Delusion – Episode 11

وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ عیسیٰ کا وقت اچھا تھا اسے خوشی خوشی میں وقت کے گزرنے کا احساس نہیں ہوا تھا۔ عکس کا برا وقت سست روی سے چل رہا تھا۔ نا وقت بدلنے کی کوئی امید دکھائی دیتی تھی, نا دکھ کی کیفیت بدلتی تھی۔ وہ غم میں آگے بڑھ رہی تھی۔ بدلاؤ صرف اتنا آیا تھا کہ اب اس نے ری ایکشن دینا چھوڑ دیا تھا بلکل خاموشی اختیار کرلی تھی اپنے ہونے کے احساس کو من و مٹی تلے دبا چکی تھی۔ عیسیٰ اب بھی اسے ویسے ہی تکلیف سے دو چار کرتا رہتا تھا۔ مگر اب عکس چیخ و پکار نہیں کرتی تھی۔ اپنے غم کو اندھیری راتوں میں پروردگار عالم کے سامنے سنایا کرتی گھنٹوں اپنے رب سے باتیں کرتی تھیں۔ انہیں اپنی پریشانی اپنی تکلیف سنایا کرتی تھی اور صبح اٹھ کر پھر وہی معمول کے مطابق اپنی زمہ داریاں نبھاتی تھی۔
عیسیٰ کا وقت گیمنگ روم میں گزرتا۔ جہاں اسے کمپنی دینے کو اسکرین پر افراح جہانگیر ہمہ وقت موجود رہتی تھی۔ کسی چیز کی کمی کا احساس نہیں ہوتا تھا اس شخص کو۔ کوئی بےچینی اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی تھی۔ کوئی کسی قسم کا ریگریٹ۔ کوئی یاد, اپنی کی گئی کوئی ناانصافی، کوئی بےرحمی, کچھ بھی اسے محسوس نہیں ہوتا تھا۔ لاپرواہ ہشاش بشاش ہنستا مسکراتا قہقہے لگاتا ملک عیسیٰ اعوان۔
معمول کے مطابق شام پانچ بجے عیسیٰ اپنے گیمنگ روم میں بیٹھا افراح کے ساتھ گیمز کھیلنے میں مصروف تھا۔ فرحین گھبرائی ہوئی بھاگتی اس کے روم میں داخل ہوئیں۔
“عیسیٰ پتر جلدی تھلے آ عکس نوں گردے دی تکلیف ہورہی اے اونوں موٹر سائیکل تے بٹھا کے ہسپتال لے جا”
شاید وہ بھول گئیں تھیں پریشانی میں کہ دونوں بچے ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی تین مہینے ایک دوسرے کو دیکھے بغیر رہ رہے تھے۔
ماما کی آواز افراح نے بھی فون سے سنی تھی۔
“میں بزی ہوں”
اس نے بس اتنا جواب دیا اور دوبارہ گیم کھیلنے لگا۔
“پتر ضد نئیں کریدا, بڑی تکلیف اے اونوں, ہنڑ میں دروازے وچ کھلو کے کسی منڈے نوں پھڑاں؟ چنگی گل تے نئیں لگدی؟”
انہوں نے اپنے خالص پنجابی لہجے میں پیار سے کہا۔
” ماما میں نے آپ سے اس وقت کہا تھا مجھ سے اس سب کے بعد کسی چیز کی کوئی امید نہیں رکھنا آپ دونوں”
“پتر او چل نئیں سکدی, بڑی تکلیف ہورہی اونوں”
عیسیٰ نے اپنی چئیر کا رخ فرحین کی طرف موڑا۔
“تو؟ یہ بھی میں نے کیا ہے؟”
کتنا سفاک تھا یہ شخص۔
“رکشہ ڈھونڈنے میں ٹائم لگتا ناں عیسیٰ, گاڑی تمہارے پاپا لے گئے ہیں”
کس شخص کی منتیں کررہی تھیں وہ؟ جسے اس کے درد میں مبتلا ہونے سے خوشی ملتی تھی۔
“سوری میرے پاس فضول ٹائم نہیں ہے”
وہ واپس چئیر موڑ کر گیم میں مصروف ہوگیا
“ٹھیک اے پتر تو کھیل اپنی گیم”
فرحین نے بےدلی سے کہا اور اس کے کمرے سے باہر نکل کر دروازہ بند کردیا۔
“تم مجھ سے جھوٹ بولتے رہے؟”
افراح نے پوچھا۔
“کیسا جھوٹ؟”
“کہ تمہارا اس گھر میں عکس سے کبھی سامنا نہیں ہوا”
“ہاں تو نہیں ہوا”
عیسیٰ نارمل رہا۔
