے نا الزام تراشی کی بس اتنا کہا کہ ڈاکٹر فرحین جہیز میں عکس کو نہیں لے کر آ سکتی۔ کیونکہ انہیں بھی خاندان کا مسئلہ تھا۔
فرحین نے بہت کوشش کی۔ اس نے ابا سے کہا ابا منگنی توڑ دیں کسی ایسے شخص سے شادی کرلوں گی جو عکس کو قبول کرے گا۔ لیکن پھر ابا نے سمجھایا کہ بیٹا یہاں ساری دنیا ہی ایسی ہے اگر کوئی عکس کو قبول کرکے ساتھ لے بھی گیا تو وہ اسے اچھا مقام نہیں دے پائے گا۔
اصغر بہت نیک شریف اور سلجھا ہوا لڑکا تھا۔ فرحین کیلئے نہایت موزوں تھا۔ بس وہ اپنے خاندان کے خلاف نہیں جاسکتا تھا۔
تین مہینے کے اندر ڈاکٹر فرحین اور اصغر کی شادی کردی گئی تھی۔ ان تین مہینوں میں بھی فرحین عکس کو زیادہ وقت نہیں دے پائی۔ کیونکہ اسے ہاسپٹل میں وقت دینا ہوتا تھا۔ عکس کو اماں ابا پال رہے تھے۔ یعنی ننا اور نانو کا پیار اسے بھر پور مل رہا تھا۔ عکس میں دونوں بوڑھے لوگوں کی جان بستی تھی۔
وقت مری کے پہاڑوں میں گزرتا رہا آہستہ آہستہ۔ فرحین لاہور شہر کے جوائنٹ فیملی سسٹم میں زندگی گزار رہی تھی۔ اور عکس نے مری شہر کے خوبصورت پہاڑوں کے بیچ قدم رکھنا شروع کئے تھے۔ اس نے پہلا لفظ “اللہ” بولا تھا۔ کیونکہ اماں ہر دم “اللہ اللہ” کا ورد کرتی رہتی تھیں۔
اماں بیمار رہنے لگیں تھیں۔ ان کی بیماری میں ڈاکٹر فرحین نے ایک دو چکر لگائے لیکن زیادہ وقت ساتھ نہیں گزار سکیں۔ فرحین کو میکے میں زیادہ رہنے کی اجازت ویسے بھی نہیں تھی۔ اور کچھ اس کی ڈیوٹی بھی ایسی تھی کہ وہ مہینے مہینے میکے میں نہیں گزار سکتی تھی۔ ہوا کے جھونکے کی طرح آتی اور چلی جاتی تھی۔ لیکن وہ عکس کو نہیں بھولی صبح اٹھتے پہلی کال وہ عکس کو ملاتی تھی۔ پہلا چہرہ وہ عکس کا دیکھتی تھی۔ فرحین کو اللہ نے شادی کے پہلے سال ایک بیٹا دیا اور چار دن بعد واپس لے لیا۔

وقت مزید گزرا۔ زندگی آگے بڑھی, عکس اسکول جانے لگی۔ اماں چل بسیں۔ ابا نے عکس کی ماں اور عکس کا باپ دونوں کی زمہ داری سنبھالی۔
لاہور شہر کے بڑے سے ہاسپٹل میں فرحین نے “عیسیٰ” کو جنم دیا۔ زمینداروں کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ پہلا پوتا۔ لاہور شہر سے لیکر آبائی گاؤں تک سات دن جشن منایا گیا, صدقے دئیے گئے۔ ڈھول بجائے گئے۔
دادا ابو کا لاڈلا ملک عیسیٰ اعوان۔
____________

