Delusion – Episode 16
مل جائے تو مٹی کھو جائے تو سونا۔
شاید دنیا کی ہر کہانی میں یہی ہو رہا تھا۔ افراح اٹینشن سیکر تھی۔ جہاں توجہ ملی وہاں بیٹھ گئی۔ عیسیٰ کی خاطر وہ اپنے فرینڈز چھوڑ نہیں سکتی تھی۔ وہ چاہتی تھی عیسیٰ بھی اپنی سوچ کو تھوڑا وسیع کرے اور اس کی لائف میں خود سیٹل ہوجائے۔ مگر عیسیٰ افراح کا دم چھلا بن کر نہیں جی سکتا تھا۔ شروع شروع میں جو ہوا وہ وقتی اٹریکشن ثابت ہوا۔ بعد میں عیسیٰ کو رئیلائیز ہوا اچھی عورت وہ نہیں ہوتی جو کسی بھی مرد سے کسی بھی قسم کا تعلق بنا لے۔ یا پھر عیسیٰ مردوں کی ان اقسام میں سے تھا جو اپنی بیویوں کو غیر مردوں کی محفلوں میں قہقہے لگاتا دیکھ کر اپنی مردانگی کی توہین سمجھتے تھے۔
وہ ایسا شوہر نہیں بننا چاہتا تھا جس کی بیوی کے ہزاروں یار ہوں۔ یار مطلب دوست۔ وہ ایک دن خود کو سمجھاتا تو دوسرے دن اس کے اندر کا مرد جاگ کر اسے لعنت بھیجتا۔ نا افراح بدل سکتی تھی نا عیسیٰ بےغیرت بن سکتا تھا۔
“میں تم جیسی چھوٹی سوچ والے مرد کے ساتھ ساری زندگی نہیں گزار سکتی, ٹرسٹ نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے”
افراح نے عیسیٰ کو پچھلے ایک گھنٹے کی بحث کے اختتام پر حرف آخر سنایا۔
“میں بھی اتنا بےغیرت نہیں ہوں, جو اپنی بیوی کو غیر مردوں کے ساتھ ڈانس کرتے دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجاؤں”
عیسیٰ کی بات پر افراح کو پتنگے لگ گئے۔
“تم وہی دقیانوسی لڑکی ڈزرو کرتے ہو, پسند تمہیں ہم جیسیاں بولڈ لڑکیاں آتی ہیں, مگر شادی کرنے کیلئے وہی گھٹیا پرانی سوچ, سر پہ دوپٹہ کرے, نظریں جھکائے تم لوگوں کی جی حضوری کرتی, سو کالڈ کنیزیں”
“عورت میں کچھ ہو نا ہو حیا ہونی چاہئیے”
“حیا بھی تو تم لوگوں کو راس نہیں آتی۔ اس حیا والی لڑکی سے جان چھڑانے کیلئے تم نے میری بیک کا سہارا لیا تھا۔ تم مرد نہ اپنے نفس پر قابو رکھ سکتے ہو نہ اپنی پسند ناپسند پر”
دونوں لڑ رہے تھے۔ کسی بھی رشتے کا اختتام اچھے طریقے سے کبھی نہیں ہوسکا تاریخ گواہ ہے۔
خوب لڑنے جھگڑنے ایک دوسرے کا کردار اتارنے کے بعد بلاآخر یہ تعلق اپنے اختتام کو پہنچا۔
افراح جیسی لڑکیاں مضبوط لڑکیاں کہلائی جاتی ہیں کیونکہ وہ کسی بھی ایسے تعلق پر زیادہ دیر ماتم نہیں مناتیں۔ صبح تعلق ختم ہوا شام کو فرینڈز کے گیٹ تو گیدر میں نئے دوست مل گئے نئی زندگی شروع ہوگئی۔ یقیناً دو چار روز میں وہ عیسیٰ کو بلکل بھول جائے گی جیسے کہ وہ کبھی تھا ہی نہیں۔
