Delusion - Episode 10

“یہ سفید پہاڑ جانتے ہیں؟”
افراح نے پوچھا
“کیا جانتے ہیں؟”
عیسیٰ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
“یہی کہ اگلی بار جب ہم ان سے ملنے آئیں گے تو ایک دوسرے کا ہاتھ بغیر کسی جھجھک کے تھام سکیں گے”
افراح کی بات پر عیسیٰ مسکرایا اور اپنے اور اس کے درمیان فاصلے کو دیکھا۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ تو چل رہے تھے مگر ایک دوسرے سے فاصلے پر تھے۔ عیسیٰ اپنی حدود کا خیال رکھتا تھا۔ وہ سڑک چھاپ لڑکا نہیں تھا جو ہر دوسری لڑکی پر مر مٹتا یا پھر بغیر کسی رشتے کے کسی لڑکی کا ہاتھ آسانی سے تھام لیتا۔
اس کے برعکس افراح کی زندگی میں بےشمار لڑکے دوست تھے۔ جن کیساتھ وہ گھومتی پھرتی رہتی تھی۔ اسے عیسیٰ کا یہ لیا دیا انداز اچھا تو لگتا تھا مگر اپنے لئے جب وہ عیسیٰ کو محتاط ہوتا دیکھتی تو بول پڑتی تھی۔
“ہممم مطلب تم اس وقت میرا ہاتھ پکڑ کر پہاڑ پر چڑھنا چاہتی ہو؟”
عیسیٰ نے لہجے میں شرارت پیدا کی۔
“میں جانتی ہوں تم یہ کبھی نہیں کرو گے, ایوین کہ میں اگر اوپر سے گری تب بھی تم سوچو گے کہ اسے پکڑوں یا نہیں”
افراح نے اداسی سے کہا۔ جس پر عیسیٰ کا قہقہہ برف زاد پہاڑوں نے سنا۔
“آئی ڈونٹ نو دنیا میرے بارے میں اتنا نیگیٹو کیوں سوچتی ہے”
اس نے کندھے اچکائے۔ عیسیٰ اپنی فیلنگز کو کنٹرول کرنے کی حد درجہ صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ کسی پر آشکار نہیں کرتا تھا کہ اس کے دل میں ذہن میں اور زندگی میں کیا چل رہا ہے۔ اسی وجہ سے سب عیسیٰ سے نالاں رہتے تھے۔
“پہاڑ جانتے ہیں”
افراح نے گلگت کے میدان پر پڑنے والے اپنے اور عیسیٰ کے سائے کی پکچر کلک کی۔ اور اس کیپشن کیساتھ اپنے انسٹاگرام پر پوسٹ کردی۔
عیسیٰ کو یہ سب اچھا لگنے لگتا تھا۔ افراح کی توجہ افراح کا اسے اہمیت دینا عیسیٰ کے دل کو مسحور کر دیتا تھا۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی خود کو افراح کی طرف سے ملنے والی اس چھوٹی چھوٹی توجہ کا عادی بناتا جارہا تھا۔
“تم بھی بناسکتے ہو میموریز”
افراح نے اس سے کہا جس پر اس نے اپنے فون کا کیمرہ آن کیا۔ اور دور کھڑے دوست کو آواز دے کر بلایا۔ اب وہ دونوں اونچے برفیلے پہاڑ کی طرف منہ کر کے کھڑے تھے اور کیمرہ مین ان کے بیک سے پکچر لے رہا تھا۔ دونوں نے آسمان کے رنگ جیسی جینز پہنی ہوئی تھی اور اوپر دونوں کی ہی وہائٹ شارٹس تھیں۔ افراح نے وہائٹ شرٹ کے اوپر آسمانی رنگ کی اوپن شرٹ بھی پہنی ہوئی تھی۔ عیسیٰ کے سر پر وائٹ کیپ تھی۔ دونوں کے جوگرز بھی وائٹ تھے۔ ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑے یہ دونوں لوگ دیکھنے والوں کو ایک ہیپی کپل کی طرح لگ رہے تھے۔ عیسیٰ نے اپنے واٹس ایپ اسٹوری پر یہ پکچر لگائی بغیر کسی کیپشن کے۔