وقت گزرا
بیس سال بعد
پانچ جون
شام آٹھ بجکر پچیس منٹ
اسے ایک پارسل ریسیو ہوتا ہے۔ کچھ سفید پھول اور ایک درمیانی سائز کا چاکلیٹ کیک . وہ کارڈ نکال کر پڑھنے لگتا ہے
“یہ پھول تمہارے اماں ابا کیلئے جو تمہیں میرے لئے اس دنیا میں لیکر آئے”
“واٹ دا ہیل”
اس کا قہقہہ گیمنگ روم میں گونجتا ہے
وہ نمبر ڈائل کرتا ہے
“مس عکس ! برتھ ڈے میرا اور پھول اماں ابا کے لئے؟ اے گلاں چنگیاں نئیں”
وہ مسکرائی
“آپ کو پھول پسند نہیں ہیں نا ملک صاب”
“مجھے گفٹس پسند ہیں”
عیسیٰ نے اپنی بات پر زور دیا
“گفٹس میں پھولوں لمبے لمبے انگلش کے پیراگرفوں کے علاوہ بھی کافی چیزیں آتی ہیں محترمہ”
“ہمارا بجٹ اتنا نہیں ناں ملک صاب ہم آپ کو پورشے یا پھر نیکسٹ لیول گیمنگ سیٹ اپ نہیں گفٹ کرسکتے”
اس کا دھیمہ لہجہ عیسیٰ کے آتش فشانی غصے کو بہا لے جاتا تھا
عیسیٰ وہ شخص تھا جسے عکس کی آواز آدم خور سے انسان بنادیتی تھی۔ بےحد محبت تھی اسے عکس کی آواز سے۔
“عیسیٰ کی فرمائشیں پوری کرو”
وہ دونوں ہاتھ گالوں پر رکھے
عیسیٰ کی بھاری آواز
سنتے ہوئے کھڑکی سے باہر رات کو آتا دیکھ رہی تھی۔
آج وہ بہت خوش تھا اور اسے خوش محسوس کرکے عکس سکون میں تھی۔
“میری جتنی پکچرز ویڈیوز تمہارے پاس سیوڈ ہیں ان سب میں سے جو تمہیں پسند ہوں ان کو اٹھا کر ایک پیاری سی اچھی سی ویڈیو ایڈٹ کرو اوپر پیارا سا سونگ لگا کر سینڈ کرو”
“اوکے ہوگیا”
“پھر, پورے بارہ بجے سب سے پہلے مجھے تمہارا چہرہ نظر آئے”
عیسیٰ کی آواز میں بچپنا تھا جیسے کوئی ضدی سا بچہ من پسند چیز کیلئے خواہش کررہا ہو
“سنا ہے برتھ ڈے نہیں ولیمہ ٹائپ کچھ ہو رہا ہے آپ کا”
وہ کھلکھلائی
وہ بھی مسکرایا
“دوست ہوں گے”
وہ تھوڑا کنفیوز تھی
“وہ میرا مسئلہ ہے”
“تم چاہتے ہو وہ مجھے دیکھیں نا”
عکس نے اسے یاد کرایا
“مجھے پتا ہے دوست میرے کنجر ہیں اکیلا مجھے چھوڑنے نہیں لگے۔ تم یہ سب چھوڑو میں کرلوں گا ہینڈل مجھے بس تمہیں دیکھنا ہے یہ یاد رکھنا کوئی بہانہ نہیں بنالینا”
ضدی اڑیل عیسیٰ ملک
“اچھا ٹھیک ہے مجھے ننا آواز دے رہے ہیں میں جارہی ہوں”
“چلو ٹھیک ہے میں بھی نیچے جارہا ہوں دوست ویٹ کررہے ہیں”
“عکس پتر”
وہ فون بند کرکے ننا کے پاس جاتی ہے
“پانی پلاؤ تمہیں آوازیں لگاتے لگاتے میرا حلق خشک ہوگیا ہے”
وہ اسے ستانے لگے
وہ شرمندہ ہوئی نظریں جھکائیں اور گلاس میں پانی ڈالنے لگی
اس کے گال دہک رہے تھے شرمندگی تھی یا عیسیٰ کی آواز کا اثر
کچھ معلوم نہیں
“غصے میں ہوگا؟”
پانی کا گلاس عکس کو تھماتے پوچھ بیٹھے
“نہیں ننا ریلکسڈ تھا”
وہ آہستہ سے بولی اور ان کے سامنے لگے سفید گلاب کی پتیوں پر انگلیاں پھیرنے لگی
“سکون میں اس کو بہت کم ہی دیکھا گیا ہے”
وہ مسکرانے لگے
وہ بھی مسکرائی
“ماما کہتی ہیں ماموؤں پر گیا ہے غصیلہ اور سخت دل”
“ٹھیک کہتی ہے فرحین, ماموؤں پہ چلا گیا ہے, اللہ نے تین پتر دتے سی احساس کرنڑ والا خود لے لیا تے بےاحساسے مینوں دے شڈے”
ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی دیکھ کر عکس ہاتھ جھاڑ کر فوراً قریب آئی
“ننا رونا ہے؟ آپ کو پتا تو ہے رونے میں آپ مجھ سے ہار جاتے ہیں پھر؟”
“نا نا میری توبہ میری توبہ”
انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے تو دونوں نم آنکھوں سے ہنس دیئے
فون کی گھنٹی بجی
“عکس جلدی فون کرو عیسیٰ کو وہ بائیک لیکر نکلا ہے”
ڈاکٹر فرحین گھبرائی ہوئی بولیں
“اکیلا نکلا ہے؟”
“اکیلا جاتا تو پریشانی کیا تھی, سارے نکمے دوست ساتھ نکلے ہیں اپنی اپنی بائیکس پر”
عیسیٰ کے اندر بہت ساری برائیاں تھیں۔ اور ایک یہ بھی سر فہرست تھی۔ وہ اپنی دھن میں جارہا ہوتا کوئی دوست اسے بس اتنا کہہ دیتا کہ عیسیٰ تیرے سے آگے نکل گیا فلاں بندا۔ بس عیسیٰ کی شان میں گستاخی ہو جاتی تھی۔
“اچھا آپ پریشان نا ہوں میں کرتی ہوں کال اسے”
“ہاں پلیز”
عکس ایک نظر ننا کو دیکھتی ہے وہ اپنی اسٹک اٹھا کر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے گھر کے گیٹ سے باہر نکل جاتے ہیں
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی
عیسیٰ کو بریک لگانے کیلئے عکس کو پکارا جاتا تھا
اور یوں سب سکون کا سانس لے پاتے تھے
_____________

