Delusion – Episode 12
پچھلے تین دن سے افراح اور عیسیٰ کے درمیان بات چیت بند تھی۔ افراح کی اسنیپ اسٹوریز سے وقتاً فوقتاً پتا چلتا رہتا تھا کہ وہ اپنے فرینڈز کے ساتھ ہینگ آؤٹ کرنے کہاں کہاں گئی ہے۔ اس کی فرینڈ لسٹ میں زیادہ تعداد لڑکوں کی تھی۔ پہلے پہل عیسیٰ نے اس چیز کو معمولی سمجھا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے اندر کا مرد اسے احساس دلانے لگا کہ غیر مردوں سے دوستیاں رکھنے والی لڑکیاں اچھی لڑکیاں نہیں کہلائی جاتیں۔ وہ محسوس سب کرتا تھا لیکن ظاہر نہیں کرتا تھا۔ کہتا نہیں تھا کہ افراح مجھے یہ سب پسند نہیں ہے۔ لیکن جب اس دن افراح نے اس کی مخلصی پر انگلی اٹھائی تو عیسیٰ نے بھی کہہ دیا۔
یہی غصہ اس نے عکس پر نکالا تھا اس وقت بھی عیسیٰ اپنے روم میں کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھا خود کی توجہ گیم کی جانب لگانے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر ذہنی سکون جیسے ختم ہوکر رہ گیا تھا۔ کچھ وقت یونہی اسکرین پر گزارنے کے بعد بھی جب اس سے اپنے غصے اپنی اس بےچینی پر قابو نہیں پایا گیا تو وہ شاور کے نیچے جاکر کھڑا ہوگیا۔ ٹھنڈے پانی کے نیچے اس کے کھولتے ہوئے سر کو کچھ کچھ سکون نصیب ہونے لگا تھا۔ عادت کے پیش نظر بار بار بالوں میں ہاتھ پھیرنا۔ اپنے اشتعال کو کم کرنا۔ کبھی آنکھیں بند کرنا کبھی آنکھیں کھول دینا۔ عیسیٰ کی آج کیفیت ہی کچھ اور تھی۔ اس کے ذہن پر دو چہرے تھے۔ ایک افراح کا چہرہ۔ جسے پرواہ ہی نہیں تھا کہ وہ کس بات پر ناراض ہے۔ اور ناراض ہے تو منایا بھی جاسکتا تھا۔ وہ کام چھوڑا بھی جاسکتا تھا جو عیسیٰ کو پسند نہیں تھا۔ آخر کو عیسیٰ نے بھی افراح کے لئے بہت کچھ چھوڑا تھا۔
دوسرا عکس کا چہرہ تھا۔ جس نے اسے بےسکون کردیا تھا۔ اتنا روشن اتنا اداس چہرہ۔ اتنی گہری آنکھیں۔ اس کے جسم سے حرارت نکل رہی تھی۔ کیا اسے بخار تھا؟ عیسیٰ نے سوچا۔ مجھے کیا جو بھی ہو۔ اس خیال کو اس نے جھٹکا۔ پانی عیسیٰ کے اعصاب ٹھنڈے کرنے لگا تھا۔ جب وہ پرسکون ہوتا یا خوش ہوتا تو گنگنانے لگتا تھا۔ ابھی وہ تھوڑا بہت پرسکون ہوا تھا کہ گنگنانے لگا تھا۔
کیوں نشہ تیرا ہویا ہویا
کیوں نشہ تیرا ہویا ہویا
کیوں تیرے تے اکھاں جڑیاں
کی کر لو گی ساڈا دنیا
میں اج تک کسے دیاں نئیں سنڑیاں
تو مینوں پاگل کرجانا
تیرا میرا افسانہ
دیکھی ادھا رہ جانڑاں
______________
ڈنر ٹیبل اس گھر میں نہیں تھا دو لوگوں کے لئے اتنے بڑے ڈنر ٹیبل کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ کیونکہ اس گھر میں کوئی بھی کسی وقت کا کھانا بھی ساتھ بیٹھ کر نہیں کھاتا تھا۔ عکس کو ان کے گھر کا یہ نظام عجیب سا لگتا تھا۔ اس کے اپنے گھر میں تین لوگ جب تھے نانو ننا اور عکس۔ تب وہ تینوں, تینوں وقت کا کھانا کارپٹ پر دسترخوان بچھا کر کھایا کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ جب نانو کے گھٹنوں میں درد شروع ہوا تو تین افراد کا ڈنر ٹیبل اور چار کرسیاں بنائی گئیں۔ یہاں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کا رواج سرے سے تھا ہی نہیں۔ صرف رات کا کھانا فرحین اور عکس ملکر کھاتے تھے۔ عکس اور فرحین ڈنر کر چکے تھے۔ عکس عشاء کی نماز کیلئے اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔ عیسیٰ ٹی وی لاؤنج کے صوفے پر آکر بیٹھا۔ اور ریموٹ اٹھا کر چینل چینج کرنے لگا۔
“کھانا لاؤں یا وہی گندے برگر کھاؤ گے؟”
فرحین نے منہ بنا کر کہا۔
“نو ڈاؤٹ کہ آجکل آپ اچھے کھانے بنانے لگی ہیں بٹ باہر کے برگر کا کوئی مقابلہ نہیں”
عیسیٰ کی تعریف سن کر وہ معنی خیزی سے مسکرائیں۔
” چلو آج پھر تم باہر کا برگر ہی کھالو۔ کیونکہ آج کھانا میں نے بنایا ہے ویسے روز عکس بناتی تھی”
فرحین کی بات پر عیسیٰ کے گنگناتے ہونٹوں کو بریک لگا۔
“مطلب اس کے کتنے پسینے والے بال میں روٹی میں لپیٹ کے کھا گیا؟”
عیسیٰ کا دکھ ہی الگ تھا۔
فرحین کی ہنسی چھوٹی۔
“ایک نازک سی حسین سی لڑکی کا پسینے والا بال کھانے میں اور برگر پوائنٹ پر بیٹھے کالے میلے گندے پسینے سے شرابور جسم والے موٹے سانڈھ کے ہاتھ کے برگر کھانے میں بڑا فرق پتر”
“ماما میرا دل خراب نہیں کریں”
عیسیٰ نے گھوری دی۔ فرحین ہنس پڑیں۔
“موڈ اچھا لگ رہا میرے بیٹے کا آج”
“ہممم اور آپ کا دل کررہا اسکا موڈ اچھا کیوں ہے خراب کیوں نا کردوں”
عیسیٰ مسلسل گھورتا رہا۔
“میری توبہ”
فرحین نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اور کھانا لینے کچن میں چلی گئیں۔ عیسیٰ تب تک پھر گنگناتا رہا۔ اب وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا۔
اس کے سامنے ڈنر پڑا تھا۔ سفید چاول اور مسور کی پانی والی دال ۔ عیسیٰ نے پہلے برا سا منہ بنایا۔ پھر چاول اور دال کو مکس کرکے ایک چمچ بھر کر منہ میں لیا۔ اور پہلے سے زیادہ برا منہ بنایا۔
“ماما آپ ڈاکٹری ہی کیا کریں۔ آپ شیف بننے کی ناکام اداکاری نہیں کیا کریں۔ وللہ میرے سے نہیں کھانے ہورہا یہ ایک چمچ بھی”
عیسیٰ نے جلدی سے نوالہ ختم کیا اور اوپر بھر کر پانی کا گلاس پیا۔
فرحین ہنسنے لگیں۔
“جاؤ پھر برگر کھا آؤ زبردستی تھوڑی ہے بھئی”
فرحین نے عام سے لہجے میں کہا اور ریموٹ اٹھا کر اپنا فیورٹ چینل پر فیورٹ ڈرامہ دیکھنے لگیں۔
“میں نہیں جارہا باہر۔ میرا موڈ نہیں ہے۔ اپنی بیٹی سے بولیں مجھے کچھ اچھا سا بناکر دے”
االلہ اللہ کتنی مشکل سے یہ لفظ عیسیٰ کے منہ سے ادا ہوئے تھے۔ فرحین نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔
“یہ اسکا اپنا ٹائم ہے وہ اس وقت مصروف ہوتی ہے۔ مجھے بتادو میں بنادیتی ہوں کچھ اور”
“آپ کا دوسرا بھی ایسا ہی ہوگا۔ مجھے کچھ اچھا کھانا ہے بھوک لگی ہے مجھے”
عیسیٰ جھلایا۔
“تو میری جان آرڈر کرلو”
فرحین نے نہایت آسان حل پیش کیا۔
“کیوں وہ میرے لئے کھانا نہیں بنا سکتی؟”
اب عیسیٰ کو غصہ آنے لگا تھا۔