“اگر سامنا نا ہوا ہوتا آنٹی تمہیں کبھی ایسے بلانے نہیں آتیں”
“اب تم بھی شک کرو گی؟”
“پھر انہیں عکس کیلئے تم ہی کیوں نظر آئے؟”
افراح شک و شبہ میں پڑ گئی تھی۔
“کیونکہ پاپا گھر نہیں تھے”
عیسیٰ نے آرام سے کہا۔
“عیسیٰ مجھے دھوکے میں مت رکھنا”
“میں تمہارے جیسا نہیں ہوں جو کسی بھی لڑکے سے بات کرلیتی ہے کسی کیساتھ بھی کھیل لیتی ہے کسی بھی لڑکے کیساتھ کہیں بھی چلی جاتی ہے”
عیسیٰ کئی دنوں کا بھرا بیٹھا تھا۔ اسے بلکل اچھا نہیں لگتا تھا افراح کا ہر دوسرے لڑکے سے دوستی کرلینا۔
“میں تو شروع سے ایسی تھی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سب دوست ہیں میرے”
“جس طرح میں تمہاری ان لڑکوں سے دوستی کو دوستی سمجھ لیتا ہوں اسی طرح تمہیں بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ اور آئندہ مجھ پر شک مت کرنا”
دونوں کے درمیان یہ پہلی بحث تھی۔
“وہ تمہاری بیوی ہے چوبیس گھنٹے تمہارے ساتھ رہتی ہے, وہ لڑکی تمہیں منانے کیلئے کتنی جگہ کتنے لوگوں کے پاس گئی تھی اب ایک گھر میں رہ کر تم سے دور رہے گی میں نہیں مان سکتی”
افراح پھٹ پڑی۔
“وہ صرف کاغذی بیوی ہے, تین مہینے ہوچکے ہیں نا میں نے اسے دیکھا ہے نا سنا ہے, نا مجھے اس سے کوئی لینا دینا ہے۔ فضول کا شک مت کرو”
عیسیٰ نے اپنے غصے کو آواز اونچی رکھ کر نکالنا چاہا۔ یہ ان دونوں کے درمیان پہلی لڑائی تھی۔
“مجھے دھوکے میں مت رکھنا۔ میں ان لڑکیوں کی طرح نہیں ہوں جو مردوں سے دھوکے کھاکر رو دھو کر صبر کرلیتی ہیں”
افراح کی دھمکی پر عیسیٰ کا پارہ مزید ہائی ہوا۔
“جو کام میں نے کیا نہیں ہے اس کا الزام لگاؤ گی تو کرکے دکھا دوں گا”
“تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟”
“دھمکی پہلے کس نے دی ہے؟ ہر دوسری لڑکی پر منہ مارنے والا ہوتا تو تمہارے الزام سے مجھے فرق نا پڑتا۔ تمہارے لئے تو میں سب کچھ چھوڑ کر آیا تھا۔ تمہارے علاؤہ تو میرے کانٹیکٹ لسٹ میں کوئی لڑکی نہیں ہے۔ تمہارے بےشمار میل فرینڈز کو دیکھ کر بھی میں کسی لڑکی سے دوستی نہیں کررہا۔ اس کے باوجود تم نے میرے خلوص پر شک کیا۔ لعنت ہے مجھ پر, اپنی ہونے والے بیوی کو لڑکوں کیساتھ دیکھ کر آنکھیں پھیر لیتا ہوں۔ دل کو سمجھا لیتا ہوں کہ یہ عام بات ہے۔ ایسا نہیں تھا میں تمہارے لئے میں نے خود کو بدلا۔ تمہاری خوشی میں خوش ہوا۔ اور تم؟ تم نے ایک منٹ میں میرے خلوص کو میرے منہ پر دے مارا ہے”
عیسیٰ نے آج تک جو محسوس کیا تھا۔ وہ کہہ دیا تھا۔
“میں جیسی تھی تم نے ویسی ہی مجھے پسند کیا تھا۔ یہ سب لڑکے تب بھی میرے دوست تھے۔ اور تمہیں کسی سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بلکہ تم تو میرے دوستوں سے دوستی کررہے تھے۔ اب تم کس لئے سو کالڈ نیرو مائینڈ لوگوں کی طرح بی ہیو کررہے ہو؟”
“افراح میں تم سے مزید بحث نہیں کرنا چاہتا۔ آئندہ مجھ پر الزام لگانے سے پہلے خود کے گریبان میں جھانکنا۔ بعد میں بات کروں گا”
عیسیٰ نے یہ کہہ کر کال کاٹ دی۔