ایک ہاتھ سے بائیک سنبھالتے ہوئے عیسیٰ نے دوسرے ہاتھ سے فون پر لکھے
“Meri Shezadi🫀
کو دیکھا
ائیر پوڈز سے آواز آئی
“بائیک آہستہ چلانا ٹھیک ہے؟”
کیا کہا آواز نہیں آرہی
اس نے عکس کو غصہ دلایا
بائیکس کا بے ہنگم شور
عکس کو وحشت ہونے لگی
“عیسیٰ میں تم سے کہہ رہی ہوں کسی سے ریس نہیں لگانی سمجھ آرہی ہے؟”
اس کی اونچی آواز کو سن کر عیسیٰ نے اپنی ہنسی دبائی
اس کے ڈمپل اور گہرے ہوئے اس نے ماتھے پر آئے اپنے بالوں کو جھٹکا دے کر اوپر کو اٹھایا
“سن لیا ہے , نہیں لگاتا ریس”
اس نے عکس کو مطمئن کرنا چاہا
“عیسیٰ “
وہ روہانسی ہوئی”
یہاں عیسیٰ کا سخت دل موم کے جیسے پگھل جاتا تھا
“میری جان”
عیسیٰ نے شدت سے اسے پکارا
پھر بائیک روک کر دوست سے مخاطب ہوا
“لے یار تو چلا”
“اوپر سے آرڈر آئیں ہیں کیا”
“آہو”
دونوں دوست ہنسنے لگے
“اب خوش ہو؟”
اس نے عکس سے پوچھا
“ہممممم”
عکس نے بس یہی کہنا مناسب سمجھا
دونوں طرف خاموشی رہی
“عیسیٰ”
اس نے پکارا
“ہممممم بولو”
عیسیٰ نے پیار سے جواب دیا
بائیک اب آہستہ سے چل رہی تھی اور وہ پیچھے بیٹھا عکس کی آواز میں گم تھا
“تم جانتے ہو نا ماما تم سے کتنی محبت کرتی ہیں ان کیلئے اپنا خیال رکھا کرو”
وہ مسکرایا
“اونہہہہ , میں ان کے سو بار کہنے پر بھی نا مانوں”
“تم ان سے محبت نہیں کرتے؟”
“کرتا ہوں مگر تمہارے کہنے پر میں وہ بھی کرجاتا ہوں جو مجھے نہیں کرنا ہوتا”
اس نے دھیرے دھیرے رک رک کرلفظ ادا کئے
عکس کا دل ٹھہر گیا تھا یہیں پر۔
__________
عشاء کے نماز سے فارغ ہوکر وہ سورة ملک پڑھنے بیٹھی تھی کہ اس کے فون پر تین چار پانچ نوٹیفکیشنز آنے لگے
اس نے اسکرین پر جھانکا
“Essa🫀
اس نے فون ان لاک کیا تین تصویریں ایک ویڈیو
اس کے ہاتھ کانپے , دل کی دھڑکن بند ہوئی
پہلی تصویر پھٹا ہوا گال سرخ خون کے دھبے
دوسری تصویر پھٹی ہتھیلی خون کی بوندیں
تیسری تصویر گھٹنے سے نکلتا خون
اس نے کانپتے ہاتھوں سے ویڈیو پلے کی واللہ عکس بائیک میں نہیں چلارہا تھا”
دانت کی بتیسی دکھاتا ہوا عیسیٰ
زرد پڑی ہوئی رنگت اس نے کیمرہ گھمایا ہاسپٹل کے اندر جگہ جگہ لیٹے ہوئے اس کے دوست جن کی نرسز مرہم پٹیاں کررہی تھیں۔ اور وہ خود چئیر پر بیٹھا ہوا تھا
اتنے زخم کھاکر بھی وہ ہنس رہا تھا
عکس نے فون نیچے پھینکا اور دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ دئیے
جاری ہے…….

(اشنال)

5 thoughts on “Delusion – Episode 1”

  1. I m reading ur writing first time but hopefully that I will never waste my time
    IN SHA ALLAH
    Best of luck

Your thoughts matter – share them below!

Scroll to Top