____________

عکس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کسی نے اسے انبلاک کیا تھا۔ تین مہینے بعد, مقصد صرف اذیت دینا تھا۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا تھا۔ عکس کا پورا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ اسکرین پر ایک تصویر تھی جس نے عکس کے پورے جسم کے اندر اذیت بھردی تھی۔ آنسو پلکوں کی حدود کو توڑتے ہوئے گرے تھے۔ وہ نہیں جانتی تھی پہلی بار اس نے خود کو کیسے روکا تھا کوئی ری ایکشن دینے سے۔ ضبط کی انتہا پر تھی وہ۔ چیخنا چاہتی تھی وہ۔ باآواز رونا چاہتی تھی۔ عیسیٰ کو افراح کے ساتھ دیکھ کر ایک بار پھر سے عکس کا دم گھٹنے لگا تھا۔ بجلی کی سی تیزی سے اس نے موبائل کو پھینکا باتھ روم کی طرف بھاگی۔ وضو بنایا۔ جائے نماز اٹھائی۔ عشاء کی صرف ایک اذان دور سے سنائی دی گئی تھی۔ ابھی اذانیں باقی تھیں۔ وہ جلد سے جلد اللہ کے سامنے بیٹھنا چاہتی تھی۔ یہی ایک جگہ تھی جو اسے روک سکتی تھی۔ جو اسے صبر دے سکتی تھی۔ کسی ری ایکشن سے روک سکتی تھی۔ نماز پڑھتے ہوئے اس کے آنسو جائے نماز پر گرتے رہے۔ وہ خود کو رونے سے روک نہیں سکی۔ لمبے سجدے میں اس نے پڑھا
اللھما اغفرلی۔ وارحمنی۔ واھدنی۔ وعافنی۔
اس نے سنا تھا سجدے میں بندا اللہ کے سب سے قریب ہوتا ہے۔ اس نے پھر سجدہ کیا پھر پڑھا
اللھما اغفرلی۔ وارحمنی۔ واھدنی۔ وعافنی۔
سجدے میں گرا کانپتا ہوا جسم۔ وہ صبر کرنا چاہتی تھی۔ خاموش رہنا چاہتی تھی۔ وہ کبھی خاموش نہیں رہی تھی۔ اس نے کبھی عیسیٰ کے معاملے میں صبر نہیں کیا تھا۔
اللھما اغفرلی وارحمنی وہ ہر سجدے میں بار بار دہرا کر اللہ سے اپنے لئے رحم مانگ رہی تھی۔
نماز ختم ہوئی تو اس نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر رو رو کر اپنے رب سے کہا۔ اس سے غلطی ہوگئی تھی اس نے محبت کرلی تھی۔ بندے کی زیادہ محبت کا حقدار صرف اور صرف اللہ ہے۔ اس نے ایک انسان کی محبت کو سب سے آگے رکھ دیا تھا۔ ہر وقت ایک انسان کو سوچنا۔ ہر وقت اس کی فکر میں رہنا۔ اس کے کھو جانے سے ڈرتے رہنا۔ وسوسے میں پڑے رہنا۔ خوف میں پڑے رہنا کہ فلاں شخص مجھ سے دور نا ہوجائے۔ اللہ کہتا ہے جو چیز تم سے چھوٹ جائے اس کے غم میں نا پڑو۔ جو چیز اللہ نہیں دینا چاہے وہ انسان لے نہیں سکتا۔ جو اللہ دے اسے کوئی چھین نہیں سکتا۔ کتنا کمزور ایمان تھا اس کا۔ پانچ وقت نماز پڑھنے والی لڑکی کا ایمان اتنا کمزور تھا کہ وہ چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہوکر ایک انسان کے پیچھے لگ گئی تھی۔
وہ اب عیسیٰ کی محبت پانے کیلئے نہیں روتی تھی۔ وہ روتی تھی تاکہ اسے صبر آ جائے وہ اپنے خاموش نا رہنے پر روتی تھی۔ وہ چاہتی تھی اللہ اسکی مدد کریں۔ وہ عیسیٰ کی طرف سے ملنے والی ہر تکلیف کو خاموشی سے سہہ جانا چاہتی تھی۔ اب وہ عیسیٰ کی بیوی تھی۔ اس کی محرم تھی۔ اپنے خاوند کے دل میں اپنے لئے نرمی وہ مانگ سکتی تھی۔ لیکن پہلے وہ خود کو نرم کرنا چاہتی تھی خود کو صابر بنانا چاہتی تھی۔ درگزر کردینے والی بننا چاہتی تھی۔
لیکن ہر بار جب وہ عیسیٰ کو افراح کے ساتھ دیکھتی تو اس سے سب کچھ جاتا رہتا تھا۔ ابھی بھی وہ دو گھنٹے جائے نماز پر بیٹھی رہی۔ فرحین کے دروازے پر دستک دینے سے وہ ہوش میں آئی۔