دوسری جانب عیسیٰ کے لئے یہ بہت مشکل ثابت ہونے والا تھا۔ کیونکہ عیسیٰ نے افراح کیلئے سارے دوست چھوڑ دئیے تھے۔ بڑے فخر اور غرور و تکبر سے وہ افراح کا دم چھلا بن کر گھوما کرتا تھا۔ اب گردن جھکا کر واپسی عیسیٰ کے لئے بےحد مشکل تھی۔ وہ کمرے میں بند ہو کر رہ گیا تھا۔ وہ لوگوں سے ملنے سے گھبرا رہا تھا۔ دوست ہنسیں گے۔ دشمن ہنسیں گے۔ عکس ہنسے گی۔ یہ سوچیں اسے کمرے میں بند کرکے رکھ گئی تھیں۔ وہ ضرورت سے زیادہ سگریٹ نوشی کرنے لگا تھا۔ نیند اس کی آنکھوں سے دور جا چکی تھی۔ افراح کی محبت تو اس کے اندر زیادہ نہیں تھی۔ نا اسے افراح کی یاد ستاتی تھی۔ عیسیٰ کو شرمندگی سر نہیں اٹھانے دے رہی تھی۔ وہ کھلنا پسند نہیں کرتا تھا۔ ایسے شخص کیلئے بہت مشکل ہوتا ہے نارمل ہونا۔
قسمت کا بڑا دھنی تھا عیسیٰ۔ دوست جان دیتے تھے اس پر۔ وہ سائیڈ پر ہوئے تھے کیونکہ عیسیٰ نے انہیں سائیڈ پر خود رکھا تھا۔ محبت انہیں عیسیٰ سے اب بھی ویسی ہی تھی۔ دوستوں کو عیسیٰ کی حالت کی خبر ہوئی تو سب بھاگے چلے آئے۔ کسی نے طعنہ طنز نہیں کیا کوئی اس پر نہیں ہنسا۔ سب عیسیٰ عیسیٰ کرنے لگے۔ عیسیٰ بلکل پہلے کے جیسے دوستوں میں شیر کی طرح بادشاہ بن گیا۔ پہلے والا مقام پھر واپس ملا۔ کیونکہ دوست محبت کرتے تھے عیسیٰ سے۔ اور محبت میں گرانا نہیں ہوتا سب نے ملکر عیسیٰ کو پھر سے اٹھا دیا۔ اسے دوست واپس مل گئے تھے۔ وہ خوش تھا۔ پاپا کے ساتھ ان کے آفس بھی جانے لگا تھا۔ دوستوں رشتے داروں کو بھی وقت دینے لگا تھا۔ ماما کے ساتھ بھی تعلقات اچھے ہو گئے تھے۔ آج عیسیٰ تھوڑا لیٹ اٹھا تھا۔ دو بجے وہ ناشتہ کررہا تھا۔
“عیسیٰ تم سے کچھ کہا تھا میں نے”
ناشتہ کرتے ہوئے فرحین کے سوال پر عیسیٰ کے ہاتھ رکے۔
“ناشتہ کرلوں؟”
عیسیٰ نے آنکھیں اٹھا کر اجازت طلب کی۔ فرحین خاموش ہوگئیں۔ وہ جانتا تھا کونسی بات ہونے کو تھی۔ لیکن اس نے آرام سے ناشتہ ختم کیا۔ پھر کہنے لگا۔
“مجھے نہیں یاد پڑتا نکاح کے وقت آپ نے مجھ سے پرامس لیا ہو جب آپ بولیں گی تو میں طلاق دے دوں گا”
وہ موبائل اسکرین کو دیکھ رہا تھا اور فرحین اس کے چہرے کو۔
“لیکن اب میں تم سے کہہ رہی ہوں۔ پیپر بنواؤ جلدی”
“اور اگر میں طلاق نا دینا چاہوں؟”
عیسیٰ نے ان کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔
“تمہیں دینی پڑے گی”
انہوں نے زور دیا۔
“میرا دل نہیں ہے”
عیسیٰ نے فون پر میوزک لگایا اور سیٹیاں بجانے لگا۔
“تم کوئی بات بغیر کسی ضد اور ہٹ دھرمی کے بھی مان سکتے ہو؟”
“آپ اتنی ڈیمانڈنگ کیوں ہوتی ہیں؟ کبھی نکاح کرلو, کبھی طلاق دے دو, آپ ہمیشہ اپنی مرضی کی باتیں منوانے کیلئے مجھے زور کیوں دیتی ہیں؟”
عیسیٰ نے دو بدو مقابلہ کیا۔
“عیسیٰ تم نے دوسری شادی کرنی ہے, تم اس شادی سے خوش نہیں ہو, عکس کو تمہارے اوپر میں نے مسلط کیا تھا۔ مجھے لگتا تھا شادی کے بعد تم اسے قبول کرلو گے۔ لیکن مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہے۔ تم دونوں کے درمیان کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ پھر عکس کی زندگی کیوں برباد کروں