من پسند جگہیں اکثر انسان کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ ہمیں اس من پسند جگہ کو چھوڑنا پڑتا ہے۔
___________

عکس کی طبیعت اب کچھ بہتر تھی۔ وہ خود کو مصروف رکھنا چاہتی تھی۔ فارغ ذہن باغی ہو جاتا ہے۔ اور باغی ہوجانا عکس کیلئے بلکل بھی اچھا نہیں تھا۔ اسے صبر کرنا تھا۔ خاموش رہنا تھا۔ گھر کے مختلف کاموں کیلئے دو ملازمہ موجود تھیں۔ مگر کچن کا کام عکس ہی دیکھتی تھی۔ اسے کوکنگ کا شوق تھا۔ اب اس نے دوبارہ سے آرٹ بھی شروع کردیا تھا۔
صبح کے دس بج رہے تھے۔ اس وقت عکس کچن میں فریج کھول کر کھڑی جائزہ لے رہی تھی۔ وہ آج کے لنچ کیلئے چیزیں تلاش کررہی تھی۔ اس نے کچھ سوچا پھر فریج بند کیا اور کچن سے نکلنے لگی کہ اچانک دروازے میں تیزی سے اندر داخل ہوتے وجود سے ٹکرائی۔ تصادم ہوا۔ عکس کا سر مقابل کی ٹھوڑی میں جاکر وجا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور پتھر کی ہوگئی۔
ملک عیسیٰ اعوان دروازے کے عین بیچ میں اپنی ٹھوڑی سہلاتا ہوا پایا گیا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ اتنے قریب سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ عکس کو ہوش آیا اسے عیسیٰ کے پہلو سے گزرنے کا راستہ نا ملا تو واپس کو کچن کی طرف رخ موڑ لیا۔ اور شش و پنج میں پر گئی۔ کہ اب کیا کرے۔
عیسیٰ وہیں کھڑا اس کے حلیے پر غور کرنے لگا ۔ بےبی پنک کلر کا سوٹ۔ گردن سے لپٹا لمبا سا دوپٹہ۔ کیچر میں مقید بے ترتیب سے بال۔ عیسیٰ اپنے قدموں کو عکس کے قریب لے گیا۔ وہ عکس کے بلکل پیچھے کھڑا تھا۔ عکس اگر رخ موڑتی تو دوبارہ سے تصادم ہو جاتا۔
“کسی نے تمہیں تمیز نہیں سکھائی۔ کچن میں بالوں کو ڈھانپ کر جاتے ہیں”
عیسیٰ خوامخواہ اس پر برسنے لگا۔ عیسیٰ کی نظریں عکس کے بالوں میں الجھی ہوئی تھیں۔ عکس نے پلٹ کر خاموشی سے عیسیٰ کے برابر سے نکلنا چاہا۔ عیسیٰ نے بازو آگے کرکے اسکا راستہ روکا۔ ایک بار پھر دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا۔
“گونگی ہو کیا؟ یا سنائی نہیں دیتا؟ دوپٹہ گلے میں لٹکانے کیلئے نہیں ہوتا”
عیسیٰ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔ عکس نے نظریں جھکائیں اور گلے میں پڑے دوپٹے کو سر پر لیا۔
“میرے دوستوں کی تفریح کا سامان بننا چاہتی ہو؟”
عیسیٰ نے دور سے آتی اپنے نام کی پرزور پکار پر عکس کو گھورا۔ شاید عیسیٰ کا کوئی دوست گھر میں داخل ہوا تھا۔
عیسیٰ کے لفظ عکس کے دل میں کانچ کی طرح چبھے۔ آنکھیں نم ہونے لگیں۔ اس نے پھر عیسیٰ کی دوسری سائیڈ سے نکلنا چاہا۔ عیسیٰ پھر اس کے سامنے آیا۔
“گھٹیا لڑکیاں مردوں کے سامنے ایسے جاتی ہیں”
عیسیٰ نے پھر عکس کے حلیے پر طنز کیا۔ عکس کا دوپٹہ سر پر تو تھا مگر باڈی کو کور کرنے میں ناکام تھا۔ وہ گھبرا گئی تھی۔ اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔ گھٹیا لفظ پر عکس نے خود پر ضبط کیا۔ ایکدم سے اس کے اندر ہمت آئی اس نے عیسیٰ کو دونوں ہاتھوں سے دور دھکیلا عیسیٰ لڑکھڑایا اور عکس بجلی کی سی تیزی سے کچن سے نکلی۔ عیسیٰ کی خون خوار نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا۔