“تیرے رونے سے ابا کو تکلیف ہوتی تھی یاد ہے ناں؟ میرے مرے ہوئے باپ کو کیوں تکلیف دے رہی ہو عکس؟”
انہوں نے عکس کے بےتحاشہ روئے ہوئے چہرے کو دیکھ کر کہا۔ عکس نے خاموشی سے جائے نماز اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھی۔ پھر اپنا چہرہ دھوکر آئی۔ اور فرحین کے ساتھ بیٹھ گئی۔
“اللہ کے سامنے اس لیے روتی ہوں تاکہ دنیا کے سامنے بہادر بن جاؤں”
عکس نے آہستہ سے جواب دیا۔
“بہادر ہے میری بیٹی, اس کے اسٹیٹس کو دل پہ نہ لگا۔ چار دن کا کھیل ہے وہ نہیں کہتے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔ دیکھنا کیسے بھاگ کے آتا ہے”
کتنے وثوق سے کہہ رہی تھیں فرحین۔ لیکن جس پر بیت رہی ہوتی ہے اس نے گزارنی بھی تو ہوتی ہے نا؟
“چل آ کھانا کھاتے ہیں, تیری نماز ختم ہونے کے انتظار میں میرے پیٹ سے آوازیں آنے لگ گئی ہیں”
سرخ آنکھوں سے مسکرا کر وہ فرحین کے پیچھے چل پڑی۔ معمولات زندگی تو ساتھ ساتھ چلنے تھے۔
________________