تم تو اپنی زندگی افراح کے ساتھ بنا لو گے۔ میں اس یتیم بچی کی بددعائیں کیوں لیتی پھروں؟”
فرحین کی لمبی سی بات کے اختتام پر عیسیٰ کا ایک جملہ۔
“آپ کی ساری غلطیاں میں اپنے سر نہیں لے سکتا”
“تم اسے کیوں نہیں چھوڑنا چاہتے؟”
“میری مرضی”
عیسیٰ نے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گنگنانا شروع کردیا۔
“اسے تکلیف دے کر تمہیں کیا ملتا ہے؟”
فرحین نے بےبسی سے پوچھا کیونکہ وہ جانتی تھیں۔ عکس کی نفرت میں وہ اسے تکلیف دینے کیلئے محض ساتھ رکھنا چاہ رہا ہے۔
“نکاح نہیں کررہا تھا تو تکلیف دے رہا تھا۔ طلاق نہیں دے رہا ہوں تو تکلیف دے رہا ہوں, کس حال میں خوش ہوتی ہیں آپ دونوں ماں بیٹی؟”
عیسیٰ نے تحمل سے پوچھا۔
“یا اسے طلاق دو یا اس کے ساتھ صحیح ہوجاؤ”
فرحین کو خود نہیں سمجھ آرہی تھی وہ کیا کہہ رہی ہیں۔ اور کیا کرنا چاہئیے۔ فرحین کی بے چارگی پر عیسیٰ ہنسنے لگا۔ اسکا قہقہہ پورے گھر میں گونجنے لگا۔
“کب بڑی ہوں گی آپ ڈاکٹر فرحین”
پھر وہی جملہ۔ فرحین کو اب غصہ آنے لگا تھا۔ اور وہ سامنے بیٹھا ہنس رہا تھا۔
ان کے درمیان کسی کے قدموں نے مداخلت کی۔ کام والی ماسی ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوئیں۔
“باجی کیف بھائی اور ان کی خالہ آئی ہیں, باہر لان میں بیٹھے ہیں کہتے ہیں موسم اچھا ہے باجی کو باہر بلاؤ”
عیسیٰ نے ابرو اچکا کر سوالیہ نظروں سے فرحین کو دیکھا۔
“کیف میری دوست کا بھانجا ہے, انہیں عکس پسند ہے, تم دونوں کے تعلق کے بارے میں وہ سب جانتی ہے”
فرحین کی بات پر عیسیٰ کے اندر کا اطمینان جاتا رہا تھا۔
“انہیں بتادیں۔ مسلمان عورت ایک شادی کے اوپر دوسری شادی نہیں کرسکتی۔ یہ حق صرف مسلمان مرد کو حاصل ہے”
عیسیٰ نے اپنے اطمینان کے ساتھ اپنی ماں کا سکون بھی خاک میں ملانے کی کوشش کی۔
“اسلام نے عورت کو خلاء کا حق دیا ہے۔ فیصلہ اب تم خود کرلو”
فرحین نے آخری بات کہی اور ٹی وی لاؤنج میں اسے اکیلا جلنے کڑنے کیلئے چھوڑ گئیں۔
___________
عکس کچن میں کھڑی گرما گرم بھاپ اڑاتی چائے کی چار عدد پیالیوں کی ٹرے اٹھائے پیچھے مڑنے لگی تھی کہ اچانک سے کسی نے پیچھے سے آکر اس کے گرد بازو حمائل کئے اور اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ اس افتاد پر عکس کا ہاتھ برا طرح کانپا۔ وہ لڑکھڑائی اور ساری پیالیاں گر کر گرم چائے عکس کے ہاتھوں اور پیروں کو جلاگئی۔
سسسسسسسسسی کی درد ناک آواز عکس کے لبوں سے نکلی۔
وہ اس گرفت میں مچلی۔ عیسیٰ نے اس کے کان میں سور پھونکا۔
“پہلے بھی سمجھایا تھا غیر مردوں کے سامنے سج سنور کر جانے کی سزا اللہ بعد میں دے گا شوہر پہلے دے گا”
آنسوؤں کی لکیر عکس کی آنکھوں سے نکلی۔ فرش پر ٹوٹی ہوئی پیالیاں اور گرتی ہوئی چائے الگ منظر پیش کررہی تھیں۔