“تم لوگ بیل بجاکر بھی آسکتے ہو”
اب عیسیٰ اپنے دوستوں کر برسنے لگا۔
“اچھا جی اب تیرے گھر آنے کیلئے بیل بجا کر اجازت نامہ لینا پڑے گا”
ایک دوست نے کہا
“پہلے تو نے ملنا کم کردیا ہے عورتوں کی طرح گھر پر بیٹھا رہتا ہے۔ اب ہمارے گھر پر آنے بھی اعتراض ہے تو صاف صاف بول دے تجھے ہم سے دوستی نہیں رکھنی ہم نہیں تیرے پیچھے آئیں گے”
دوسرے دوست نے شکوہ کیا۔
“میں صرف یہ بول رہا ہوں۔ اندر آنے سے پہلے پوچھ لیا کرو۔ یہاں عورتیں بھی رہتی ہیں”
عیسیٰ نے سمجھانے کی کوشش کی۔
“ایک نیا اضافہ بھابھی کا ہوا ہے بس۔ جتنی عزت ہم ماما کی کرتے ہیں اتنی ہی بھابھی کی بھی کرتے ہیں۔ نظریں جھکا کر بھابھی سے بات کرتے ہیں ہمیں پتا ہے تو ہمیں کچا کھا جائے گا”
اور عیسیٰ کا میٹر شوٹ تو یہیں ہوگیا تھا۔ کہ یہ لوگ بھابھی سے بات بھی کرتے ہیں۔ اسے تو پتا ہی نہیں تھا۔ اس گھر میں یہ بھی ہورہا تھا۔
“اپنے کام سے کام رکھا کرو۔ تم لوگوں کو پتا ہے میں شام کو اٹھتا ہوں پھر دن میں گھر آنے کی کیا ضرورت ہے؟”
عیسیٰ غصے سے بپھرا
“اب تو گھر آنے سے روک رہا ہے دیکھ عیسیٰ”
دوست نے کہا۔
“ہاں روک رہا ہوں کیا کرلے گا؟”
عیسیٰ نے بدتمیزی کی۔
“چل یار چلتے ہیں۔ ایسے عزت کرتے ہیں بچپن کے دوستوں کی”
ایک دوست نے دوسرے دوست سے دل شکستہ ہوکر کہا اور دنوں گھر سے نکل گئے۔
عیسیٰ کا غصہ کسی طور کم نہیں ہورہا تھا۔ کبھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا۔ کبھی ادھر ادھر کام میں گھومتا اچانک اس نے کچھ سوچا اور تیزی سے بھر کے اندر داخل ہوا۔
عکس گھٹنوں میں سر دئیے آنسو بہا رہی تھی جب دھاڑ سے دروازہ کھلا اور عیسیٰ دھاڑتا ہوا اس کے کمرے میں داخل ہوا
“میرے دوستوں سے کیا باتیں کرتی رہتی ہو؟”
اس کے سر پر کھڑا ہوکر پوچھنے لگا۔
عکس نے گھٹنوں سے سر اٹھایا۔ بھیگی پلکیں۔ سرخ عارض آنسووں سے بھیگے لب۔
عیسیٰ کا دل پر بھر کو ڈگمگایا لیکن پھر عکس کی خاموشی اسے غصہ دلانے لگی۔ عکس اس وقت اپنے بیڈ پر گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی ہوئی تھی۔ عیسیٰ نے عکس کو بازو سے پکڑ کر کھینچا اس قدر زور سے کھیچنے پر عکس بیڈ پر سے گرتے گرتے بچی۔ عیسیٰ نے سختی سے اسکا بازو کھینچ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔
“میرے دوستوں پر نظر رکھتی ہو؟ شرم نہیں آتی؟”
عیسیٰ گرج رہا تھا اور عکس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے
“منہ میں زبان میرے دوستوں کے آگے چلتی ہے بس؟”
عیسیٰ نے بازو چھوڑ کر اس کے منہ کو دبوچ لیا۔ اس کی گرفت اتنی سخت تھی کہ عکس نے بےاختیار سسکی لی۔
“کیا بولتے ہوں گے وہ باہر جاکر؟ عیسیٰ کی بیوی ہم سے باتیں کرتی ہے؟”
“بیوی مانتے کب ہو آپ؟”
عکس کے منہ سے لفظ نکلے۔ عیسیٰ کو اپنی بےاختیاری پر لہر چڑھی۔ عکس شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔
“تم جیسی کو اپنی بیوی مرکر بھی نا مانوں میں”