کھانا کھانے کے بعد عکس نے فرحین سے اوپر والے پورشن میں کچھ دیر ٹھہرنے کی اجازت لی۔ اسکی ہمیشہ سے خواہش تھی وہ دیکھنا چاہتی تھی۔ عیسیٰ کہاں سوتا ہے۔ کہاں وقت گزارتا ہے۔ کہاں گیمز کھیلتا ہے۔ جس جگہ بیٹھ کر وہ عکس سے باتیں کرتا تھا وہ جگہ کیسی تھی۔ مختصر یہ کہ وہ اپنے محبوب کے زیر استعمال چیزوں کو چھو لینا چاہتی تھی۔ اسے محسوس کرنا چاہتی تھی۔ فرحین نے اجازت دی تو اس نے اوپر جانے والی سیڑھیوں پر قدم رکھے۔
“آرام سے اترا کرو کیسے ڈنگروں کی طرح سیڑھیاں اترتے ہو”
عکس کو اپنی ہی کہی بات یاد آئی جس پر عیسیٰ نے ویڈیو کال پر اسے کہا تھا۔
“دوبارہ ڈنگر بولا تو لڑکیوں کی طرح سیڑھیاں اترنے لگ جاؤں گا پھر تمہیں زیادہ برا لگے گا”
عیسیٰ کے اس جواب پر وہ بہت زیادہ ہنسی تھی۔
سامنے دو کمرے تھے۔ ان چار سالوں میں وہ دونوں کمروں کو بند دروازوں سے ہی پہچان سکتی تھی کہ ان میں سے گیمنگ روم کونسا تھا۔
اس نے لاک گھمایا کمرہ کھلتا چلا گیا۔ اس نے لائٹس آن کیں۔ ایک آواز خالی کمرے میں رقص کرنے لگی۔
“تمہیں روشنی میں نیند آجاتی ہے؟”
“جب مجھے سونا ہو مجھے کوئی چیز ڈسٹرب نہیں کرسکتی۔ لائٹس ماما آکر بند کردیتی ہیں بعد میں”
اس کی آواز کمرے میں تھی مگر وہ نہیں تھا۔
وہ گیمنگ روم میں گئی۔ جہاں خالی چئیر پر لمحے بھر کو اسے لگا عیسیٰ موجود ہے۔ جب چئیر نے حرکت نہیں کی تو وہ آگے بڑھی۔ وہ چئیر کی باڈی کو ہاتھ سے چھوکر محسوس کررہی تھی۔ شاید وہ کوئی لمس تلاش کررہی تھی۔
اپنی چھوٹی سی لائف کے ناجانے کتنے گھنٹے عیسیٰ نے صرف اس چئیر پر بیٹھ کر گزارے تھے۔
“ایک ہی جگہ بیٹھنے سے تھکتے نہیں ہو تم؟”
“اونہہہہ! لوہے کی باڈی ہے میری”
وہ ہنسا تھا۔
“تم لڑکیاں ہوتی ہو ویک, پندرہ منٹ فون کان کے ساتھ لگاکر بات کرلو تو کہتی ہو عیسیٰ میرے ہاتھ تھک گئے ہیں۔ میرے کان دکھ رہے ہیں, میرے بازو میں جان نہیں رہی فون پکڑنے کی”
اس نے عکس کی ہوبہو نقل اتاری تھی۔ اس کمرے کی دیواروں نے سنے تھے ان دونوں کے قہقہے۔ اسے لگا یہ در و دیوار اس پر ہنس رہے ہیں۔
اس نے گیمنگ روم کی چئیر کو بیک سے تھام کر اپنی پیشانی اس کے ساتھ ٹیک دی۔
“عکس میں تمہیں عالی شان بیڈروم نہیں دلا سکتا گیمنگ روم میں گزارا کرلو گی؟”
“کرلوں گی”
“دیکھ لو یہاں چئیر بھی ایک ہی ہے”
عیسیٰ نے اسے چھیڑا تھا
“میں کارپٹ پہ گزارا کرلوں گی”
“میں اکثر بھول جاتا ہوں یہ کارپٹ کس کلر کا ہے”
اس نے پھر چھیڑا تھا۔
“عیسیٰ میں تمہارے بال نوچ لوں گی”
عکس کے ناراض ہونے پر وہ بہت زور سے ہنسا تھا۔
“مجھے گنجا کرنا چاہتی ہو, میرے بالوں سے جیلس ہوتی ہو؟ تم سے زیادہ پیارے بال ہیں میرے اسلئے ناں؟”
“اففففف کتنے خودپرست ہو تم”
“مطلب پیارا نہیں ہوں میں؟”
اسے یاد آیا اس بات پر عیسیٰ کے ڈمپل ایکدم سے چھپ گئے تھے۔ اس نے گھورنے کی ایکٹنگ کی تھی۔ غصہ سے دیکھا تھا۔ منہ پھلادیا تھا۔ جس پر عکس نے ایک شعر کہا تھا اور عیسیٰ کے ڈمپل واپس سے چہکنے لگے تھے۔
“ستارے توڑ کر لانے کی کیا ضرورت ہے
ستارے دوڑ کر آئیں وہ اتنا دلکش ہے”
اس کمرے میں ہر طرف عیسیٰ کی خوشبو تھی۔ بس وہ خود نہیں تھا۔
عکس اس چئیر کو بانہوں میں لئے رو رہی تھی۔
“جب تم مجھے پہلی بار ملو گی تو تمہارا ری ایکشن کیا ہوگا عکس؟”
اس نے پوچھا تھا۔
“تم سے مل کر خوب رونا ہے”
عکس کے جواب نے اسے حیرت میں ڈالا تھا۔
“مجھ سے مل کر بھی رونا ہے؟”
“ہممممم”
“چلو میں تمہاری بہتی ناک اپنی شرٹ سے صاف ہونے دے دوں گا۔ رو لینا عکس”
اس نے کھلے دل سے کہا تھا۔ اور عکس اس کی بات کے مطلب کو سوچ کر بلش کر گئی تھی۔
وہ رو رہی تھی۔ اس کے کمرے میں اس کی جگہ پر بیٹھ کر رو رہی تھی۔ اس کمرے کی ہر چیز سن رہی تھی بس وہ نہیں سن رہا تھا۔ جو اس کے رونے سے گھبرا جایا کرتا تھا۔
___________