“پتر اس نے اپنی پینٹگز بنانی ہیں نیکسٹ منتھ جو نمائش ہونی ہے اس میں عکس کا آرٹ بھی پیش ہوگا۔ ٹائم
تھوڑا ہے اس کے پاس”
فرحین کی بات پر عیسیٰ کو پتنگے لگ گئے۔
“بس آرٹ ہو جائے گھر کے لوگ بھلے بھوکے سوجائیں”
عیسیٰ اپنی جگہ سے اٹھا۔
“کدھر؟”
“اس کے پاس جارہا ہوں, یا وہ کھانا بنائے گی یا اس کے برش توڑ کر آؤں گا”
عیسیٰ کے ارادے جان کر فرحین صدمے میں آگئیں۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر خاموش رہیں۔ اور اسے جانے دیا۔
________________
عیسیٰ نے عکس کے کمرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اندر سے لاکڈ تھا۔ بہت بار کوشش کے بعد دروازہ ہاتھوں سے پیٹنا شروع کیا۔
عکس گھبرائی۔ ماما تو اتنی بےدردی سے دروازہ بجا نہیں سکتی تھیں۔ لازمی یہ عیسیٰ ہی ہوگا۔ مگر اس وقت عیسیٰ کا اس سے کیا کام؟
عکس اپنی پینٹنگ پر برش پھیر رہی تھی۔ لیکن مسلسل دھڑ دھڑ بجتا یہ دروازہ اسے کام پر فوکس نہیں کرنے دے رہا تھا۔ دوسری طرف عیسیٰ نے قسم کھالی تھی جب تک دروازہ کھلے گا نہیں آج یہاں سے ہٹوں گا نہیں۔
آخر عکس کو دروازہ کھولنا پڑا۔ یہاں اس نے دروازہ کھولنا وہاں عیسیٰ نے اندر داخل ہوتے ہی عکس کو دیوار کے ساتھ لگادیا۔ اور خود اس کے دونوں اطراف دیوار پر ہاتھ رکھ کر گھورنے لگا۔
“کون تھا یہاں؟”
عیسیٰ کے انتہائی گھٹیا سوال پر عکس نے غصے کو پیا۔ عیسیٰ کی کڑی نظریں عکس کے وجود میں گھسنے لگیں۔
“کوئی نظر آرہا ہے؟”
سوال کے بدلے سوال کیا گیا۔ پھر پوچھا گیا
“دروازہ کھولنے میں اتنا وقت کیوں لیا؟”
“میں کام کررہی تھی”
“کام اتنا ضروری ہے کہ باہر کھڑے شخص کو انتظار کرواؤ گی؟ کوئی مجبوری بھی ہوسکتی ہے, دروازے پر ماما بھی ہوسکتی ہیں, ماما کو بھی اتنے بھاؤ دکھاتی ہو؟”
عیسیٰ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور کھا جانے لہجے میں بات بھی کررہا تھا۔
“ماما اتنی بدتمیزی سے دروازہ نہیں بجاتیں۔ وہ کال کر لیتیں ہیں”
“تم کہنا چاہ رہی ہو میں بدتمیز ہوں؟”
“دروازہ پیٹنے کے اسٹائل کا کہہ رہی ہوں”
عکس آج اسکا مقابلہ کررہی تھی۔
ڈارک بلیو کلر میں اسکی گوری رنگت اور بھورے بال اسے نہایت حسین بنارہے تھے۔ عیسیٰ کی موجودگی میں اس کے چہرے کے رنگ ہی اور ہوتے تھے۔
“دس منٹ ہیں تمہارے پاس کچن میں جاؤ اور کچھ بناکر لاؤ۔ میں یہیں بیٹھا ہوں”
وہ آرڈر دے کر عکس کے کمرے میں گھومنے لگا۔
عکس دو تین سیکنڈ اسے دیکھنے کے بعد بولی۔
“کیا بناؤں؟”
“ویسے مجھ سے پوچھ کر بناتی ہو؟”
بہت بدتمیز تھا یہ شخص وللہ بہت زیادہ بدتمیز۔
کچھ مزید کہنے سے بہتر تھا کمرے سے نکل جانا۔ عکس کچن میں آکر سوچنے لگی۔ پھر کچھ سوچ کر اس نے فریز ہوئے شامی کباب فرائی کرنے کا سوچا۔