عکس کی مزاحمت پر عیسیٰ نے اپنے بازو ہٹائے۔ اس نے رخ موڑ کر عیسیٰ کو شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا۔ پھر اپنے جلے ہوئے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔ عکس کے چہرے پر تکلیف ہی تکلیف تھی۔ پیر الگ جلن سے دکھ رہے تھے۔ عیسیٰ نے بغیر سوچے سمجھے عکس کو دونوں بازؤں میں بھرا اور کچن سے ہوتا ہوا سیڑھیاں چڑھ کر اپنے روم میں آیا۔
اس دوران عکس کی مزاحمت جاری رہی۔ اس کے آنسو گرتے رہے۔ لیکن عیسیٰ ڈھیٹ بنا رہا۔ کمرے میں بیڈ پر بٹھا کر وہ اس نے میڈیکیٹڈ باکس تلاش کیا۔ پھر اس کے سامنے دو زانو بیٹھ کر اسکا ہاتھ تھاما۔ پھر اپنے دئیے زخموں پر خود ہی مرہم رکھنے لگا۔ عکس کے ہاتھ اور پیر عیسیٰ کے لمس سے واقف ہونے لگے تھے۔ وہ خاموش بیٹھی تھی۔ مزاحمت دم توڑ چکی تھی۔ وہ سمجھنا چاہ رہی تھی عیسیٰ کی یہ مہربانی تھی یا نفرت تھی؟ مہربانی تھی تو کس لئے تھی؟ کیا وہ عکس سے پھر سے محبت کرنے لگا تھا؟ کیا اسے عکس کو کھودینے کا خوف لاحق ہوگیا تھا؟ یا پھر یہ محض جیلسی تھی؟ جو اسے کیف سے ہونے لگی تھی؟ وقتی فیلنگز؟ اس شخص کو سمجھنا مشکل تھا۔ یہ شخص ایک دن دھوپ تو دوسرے دن چھاؤں۔ اور پھر چھاؤں سے ایکدم دھوپ میں لاکھڑا کرتا تھا۔
“دیکھو اس کمرے میں کتنے جالے لگ گئے ہیں, میرے آنے تک یہ روم لش پش کردو”
عیسیٰ نے تمام چیزیں اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے عکس کو زمہ داری سونپی۔
پھر عیسیٰ نے جھک کر عکس کی نم آنکھوں میں دیکھا اور کہا۔
“رات کو ملتے ہیں مسز”
عکس بت بنی بیٹھی رہی۔ جب عیسیٰ نے لاک لگایا تب اسے احساس ہوا وہ تو اسے اپنے کمرے میں بند کرکے چلا گیا ہے۔ کتنا سنگ دل انسان تھا۔ ان جلے ہوئے ہاتھوں سے وہ کمرے کے جالے کیسے صاف کرے گی؟
عکس نے اس کے کمرے کو غور سے دیکھا۔ یہاں تو کوئی جالا نہیں تھا۔ صاف ستھرا کمرہ تھا۔ مردانہ خوشبوؤں میں غرق۔ پھر اسے عیسیٰ کا جملہ یاد آیا مسز؟ یہی کہہ کر گیا تھا نا وہ؟ عکس نے خود کو پیچھے بیڈ پر گرایا۔ اور آنکھیں موندے لیں۔
___________
“کچن میں چائے گری ہے, عکس خود کدھر ہے؟”
فرحین نے سیڑھیاں اترتے عیسیٰ سے دریافت کیا۔
“آئی ڈونٹ نو”
عیسیٰ نے انجان بنتے ہوئے کندھے اچکائے اور ایک نظر دور بیٹھے کیف اور اس کی خالہ پر ڈال کر گھر سے باہر نکلا۔ فرحین نے عکس کو اس کے کمرے میں ڈھونڈا مگر عکس نہیں ملی۔ وہ پھر مہمانوں کے پاس جا بیٹھیں۔
مہمانوں سے فارغ ہوکر فرحین نے عکس کو ہر جگہ ڈھونڈ لیا۔ پورے گھر میں عکس کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ عیسیٰ کے پورشن میں تو عکس جا ہی نہیں سکتی تھی۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عکس وہاں موجود ہوسکتی تھی۔ انہیں یہ خیال بھی نہیں آیا نا انہوں نے اسے وہاں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ رات تک فرحین نڈھال ہوکر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں تھیں۔۔