گاڑی گھر کے باہر آکر رکی۔ بیگز اترے۔ بھاری بوٹوں کی آواز نے چند قدموں کو رخصت کیا اور ںیل پر ہاتھ رکھا گیا۔
رات کے بارہ بج رہے تھے۔ اس گھر کے لوگ تقریباً سو ہی چکے تھے۔ عکس جاگ رہی تھی۔ بیل کی آواز پر وہ گھبرائی۔ اس نے بڑی سے کھڑکی کے بند شیشوں سے جھانکنے کی ناکام کوشش کی۔ لیکن اس کھڑکی کا رخ کسی رہگزر سے خالی تھا۔ وہ مایوس لوٹ کر بستر تک آئی۔ اور بیڈ پر چت لیٹ گئی۔
عیسیٰ کو پاپا نے گلے لگایا۔ پھر وہ ماما سے ملا۔ کتنی دیر وہ اسے گلے لگائے کھڑی رہیں۔ عیسیٰ بھی خاموشی سے اس ٹھنڈک کو محسوس کرتا رہا۔ ماں کے سینے سے لگ کر ملنے والی ٹھنڈک کے آگے گلگت کی ٹھنڈ کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ فرحین نے عیسیٰ کے بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرا ماتھے پر پیار دیا۔ وہ مسکراتا رہا۔
“کچھ دن دور رہنے سے پیار زیادہ ملتا ہے ہاں؟”
اس نے شرارت سے کہا۔
“پتر تمہیں پیار کم ملا کب ہے؟”
پاپا نے کہا تو عیسیٰ نے پراؤڈلی کہا
“ہممممم پیار کی کمی نہیں ہے آپ کے بیٹے کو”
فرحین بار بار اسے دیکھ دیکھ رہی تھیں بار بار اس کے ہاتھ چوم رہی تھیں۔
“اب میں آیا ہوں تو آپ رو رہی ہیں, آپ کو پتا ہے ناں کوئی روتا ہے تو میرا دل گھبراتا ہے , مجھے وہ جگہ اچھی نہیں لگتی۔ واپس چلا جاؤں گا میں ادھر گلگت میں کوئی نہیں روتا”
عیسیٰ نے رونے سے روکا تو انہوں نے آنسو صاف کئے اپنے۔
“بہت دناں بعد دیکھا ہے ناں اپنے پتر نوں, تے رونا آگیا سی”
انہوں نے پنجابی میں بولا۔
کچھ دیر تینوں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے عیسیٰ اپنے ٹرپ کے بارے میں بتاتا رہا۔ اس نے ماما پاپا کیلیے خریدے گئے گفٹس انہیں دئیے۔ بہت زیادہ خوش ہوکر وہ واپس آیا تھا اتنا زیادہ خوش کہ اس خوشی میں وہ بھول ہی گیا تھا کہ اس گھر میں ایک اور فرد کا اضافہ بھی ہوا تھا۔ اور یہ اضافہ اس کیلئے سخت نفرت کا باعث تھا۔
راتی جد گنڑ دا تارے سوچے دل تیرے بارے
توں وی تاں دیوانی میری ہوئی۔
گنگناتے ہوئے وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ کمرے کے دروازے کا ہینڈل گھماتے ایکدم اس کے ہاتھ رکے۔
ایک وجود اس کی آنکھوں کے آگے لہرایا۔
اس نے لب بھینچے۔
پھر ہمت کی اور کمرے کے اندر قدم رکھا۔ ساری لائٹس آن کیں۔ چاروں طرف نظریں گھمائیں۔ کچھ نیا نہیں تھا۔ اس نے اپنی تسلی کو کبرڈ کھولا۔ صرف اسی کے کپڑے تھے۔ وہ باتھ روم گیا۔ کسی ایکسٹرا روح کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ پر طرح سے اطمینان کرلیتے کے بعد اس نے سکھ کا سانس لیا۔ شرٹ اتار کر زمین پر پھینکی۔ پھر گنگنانے لگا۔
توں ہووے میں ہوواں دنیا توں دور ہوئییے
اوتھے نا ہووے ہور کوئی۔
اب وہ شاور کے نیچے کھڑا بھیگ رہا تھا۔ یہ اس کا سب سے پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اسے گنگنانا اچھا لگ رہا تھا
تو میرے نال آجا دل تیرا ساتھ منگے
چاہیدا نئی کئیندا ہور کوئی۔
اس کے ذہن کے پردے پر ایک ہی چہرہ تھا افراح جہانگیر کا۔
جیڑے پاسے میں ویکھاں دسدا مینوں تیرا چہرا
دسدا نا مینوں ہور کوئی۔
توں ہوویں میں ہوواں۔ دنیا توں دور ہوئیے۔
اوتھے ناں ہووے ہور کوئی۔
سونے سے پہلے آخری چہرہ جو اس کے ساتھ رہا وہ افراح جہانگیر کا تھا۔ وہ سکون سے سویا کرتا تھا۔ اسے خواب نہیں آتے تھے۔ جو چند خواب تھے وہ اسے یاد نہیں رہتے تھے۔ نا وہ خوابوں پر یقین رکھتا تھا۔ نا انہیں سوچ کر اپنا وقت ضائع کرتا تھا۔ اسلئے افراح کو سوچتے رہنے کا سلسلہ نیند میں ڈوبنے تک کا تھا۔

 … جاری ہے
(اشنال)

1 thought on “Delusion – Episode 10”

Your thoughts matter – share them below!

Scroll to Top