دوسری طرف عیسیٰ عکس کے آرٹ کو ستائشی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ آرٹ کا سامان قریب ہی بکھرا پڑا تھا۔ مختلف رنگوں میں ڈوبے برش۔ جو تصویر وہ پینٹ کرتی ہوئی گئی تھی وہ ایک لڑکی کی پینٹنگ تھی۔ جس کی آنکھیں بند تھیں اور دونوں کناروں سے رنگین آنسو کی لائینیں بنی ہوئی تھیں۔ ادھوری زلفیں۔ تصویر کے چہرے کی اداسی بھی رنگین تھی۔ عیسیٰ نے کچھ دیر اس کے کام کو سراہا پھر شیطانی سوچ اس پر حاوی ہوئی۔ اس نے ایک برش اٹھایا۔ گہرے سبز رنگ میں ڈبویا اور پھر اس قدر محنت اور صفائی سے بنائی گئی اس تصویر پر آڑھی ترچھی لائنیں لگا کر گند کرنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عکس کا شاہکار سبز رنگ کی بے ترتیب لائنوں کیے نیچے چھپ گیا۔ اتنی بری حالت اس شاہکار کی؟ عیسیٰ ہنسنے لگا۔ پھر تصویر کے نیچے سفید کاغذ پر لکھا۔
“دروازہ دیر سے کھولنے کی سزا”
عکس جب کھانا لیکر اپنے کمرے میں آئی تو عیسیٰ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ وہ کھانا لیکر ٹی وی لاؤنج میں گئی عیسیٰ وہاں بھی نہیں تھا۔ ابھی بھی وہ پلٹی ہی تھی کہ وہ عکس کے سامنے آیا۔ عکس نے کھانا اسے پکڑانا چاہا۔ عیسیٰ نے پلیٹ میں شامی کباب دیکھ کر منہ بنایا۔
“کباب تو ماما بھی فرائی کرسکتی تھیں۔ تم سے نہیں ہورہی تھی زحمت تو صاف بول دیتی۔ یہ احسان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
وہ ابھی کچھ بولنے کے لئے لب کھولنا چاہ رہی تھی کہ عیسیٰ پھر بول پڑا۔
“باہر جو کتا بول رہا ہے نا اس کو کھلا آؤ یہ, ہڈ حرام لوگ بس کھانا اور سونا ہی آتا ہے”
اتنی عزت افزائی پر عکس کے گلے میں انسوؤں کا گولا سا بن گیا۔ عیسیٰ نے گھر کا دروازہ دھاڑ سے بند کیا۔ کتے کے شور کی آواز ختم ہوئی۔ لیکن عکس وہیں کھڑی رہی۔
____________
خدا گواہ تھا جب بھی وہ تھوڑا سا نارمل ہونے کی کوشش کرتی تھی۔ اپنی بے رنگ اور سپاٹ زندگی میں ہلچل سی پیدا کرنے لگتی تھی تو اچانک کچھ نا کچھ برا ہو جاتا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں آئی۔ اسکا ذہن خالی تھا وہ بس چل رہی تھی۔ اس نے خود کو آئینے میں دیکھنا چاہا۔ لیکن یہ کیا آئینے پر تو سبز رنگ کے پینٹ سے ضرب کا نشان بنا تھا۔ جس کا مطلب کروس ہوتا ہے۔ اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے اپنے شاہکار کے پاس گئی۔
اتنی بری حالت؟ تین دن کی مسلسل محنت کے بعد یہ ایک شاہکار اس سے بن پایا تھا جسے عیسیٰ نے اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ کیسے کس طرح اس نے خود کو جوڑ توڑ کر اس کام پر لگایا تھا۔ دروازہ دیر سے کھولنے کی سزا۔ اتنی بری سزا کون دیتا ہے؟ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔
“اب میں خود کو دوبارہ سے کیسے جوڑوں گی عیسیٰ؟”
وہ روتے ہوئے کہی رہی تھی۔
وہ نارمل نہیں تھی۔ وہ کسی بھی نارمل انسان کے جیسے نارمل نہیں تھی۔ کہ ایک شاہکار ضائع ہو جانے پر دوسرا بنالیتی۔ وہ ماہر ضرور تھی مگر اس وقت وہ نارمل کنڈیشن میں نہیں تھی۔ وہ خود کو بمشکل جوڑ توڑ کر یہ کام کرنے لگی تھی۔ وہ اپنے اندر کی جنگ لڑی رہی تھی۔ اپنے آپ سے جنگ کرنا۔ خود کو ترتیب دے کر کھڑا کرنا۔ بند ہوا میں سانس لینا۔ بند ذہن کو کھول کر آرٹ بنانا۔ بےرنگ آنکھوں سے رنگ بھرنا۔ ایک ابنارمل انسان کیلئے جس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے یہ ایک نارمل انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔
وہ رو رہی تھی۔ اور باہر بارش ہورہی تھی۔ بادل گرج رہے تھے۔ لائٹ چلی گئی تھی۔ کھڑکی کے شیشوں سے بجلی کی روشنی ٹکرا کر پورے کمرے میں ایکدم سے روشنی پیدا کررہی تھی۔ وہ ان موسموں کی عادی تھی۔ بارش کی آواز اس کی من پسند آوازوں میں سے ایک تھی۔ اس جدید دور میں بھی اسے موم بتی جلاکر اسے دیکھتے رہنا پسند تھا۔ وہ سادہ سی لڑکی تھی۔ اس کی پسند بھی سادہ سی تھی۔ لیکن پھر اس نے عیسیٰ کو کیسے پسند کرلیا؟ وہ تو جدید دور کا رچا بسا پیکر تھا۔ شاید زندگی میں انسان ایک ہی غلطی کرتا ہے اور وہی ایک غلطی انسان کو بھاری پڑ جاتی ہے۔
_____________
“بارش ہورہی ہے پاکستان میں؟”
“ہممم ابھی اسٹارٹ ہوئی ہے”
افراح اور عیسیٰ پھر سے ایک ہوگئے تھے۔ پہلی افراح نے کی تھی۔ شاید وہ دوستوں کیساتھ وقت گزار کر اب تھک چکی تھی۔
“مجھے تو بہت ڈر لگتا ہے بارش سے بجلی چمکنے سے بادلوں کی آواز سے”
“اس لئے تو تم لڑکیوں کو گرلز بولتے ہیں”
عیسیٰ ہنسا تھا۔
“تمہیں بھی کسی چیز سے کبھی ڈر لگا ہے؟”
افراح نے یونہی پوچھا۔
“اونہہہہ میں کسی سے نہیں ڈرتا”
اس نے بڑے غرور سے کہا۔
“کسی کو کھونے سے بھی ڈر نہیں لگتا؟”
“ڈرے وہ جو ملک عیسیٰ کو کھوئے”
اس نے ہنس کر کہا۔ بارش تیز تھی عیسیٰ کی آواز بارش کی آواز کو چیرتی ہوئی جارہی تھی۔ وہ بہت اونچا بولتا تھا۔ عام حالت میں بھی ایسے ہی اونچا۔
افراح خاموش رہی تو عیسیٰ بولا۔
“افی! تمہیں بارش پسند نہیں ہے تو پھر بارش میں بھیگنا بھی نہیں پسند ہوگا؟”
“ہممم مجھے تو سخت الرجی ہے بارش میں بھیگنے سے ۔ فلو ہو جاتا ہے مجھے”
افراح نے نالاں ہوکر کہا۔
“یہ دیکھو میں بارش میں نہا رہا ہوں, بارش مجھے سب سے زیادہ پسند ہے, ہر چیز سے زیادہ”
عیسیٰ نے افراح کو ویڈیو کال پر لیا۔ اسکا فون بھیگ رہا تھا۔ افراح نے اسے بارش میں ہنستے ہوئے دیکھا۔ وہ شاید کسی روڈ پر کھڑا تھا ملگجا سا اندھیرا تھا۔
عیسیٰ کی ہنسی کو اچانک بریک لگے۔ وہ بارش سے ہٹ کر پان شاپ کے شیڈ کے نیچے آکر کھڑا ہوا۔ اس نے افراح سے پوچھا۔
“بارش سے ڈر لگتا ہے اور غیر مردوں کا ہاتھ پکڑ کر چلنے سے ڈر نہیں لگتا”
عیسیٰ کا لہجہ عجیب ہوا۔
“تمہاری ہر بات میرے فرینڈز پر آکر کیوں ختم ہوتی ہے؟”
افراح نے سخت لہجے میں پوچھا۔ وہ بھی نہیں مانتی تھی کہ وہ غلط کرتی تھی۔ کیسے مانے گی اس کی دنیا میں یہ سب عام تھا۔ لیکن خود کو جدید دنیا کا سمجھنے والا اس بات کو کیوں نہیں سمجھ پارہا تھا؟
“ویسے ہی پوچھ رہا ہوں۔ طنز نہیں کررہا”
“مت پوچھو, ابھی مشکل سے سب صحیح ہوا ہے۔ ابھی دوبارہ سے وہی سب اسٹارٹ کرکے خراب مت کرو”
افراح نے اسے روکا۔
“ہممم اوکے”
عیسیٰ نے بہرحال خود کو نارمل ظاہر کیا۔ مگر اندر سے وہ جھلس رہا تھا۔
…جاری ہے
(اشنال)