عیسی نے نخوت سے کہا۔
“تو پھر اتنا واویلا کس لئے؟ کسی نے کچھ بولا تو کہہ دینا بیوی نہیں مانتا اس کو”
عکس نے نم آنکھوں سے نرمی سے کہا۔
“بکواس بند کرو, حرکتیں ٹھیک کرو اپنی ورنہ اس گھر سے بھی نکال دوں گا”
عیسیٰ نے دھمکی دے کر اسے بیڈ کی طرف پھینکنا چاہا۔ وہ لڑکھڑائی اور سائیڈ ٹیبل پر جاکر گری۔ گرنے سے سائیڈ ٹیبل پر رکھا لیمپ بہت بری طرح اس کی کمر میں چبھا۔ اس نے دیوار کا سہارہ لیا۔
عیسیٰ کو احساس ہوا۔ ایک لمحے کو اسے فکر ہوئی۔ لیکن پھر جلد ہی بےحسی اس کے اوپر حاوی ہوگئی۔
“دوبارہ اپنے دوستوں کے منہ سے تمہارا نام سنا۔ میں اپنے ہاتھوں سے تمہارا گلا گھونٹ دوں گا۔ یہ بےغیرتی اس گھر میں نہیں ہونے دوں گا”
عیسیٰ پھنکار کر چلا گیا۔ عکس زمین پر بیٹھ کر روتی رہی۔

______________

“عکس باجی آپ کو فرحین باجی بلارہی ہیں”
ملازمہ نے اسے آواز لگائی۔
اس نے آنکھیں کھولیں اور خود کو کارپٹ پر پڑے پایا۔
“آتی ہوں”
بہت آہستہ آواز میں اس نے ملازمہ سے کہا۔
وہ بے ترتیب کارپٹ پر چت لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے خود کے ٹکڑوں کو جوڑا۔ اٹھ کر بیٹھی۔ بال درست کرکے کیچر میں بند کئے۔ نظروں نے دیوار پر لگی گھڑی کو تلاشا۔ شام کے پانچ بج رہے تھے۔
“استغفرُللہ! عصر کی اذان ہے یہ؟”
اس نے بے ساختہ دل پر ہاتھ رکھا۔ ظہر کی نماز یہیں پڑے پڑے جاتی رہی تھی۔ پانچ وقت نماز پڑھنے والوں کا یہ بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ وہ بےسکون ہوگئی تھی۔ اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا۔ روتے روتے وہ سوئی اور اتنا سوئی کہ اسے کسی چیز کا ہوش نہیں رہا۔
پہلے اس نے عصر کی نماز ادا کی پھر فرحین کے کمرے کا رخ کیا۔ فرحین اسے ٹی وی لاؤنج میں ہی مل گئیں۔
“السلام علیکم ماما”
“وعلیکم! آج لنچ نہیں بنایا عکس؟, کچن سنسنان پڑا ہے”
فرحین نے استفسار کیا۔
“سوری ماما! پتا نہیں میں اتنا زیادہ کیسے سوگئی آج”
وہ جی بھر کر شرمندہ ہوئی۔
فرحین نے جانچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ کر کہا۔
چلو کوئی بات نہیں, اچھا کیا تم نے اپنی نیند پوری کی۔ اب بتاؤ کیا کھانا ہے بہت بھوک لگی ہے آرڈر کر لیتے ہیں ابھی کچھ”
“کچھ بھی منگا لیں”
اس نے آہستہ سے کہا اور دوسرے صوفے پر بیٹھی۔
“کوئی بات ہوئی ہے؟”
فرحین نے عکس کی سوجھی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔
“عیسیٰ صبح دس بجے کچن میں آیا تھا”
موبائل پر حرکت کرتے فرحین کے ہاتھ رکے۔
“پھر؟”
عکس نے ساری بات بتادی۔
“کچھ دنوں سے بڑا پریشان ہے, بتاتا نہیں ہے, الجھا ہوا ہے”
فرحین نے کچھ سوچتے ہوئے اپنا خیال ظاہر کیا۔
“کوشش کرنا زیادہ سامنا نا ہو تم دونوں کا”
عکس خاموش رہی۔ تو فرحین نے کہا
“کمرے میں جاؤ, فوڈ ڈلیور ہوتا ہے تو میں لیکر آتی ہوں۔ ڈنر آج میں بنالوں گی, تم بس کمرے میں رہو”
عکس ان کی بات پر سر ہلایا اور اپنے روم میں چلی آئی۔

…جاری ہے
(اشنال)

Your thoughts matter – share them below!

Scroll to Top