“عیسیٰ! عکس پورے گھر میں نہیں ہے پتا نہیں کہاں چلی گئی ہے؟”
فرحین نے عیسیٰ کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر فوراً سے کہا۔
“بچی تھوڑی ہے جو گم جائے گی۔ ہوگی کسی کونے کھدرے میں”
عیسیٰ نے لاپرواہی سے کہا۔
“میرے ساتھ چلو مجھے ڈھونڈنا ہے اسے, اللہ جانے کدھر چلی گئی ہے”
“کیا مطلب؟ گھر سے بھاگ گئی ہے؟”
عیسیٰ نے انہیں مزید ستانے کی کوشش کی۔
“استغفرُللہ! فضول باتیں مت کرو”
“کیا پتا اسے کیف پسند نہیں ہو, اس لئے بھاگ گئی ہو”
“عیسیٰ! تم رہنے دو میں تمہارے پاپا کو کال کر لیتی ہوں, تم بجائے پریشانی سمجھنے کے مذاق بنا رہے ہو”
“آپ کی بیٹی گم گئی ہے, آپ ڈھونڈو میرا کیا کام”
عیسیٰ ہنسنے لگا۔ اور کندھے اچکا کر کر سیڑھیاں چڑھ گیا۔
فرحین کو عیسیٰ کی بےحسی پر رونا آگیا۔ وہ عیسیٰ کے پاپا کو کال کرنے لگیں۔
___________
ہوکے تیتھوں دور میں کھویا اپنے آپ نوں
ادھا حصہ میرے دل دا ہویا تیرے خلاف کیوں؟
ادھا دل چوہندا اے تینوں کرنی چوندا بات کیوں؟
تاریاں دی روشنی وانگوں گل نال لا لا رات نوں
گنگناتے ہوئے وہ روم میں داخل ہوا۔ عکس آنکھوں پر بازو رکھے بیڈ پر سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ عیسیٰ کی آواز سن کر اٹھی اور دروازے سے نکلنے کی کوشش میں آگے بڑھی ہی تھی کہ عیسیٰ اس کے راستے میں آیا۔
“میرے روم میں نیند اچھی آتی ہے ناں؟”
بےمقصد باتیں عکس نے اس کی بےمقصد باتوں پر سر جھٹکا اور اسے یوں دیکھا جیسے اس طرح دیکھنے سے وہ راستہ چھوڑ دے گا۔
عیسیٰ دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگیا۔
“مسز! اتنی گہری نیند بھی نہیں سونا چاہئیے کہ نمازیں قضا ہونے لگیں”
عیسیٰ اس کی نیند میں ڈوبی آنکھوں سے سمجھ گیا تھا کہ عکس نے سارا وقت یہاں سو کر گزارہ ہے۔ عکس جو پچھلے آدھے گھنٹے سے اسی غم میں پڑی ہوئی تھی عیسیٰ کی بات پر اسے رونا آگیا۔
“راستہ دو عیسیٰ”
نم آنکھوں اور نم آواز سے اس نے عیسیٰ سے راستہ مانگا۔
“میری لاش پر سے گزر کر جانا پڑے گا مسز”
عیسیٰ اسے جی بھر کر تنگ کرنا چاہ رہا تھا۔
“مجھ سے کوئی امید مت رکھنا میں اب تمہاری لاش کے اوپر سے بھی گزر کر چلی جاؤں گی”
عکس نے سخت لہجے میں کہا۔ اس بات کے پیچھے چھپے مفہوم کو سمجھتے ہوئے عیسیٰ کا دل مرجھانے لگا۔ پھر اس نے خود کو کمپوز کیا۔ اور ڈھیٹ ہوکر کہا۔
“کیف صاب سے نہ ملنے کا اتنا غصہ؟”
عیسیٰ کے اس بھونڈے مذاق پر عکس جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔
… جاری ہے
(اشنال)